عید کا مزا تو اپنوں کے درمیان ہی ہوتا ہے

970

افروز عنایت
فرحت: امی آپ اعتکاف میں بیٹھیں گی، مجھے دعائوں میں یاد رکھیے گا۔
میں(امی) : ضرور بیٹا، آپ چاروں تو میری ہر دعا میں شامل ہیں، ویسے تم لوگ 29 رمضان تک آئو گے؟
فرحت (بیٹا): نہیں امی… اِس مرتبہ ہم پاکستان نہیں آسکیں گے، آفس کا کام بہت ہے، صرف تین دن کی چھٹی ہے، اب تین دن کے لیے کیا آئیں! ان شاء اللہ عیدالاضحی پر پورے ایک مہینے کی چھٹیوں پر آئیں گے۔
بیٹے کی بات سن کر میں بجھ گئی، لیکن میں نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ کوئی بات نہیں بیٹا… ان شاء اللہ اگلی عید ہم سب ساتھ منائیں گے۔
اعتکاف میں بھی فرحت اور سنبل (بہو) دونوں مجھ سے افطار کے بعد ایک منٹ ہی سہی، ضرور بات چیت کرتے اور حال احوال دیتے۔ ستائیسواں روزہ تھا، افطار سے پہلے شائستہ (بڑی بہو) میری افطاری کمرے میں رکھ کر گئی۔ امی کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیجیے گا۔
جزاک اللہ بیٹا، خوش رہو… عدینہ کہاں ہیں شائستہ! امی اسے آپ کے پاس بھیجوں؟ یہیں ہے/ شائستہ واپس چلی گئی۔ میں دعائوں میں مشغول ہو گئی لیکن بار بار فرحت اور سنبل کا خیال آرہا تھا کہ دونوں بچے 28 رمضان تک آجاتے ہیں نہ جانے میرے بچے وہاں کیسے عید منائیں گے افطار کے بعد عبداللہ (چھوٹا بیٹا) کمرے میں سلام کرنے آیا تو سلام کرکے میرا مختصر حال احوال لیا پھر کہنے لگا فرحت بھائی اور بھابھی تو اس مرتبہ عید پر نہیں آئیں گے… آپ عید کر لیں گی (اس کی آنکھوں میں شرارت تھی) اس نے کل بھی مجھ سے یہی سوال کیا تھا میں نے زیادہ غور نہیں کیا۔ بیٹا بچے جہاں بھی رہیں خوش رہیں عبداللہ مسکرا کر کمرے سے چلا گیا تراویح پڑھ رہی تھی کہ باہر سے کھسر پھسر کی آواز آئی میں نے دھیان نہیں دیا تراویح ختم کرکے میں تسبیح و ذکر الٰہی میں مصروف ہو گئی آہستہ سے میرے کمرے کا دروازہ کھلا دروازے پر عفت (شادی شدہ بیٹی) تھی دروازے پر ہی کھڑے ہو کر میری خیریت پوچھی مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ وہ اس وقت اور اچانک … خیر کہنے لگی کسی کام سے نکلی تھی سوچا آپ لوگوں کی خیریت معلوم کرتی جائوں (بعد میں پتا چلا وہ فرحت اور سنبل کا کمرہ سیٹ کرنے آئی تھی)
سحری میں شائستہ برتن اٹھانے آئی تو میں نے پوچھا کہ آپ سب نے سحری کر لی کہنے لگی جی امی… بس اذان ہونے والی ہے تینوں باپ بیٹے نماز کے لیے نکل رہے ہیں۔
اتنے میں چاروں طرف اللہ اکبر… کی پر تاثیر صدا فضائوں میں بکھر گئی۔ نماز فجر، پھر اشراک وغیرہ سے فارغ ہو کر میں پلنگ پر لیٹ کر تسبیح پڑھنے لگی لیکن بار بار خیال آرہا تھا کہ آج آٹھائیسواں روزہ ہے بچے عموماً صبح کی فلائیٹ پر آجاتے ہیں خیر میں نے بچوں کے لیے دعا کی کہ یا اللہ انہیں حفظ و امان میں رکھنا۔ آنکھیں موندیں درود کا ورد کرنے لگی میرا منہ دروازہ کی طرف تھا ہلکی سے آواز پر میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا فرحت کھڑا تھا میں مسکرا پڑی… یہ اولاد بھی عجیب میٹھی نعمت ہے اس وقت فرحت کی فلائیٹ ہوتی ہے اور اس وجہ سے میرا دھیان اسی طرف ہے اللہ مجھے معاف کرے میں دوبارہ آنکھیں بند کرکے تسبیح پڑھنے لگی دوبارہ ہلکی سی کھٹ کی آواز آئی میں نے آنکھیں کھولی تو فرحت اور سنبل دونوں کھڑے تھے میں پھر مسکرا دی کہ اولاد بڑی آزمائش ہے اب کے دونوں بچے میرے پلنگ کے قریب آگئے… اور… میں چلانگ لگا کر اٹھ بیٹھی آنکھوں کی نمی کو چھپا کر دونوں بچوں کو گلے لگایا پیچھے عبداللہ شرارت سے مسکرا رہا تھا امی کیسا لگا سرپرائز… ہم سب کا۔
٭…٭…٭
عید تو ہمیشہ ہی خوشیوں کا پیغام لاتی ہے۔ لیکن اس عید کا مزا ہی کچھ اور تھا بچوں کے لیے بھی اور میرے لیے بھی بیشک عید تو اپنوں کے ساتھ ہی مزا دیتی ہے۔ پھر وہ بھی اس طرح اچانک… ایک سرپرائز کے ساتھ۔
٭…٭…٭
میں یہ واقعہ بھول نہیں پاتی گرچہ یہ ایک معمولی واقعہ لگتا ہے لیکن اس کی چاشنی آج بھی محسوس کرسکتی ہوں میری شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا سسرال میں میری پہلی عید تھی میکے میں رواج تھا کہ عید کے پہلے ہی دن نماز عید کے بعد گھر والوں سے عید ملنے کے بعد اپنے بزرگوں سے ملنے مرد حضرات روانہ ہوجاتے میرے دادا خاندان کے سب سے بڑے بزرگ تھے لہٰذا ان سے ملنے کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوتا اور اماں ان کی خاطر مدارات کرتیں۔ (مجھے سسرال میں یہ بات نظر نہ آئی) شوہر اور دیور تیار ہو کر دوستوں کی طرف گھر سے نکل رہے تھے تو میں نے شوہر سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں میں سمجھی قریب ہی رشتے دار رہتے ہیں شاید ان سے ملنے اور سب سے بزرگ ہستی جو حیات تھیں وہ ان کی نانی تھیں جو مجھ سے بھی بہت پیار کرتیں تھیں شاید ان کی طرف جائیں گے۔ لیکن انہوں نے نفی میں گردن ہلائی بلکہ حیرانی کا اظہار بھی کیا تب میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ آپ اپنی نانی سے عید ملنے نہیں جائیں گے وہ تو آپ سے بہت محبت کرتیں ہیں میری بات کا انہوں نے جواب نہیں دیا میں نے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا شام کو نانی ہم سب سے ملنے آئیں تو مجھے گلے لگا کر بہت پیار کیا اور دعائیں دینے لگیں کہ دلن خدا تمہیں بہت سی خوشیاں نصیب کرے آج تمہاری وجہ سے… میرا نواسا میرے گھر آیا مجھ سے عید ملنے کے لیے، کتنے عرصہ کے بعد وہ میرے گھر آیا میں اپنی خوشی تم سے بیان نہیں کر سکتی، ان کی آنکھوں میں جو محبت کی چمک عیاں تھی جو چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ آج کا عید کا دن ان کے لیے کتنی خوشی کا باعث بنا ہے۔ نانی کی وہ خوشی اور وہ دعا آج بھی میرے لیے کسی سرمایہ سے کم نہیں ہیں جسے میں ہمیشہ یاد رکھتی ہوں۔
٭…٭…٭
