شریکِ مطالعہ: موقر ادبی جریدے “استعارہ” کا پانچواں شمارہ

1038

نعیم الرحمٰن
ڈاکٹر امجد طفیل اور ریاظ احمد کے مؤقر ادبی جریدے ’’استعارہ‘‘ کا پانچواں شمارہ شائع ہوگیا۔ الحمد پبلشرز کے شائع کردہ سہ ماہی جریدے نے ادبی رسائل میں بروقت اشاعت کی نئی مثال قائم کی ہے۔ پانچ شمارے ہر تین ماہ بعد تشنگانِ ادب کی پیاس بجھانے کو شائع ہوئے۔ ملک کے بہترین پبلشرکے تحت پرچہ صوری و معنوی حسن سے بھی آراستہ ہے۔ 288 صفحات کے اس رسالے کی 400 روپے قیمت نہایت مناسب ہے۔ ’’استعارہ‘‘ نے ابتدائی چند شماروں میں شان دار شعری و نثری مواد اور عمدہ پیشکش سے ادب نواز حلقوں میں اپنی جگہ بنالی ہے۔
پانچویں شمارے کے ساتھ استعارہ نے اپنی اشاعت کے دوسرے سال میں قدم رکھ دیا ہے۔ مدیران نے اس ادبی رسالے کو ایک ایسا گل دستہ بنانے کی کامیاب کوشش کی جس میں شائع ہونے والا نثری اور شعری حصہ ہر حلقے اور ذوق کی تسکین کرسکے۔ اردو دنیا کے تمام اہم اور مستند شعرا اور ادبا کا تعاون اسے حاصل رہا ہے۔ استعارہ نے نامور لکھاریوں کے طویل اور مفصل انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا جو ابتدا سے دلوں میں گھرکر گیا۔ ’’نیا قلم‘‘ کے زیرِعنوان نئے افسانہ نگارکا مختصر تعارف اور اس کے چند افسانے اور ’’تازہ کار و پختہ کار‘‘ کے عنوان سے نئے شاعرکا تعارف اور کلام استعارہ کا اختصاص ہے۔ اس کے علاوہ اداریے میں موجودہ شمارے کے مشمولات کا مختصر تعارف بھی بہت عمدہ انداز ہے۔
تازہ شمارے کا آغاز منفرد غزل گو عباس تابش کی خوب صورت حمد اور منورجمیل کی نعت سے ہوا ہے۔ حمد و نعت کے دو، دو اشعار:

اک ایک حرف ہو خوش ذائقہ جو تُو چاہے
بہت پھلے مرا نخلِ دُعا جو تُو چاہے
تُو جانتا ہے کہ ٹوٹی ہوئی کڑی ہوں میں
میں اِس کڑی سے بنوں سلسلہ جو تُو چاہے
٭
تم کبھی دیکھو تو اُس کی سمت دل کی آنکھ سے
بہتے دریاؤں میں بھی رستہ بنا دیتا ہے وہ
کیا تدبّر ہے کہ راہِ حق پہ لانے کے لیے
اپنے دشمن کو بھی موقع بارہا دیتا ہے وہ

