بچے انگوٹھا کیوں چوستے ہیں؟۔

1611

مریم باجوہ
دو سالہ علی کی انگوٹھا چوسنے کی عادت کی وجہ سے اس کے والدین کافی پریشان رہتے تھے۔ علی نے بہت چھوٹی عمر سے ہی انگوٹھا چوسنا شروع کردیا تھا‘ جب دو سال گزرنے کے بعد اس نے یہ عادت نہ چھوڑی تو اس کے والدین نے ماہر اطفال سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر کے مختلف سوالات کے جواب میں علی کی والدہ نے یہ انکشاف کیا کہ بعض وجوہات کی بنا پر علی اپنی ابتدائی عمر میں ماں کے دودھ سے محروم رہا تھا‘ ماہر اطفال کے تجزیے کے مطابق ماں کے دودھ کا بچے کو میسر نہ ہونا بھی اس عادت کے پختہ ہونے کی ایک وجہ ہو سکتی تھی۔
ابتدا میں عام خیال یہ پایا جاتا تھا کہ بچے عموماً انگوٹھا چوسنا اس وقت شروع کرتے ہیں جب وہ تھکے ہوں‘ بور ہو رہے ہوں یا انہیں آرام کی ضرورت ہو لیکن بعد کی سائنسی تحقیقات نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بچے میں اس عادت کے نمودار ہونے کی کوئی پختہ وجہ ہو سکتی ہے۔ دنیا میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں ایسے شیر خوار بچے ہیں جن میں انگوٹھا چوسنے کی عادت پائی جاتی ہے۔ کچھ بچوں میں یہ عادت عمر کے ابتدائی حصے میں ختم ہو جاتی ہے مگر کچھ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ بچوں میں عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے۔
ماہرین کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ انگوٹھا چوسنے کی عادت فطری طور پر اور خود بخود ان بچوں میں پیدا ہو جاتی ہے جو کہ ابتدائی عمر میں ہی ماں کے دودھ سے محروم ہو جاتے ہیں انگوٹھا چوسنے کی عادت دراصل بچے میں ماں کے دودھ کی فطری خواہش پوری نہ ہونے کا ردعمل ہو سکتی ہے۔
تحقیقات نے اس حقیقت کو بھی ثابت کیا ہے کہ وہ بچے جو ماں کا دودھ اپنی عمر کے ابتدائی حصے میں ہی شروع کر دیتے ہیںوہ اس عادت کا شکار کم ہوتے ہیں بہ نسبت ان بچوں کے جن کو ماں کا دودھ میسر نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ جو بچے ماں کا دودھ ہر تین گھنٹے بعد پیتے ہیں ان میں ہر چار گھنٹے کے بعد ماں کا دودھ لینے والے بچوں کی بہ نسبت انگوٹھا چوسنے کی شرح کم پائی گئی ہے۔
حقیقت بھی یہ ہے کہ دراصل ماں کا دودھ بچے کے لیے ایک نعمت ہے جو قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ماں کا دودھ شیر خوار بچوں کے لیے نہ صرف ایک مکمل غذا ہے جو کہ ان کی تمام غذائی ضروریات کو بخوبی پورا کرتا ہے بلکہ بچے کی آنے والی زندگی میں بھی اس کے دوررس نتائج بچے کی ذہنی و جسمانی صحت اور شخصیت کی نشوونما پر نمودار ہوتے ہیں۔ ماں کا دودھ نہ صرف بچے کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے اور مستقبل میں اس کو خطرناک بیماریوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے بلکہ یہ ماں اور بچے کے تعلق کو بھی مضبوط کرتا ہے اور اس کی شخصیت پر انتہائی مثبت اثرات نمودار ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے بچے کی پیار اور توجہ لینے کی فطری خواہش کی تسکین ہوتی ہے۔
وہ بچے جو ماں کے دودھ پر پرورش پاتے ہیں‘ ان میںاسہال‘ الرجی اور بچے کے جسم پر نمودار ہونے والے نشانات کا تناسب بہت کم پایا گیا ہے۔ ماں کا دودھ نہ صرف بچے کے لیے ایک نعمت ہے بلکہ بچے کو دودھ پلانا مائوں کے لیے خود بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کو خود دودھ پلاتی ہیں وہ چھاتی اور بیضہ دانی کے سرطان‘ کولہے کے فریکچر اور سن یاس کے بعد ہونے والے اسٹیوپورسس کے خطرے سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔
ماں کے دودھ کے فوائد کی بنا پر آج کل دنیا بھر کے ماہر اطفال نوجوان مائوں کو اپنے بچے کو خود دودھ پلانے پر بہت زور دیتے ہیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی اور روحانی طور پر بھی مضبوط شخصیت کی حامل ہوں۔

حصہ