دادا کا زیادہ وقت اپنے آبائی شہر (گائوں) میں گزرتا تھا وہ دو مہینہ کراچی رہتے تو دو مہینے گائوں میں بابا اور اماں کو ان کی بڑی فکر رہتی کہ اس عمر میں انہیں وہاں دشواری نہ ہو لیکن وہ مسکرا کر کہتے کہ وہاں کی آب و ہوا اور ماحول میری صحت کے لیے آب حیات ہیں اور میرا خیال رکھنے والے وہاں بہت سے لوگ ہیں لیکن ایک بات جو ہم سب کے لیے باعث تسکین فرحت تھی چاہے کچھ بھی ہو دادا دونوں عیدیں ہمارے ساتھ کراچی میں گزارتے اس موقع پر ہم بچوں کی خوشی تو دیدنی تھی لیکن دادا خود بھی خوش ہوتے ان کی خوشی ان کی آنکھوں سے اور پوتے سے واضح ہوتی دادا کی وجہ سے عید کے دن گھر میں بڑی رونق نظر آتی کیونکہ خاندان کے بڑے بزرگ تھے سب ہی ان کا احترام و عزت اور ان سے محبت کرتے لہٰذا صبح سے ہی سارے رشتہ دار دادا سے ملنے آتے اماں اس موقع پر خاص طعام کا انتظام کرتیں آنے والے مہمانوں اور گھر کے مکینوں کو اس موقع پر جو خوشی حاصل ہوتی اس کو میں یہاں بیان کرنے سے قاصر ہوں بے شک عید کا مزا جو اپنوں کے درمیان رہنے سے ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں اس بات کا اندازہ پر دیس میں رہنے والے بخوبی جانتے ہیں۔ میرے دونوں بھائیوں کی جب سعودی عرب میں ملازمت لگی تو پہلے سال عید ان کی وہیں گزری جس کا وہ تزکرہ آج تک کرتے ہیں کہ کبھی ہماری عید اتنی اداسی میں نہیں گزری سوائے ’’اس سال‘‘ کے گرچہ دونوں بھائی ساتھ تھے لیکن پھر بھی تنہائی تھی نماز عید کے بعد تمام دن لیٹنے کے علاوہ اپنوں کو یاد کرتے گزری جی چاہتا تھا کہ پر لگ جائیں تو اڑ کر اپنوں کے پاس پہنچ جائیں۔
٭…٭…٭
عید الفطر ہو یا عید الضحیٰ یہ دونوں اسلامی تہوار ہیں جسے دائرہ اسلام میں رہ کر منانا چاہیے اپنی اور دوسروں کی خوشی کو مدِ نظر رکھ کر اس تہوار کو منانا افضل ہے جس طرح اپنوں کو اس موقع پر یاد کرنا ضروری ہے اسی طرح ہمارے آس پاس کچھ ایسے اللہ کے بندے ہیں جو بے بس ہیں خوشیاں منانے سے، ان کا خیال رکھنا انہیں شامل کرنا بھی ضروری امر ہے یہی دینِ اسلام کی تعلیم ہے جیسا کہ آپؐ کی زندگی سے ظاہر ہوتا ہے ایک مرتبہ آپؐ نمازِ عید سے واپس تشریف لا رہے تھے راستے میں ایک غریب یتیم بچے کو روتے بسورتے دیکھا تو اسے اپنے گھر لے کر آئے نہلوا دھلوا کر اچھے کپڑے پہنوائے اور اس کے ساتھ دن کا کچھ حصہ گزارا اس طرح اس بچے کی کچھ محرومیاں دور ہو گئیں۔
ہم بھی اپنے آس پاس نظر دوڑائیں اگر ایسا کوئی خاندان یا افراد موجود ہیں جو ان خوشیوں کو منانے سے محروم ہیں ان کی مالی مدد کرکے اس فریضے کو ادا کرسکتے ہیں صاحبِ حیثیت لوگ کسی ایک یتیم بچے کی کفالت کرکے یا کسی ایک غریب خاندان کو کم از کم ماہ رمضان اور عید کے دن کے لیے راشن اور نئے کپڑوں کے لیے کچھ مالی امداد کرکے انہیں بھی اس خوشی میں شامل کرسکتے ہیں ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو مانگتے یا ہاتھ پھیلانے سے شرماتے ہیں ہمیں انہیں تلاش کرکے ان تک اللہ کی نعمتیں پہنچانی چاہیے یہی اس عظیم تہوار کا صلہ ہے نہ صرف اپنوں کو اس خوشی کے موقع پر شامل کریں بلکہ ضرورت مندوں مفلسوں اور یتیموں کو بھی چند لمحوں کی خوشیاں بانٹیں بیشک میرا رب اس امر سے راضی ہو گا اور ہمارا دل بھی تسکین پائے گا۔ لہٰذا ہر ایک کو ابھی سے کسی ایسے محروم فرد یا خاندان کو اس عید پر خوشی اور سکھ دینے کا مصمم ارادہ کر لیں یقین کریں اللہ آپ کو ضرور کامیابی دے گا اور اجر بھی ان شاء اللہ

حصہ