اس مرتبہ طویل انٹرویو اردو کے صاحبِ طرز اور منفرد افسانہ نگار، شاعر، ڈراما نگار اسد محمد خان کا ہے، جس سے اسد محمد خان کے بارے میں قارئین کو بہت سے نئی باتوں کا علم ہوا۔ انٹرویو کرنے والے پینل میں ڈاکٹر امجد طفیل، ریاظ احمد اور عقیل اختر شامل ہیں، جنہوں نے اس کی بھرپور تیاری کی اور عمدہ سوالات سے انٹرویو کی اہمیت اور وقعت میں اضافہ کیا۔ اسد محمد خان کی حیات اور خدمات کا تعارف افسانہ نگار و شاعر اور ادبی جریدے ’’مکالمہ‘‘ کے مدیر مبین مرزا نے کرایا ہے جس کے مطابق ’’اسد محمد خان کا تعلق پٹھانوں کے قبیلے اورکزئی سے ہے۔ والد صاحب بھوپال کے ایک ہائی اسکول میں مصوری کی تعلیم دیتے تھے۔ اسد محمد خان کی والدہ، غالب کے شاگرد نواب یار محمد خان شوکت کی پوتی تھیں۔ ان کے نانا کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ اسد محمد خان مئی 1950ء میں تنہا پاکستان آگئے تھے۔ دوران ِ ملازمت انہوں نے بی اے کیا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی ادب میں داخلہ لیا لیکن بہ وجوہ فائنل کا امتحان نہ دے سکے۔ ابتدا شاعری سے کی، ساتھ ہی ریڈیو کے لیے خاکے لکھے۔ پھر ٹی وی ڈرامے لکھتے رہے۔ 70 کے عشرے میں افسانہ نگاری کی ابتدا کی۔ ان کی ایک کہانی ’’ترلوچن‘‘ ایک سال پہلے تک برطانیہ کے اے لیول اردو مطالعے کے نصاب میں شامل تھی۔ اسد محمد خان کی اب تک آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جبکہ نویںکتاب ’’یادیں…گزری صدی کے دوست‘‘ زیرطبع ہے۔‘‘
اسد محمد خان کے انٹرویو سے یہ بھی علم ہوا کہ انہوں نے ابتدا ہی سے گھریلو ضروریات کے لیے کمرشل تحریروں اور خالص ادبی تحریروں کو الگ کردیا تھا۔ معاش کی خاطر انہوں نے جو ٹی وی ڈرامے لکھے اور دیگر کام کیے انہیں ادب میں شمار نہیں کرتے۔ کمرشل تحریروں سے وہ تین بہنوں کی شادی کے فرض سے سبک دوش ہوئے۔ ریٹائرمنٹ پر جب محکمے سے معقول رقم مل گئی تو کمرشل لکھنا ترک کردیا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ سے انسپکٹر امپورٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اس انٹرویو سے قارئین کو یہ بھی علم ہوا کہ اسد محمد خان کمیونسٹ پارٹی کے رکن بھی رہے، اس کے ورکر کے طور پر گرفتار بھی ہوئے۔ یہ بہت دل چسپ اور معلوماتی انٹرویو ہے۔
استعارہ کے تازہ شمارے میں نوبیل انعام یافتہ ناول نگار ’’سال بیلو‘‘ کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ انٹرویو ’’دی پیرس ریویوز‘‘ کے گورڈن لائڈ ہارپر نے کیا ہے، جس کا ترجمہ ہالینڈ میں مقیم مصنف اور ترجمہ نگار فاروق خالد نے کیا ہے۔ سال بیلو کیوبک کینیڈا میں 1915ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن شکاگو امریکا میں گزرا، جہاں ان کے والدین نے نقل مکانی کی تھی۔ 1935ء میں انہوں نے بشریات و عمرانیات میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ گریجویشن کی۔ سال بیلوکے ابتدائی دو ناولوں ’’ڈینگلنگ مین‘‘ اور ’’دی وکٹم‘‘ نے پرستاروں کی توجہ حاصل کی، لیکن انہیں زیادہ شہرت ’’دی ایڈونچرآف دی ایوگی مارچ‘‘ سے ملی، جسے 1954ء میں قومی کتاب ایوارڈ بھی ملا۔ ان کے کامیاب ناولوں میں ’’سینز آف دی ڈے‘‘ اور ’’ہینڈرسن دی رین کنگ‘‘ ہیں، جب کہ سب سے مشہور ناول ’’ہرزوخ‘‘ ہے جسے 1964ء کا قومی کتاب ایوارڈ دیا گیا۔ سال بیلو پرسٹن اوربارڈ یونیورسٹی میں استاد بھی رہے۔ یہ انتہائی دل چسپ اور معلومات افزا انٹرویو ہے جس کا ترجمہ بھی فاروق خالد نے بہت عمدہ کیا ہے۔ عالمی ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے سال بیلو کا انٹرویو ایک تحفۂ خاص ہے۔
’’نیا قلم‘‘ میں اس بار ڈاکٹر آثر اجمل کے تین افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر آثر ممتاز ماہرِ نفسیات اور دانشور ہیں۔ ان کی معاصر انفرادی اور اجتماعی معاملات پر گہری نظر ہے۔ اب انہوں نے افسانہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھا ہے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’مسلمان‘‘ استعارہ کے پہلے شمارے میں شائع ہوا تھا، جسے اب قندِ مکرر کے طور پر دیگر دو افسانوں ’’کامریڈ‘‘ اور ’’اکتوبرکی رات‘‘ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
’’تازہ کار و پختہ کار‘‘ میں اس مرتبہ ابھرتے ہوئے شاعر سعید احمدکی دس غزلیں دی گئی ہیں۔ سعید احمد نے ادبی سفر کا آغاز تو نظم گو کے طور پرکیا تھا۔ ان کے پہلے شعری مجموعے ’’بے آب آئینوںکے شہر میں‘‘ نے اپنی اہمیت منوالی تھی۔ ان کے لہجے کی تازگی نے متاثر کیا تھا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’دن کے نیلاب کا خواب‘‘ نے ان کی ادبی حیثیت کو مستحکم کردیا۔ وہ نظم کے ساتھ غزل بھی بڑی عمدہ کہتے ہیں۔

پلکوں کے آس پاس طلسم اک نگیں کا تھا
تازہ وہ آخری سحر سرمگیں کا تھا
جب گفتگو تھی شہر میں تنہائی کے خلاف
کیا نقطۂ نظر مرے گوشہ نشین کا تھا
کھڑکی کھلی کہ حیرتِ منظر کھلی سعید
اک پھول جو خلا میں کھلا تھا، زمین کا تھا
اک شاخ پر ذرا سی کلی کے عیاں کے بعد
خوفِ خزاں کا باب کھلا ہے خزاں کے بعد

استعارہ کا افسانوں کا حصہ تقریباً 50 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں پانچ افسانہ نگاروں کے چھ افسانوں کو جگہ دی گئی ہے۔ ہندی کے معروف افسانہ و ناول نگار نرمل ورما کے طویل افسانے ’’اندھیرے میں‘‘ کا بہت عمدہ ترجمہ محمد عباس نے کیا ہے۔ سینئرکہانی کار رشید امجد ’’چار درویشوں کی نئی کہانی‘‘ لے کر آئے ہیں۔ رشید امجد صاحب قدیم اور روایتی قصہ چہار درویش کے انداز میں دورِ جدید کے چار درویشوں کی کہانی اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے ہیں۔ افسانہ ابتدا ہی سے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتا ہے۔ مختصر اقتباس دیکھیں: ’’پہلا درویش کہنے لگا: اس عرصے میں جگہ جگہ گھوما، کئی طرح کے لوگ دیکھے، لیکن ایک شہر بڑا عجیب تھا۔ باقی تینوں درویش ہمہ تن گوش تھے۔ پہلا درویش کھنکارا: مضبوط فصیلوں کے اندر یہ شہر مجھے قیدی کی طرح لگا۔ عجیب لوگ تھے۔ پہلا درویش چند لمحوں کے لیے چپ رہا، پھر بولا: ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ توکیا وہ اندھے تھے؟ ایک نے سوال کیا۔ پہلے درویش کو خوشی ہوئی کہ اس کی بات کو توجہ سے سنا جا رہا ہے۔ بولا: نہیں اندھے نہیں تھے، پر ان کے سارے طور طریقے اندھوں جیسے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ انہیں ایک دوسرے کا یا تو احساس نہیں یا ایک دوسرے کی پروا ہی نہیں۔ ہر شخص اپنے اپنے راستے پر مگن تھا۔ کوئی مرے یا جیے‘ اُسے دوسروں کی پروا نہیں تھی۔‘‘ داستانی انداز میں دورِِِ جدید کے انسان کا المیہ کس خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ یہی انداز پورے افسانے میں موجود ہے۔
منفرد افسانہ نگار اور مترجم محمود احمد قاضی کا مختصر افسانہ ’’گھات‘‘ بھی قارئین کی دل بستگی کے لیے موجود ہے۔ ایم بابر ریاض ایک نیا نام ہے، جن کا افسانہ ’’محبت‘‘ اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ مدیر استعارہ ڈاکٹر امجد طفیل کے دو افسانے ’’کوئی دن اور‘‘ اور ’’ایک پلیٹ بریانی اور ایک کپ کافی‘‘ پرچے میں شامل ہیں۔
15 صفحات پر مشتمل غزلوں کے حصے میں 17 شعرا کی 33 غزلیں شامل ہیں جن میں سینئر شعرا عباس تابش، جلیل عالی اور غلام حسین ساجد کے عمدہ کلام کے ساتھ عمر فرحت، عتیق احمد، جاوید قاسم، عامر طفیل اور عظمیٰ صبوحی سحر جیسے نئے اور ہونہار غزل گو بھی اپنے کلام سے متاثر کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر غزلوں کا انتخاب لاجواب ہے۔ جلیل عالی کے چند اشعار:

جب دلقِ دل فقر کا جوہر نکل گیا
سینے سے شاعری کا کبوتر نکل گیا
کس شہر خوش خصال کی دُھن میں رہے رواں
کن جنگلوں کی سمت مقدر نکل گیا
٭
دل پہ گزری کہاں کہاں کیا کیا
درد لفظوں میں ہو بیاں کیا کیا
آج تُو چھوڑ کر گیا تو ہمیں
یاد آئے ہیں رفتگاں کیا کیا

غلام حسین ساجد نے کیا خوب کہاہے:

اِسے بے چشمِ نم پڑھنا بہت مشکل ہے صاحب
کتابِ عشق ہے، کوئی بہی کھاتا نہیں ہے
وہ کیا دیکھے جسے خواہش نہیں ہے دیکھنے کی
وہ کیا سمجھے جسے اب کوئی سمجھاتا نہیں ہے
عباس تابش کے بھی دل میں اترنے والے دو اشعار:
اسے سمیٹنا آنکھوں کے بس کی بات نہیں
کہ تیرے شہر میں رزقِ نظر زیادہ ہے
کچھ اس لیے بھی زیادہ قریب ہیں ہم تم
کہ اگلی بار نہ ملنے کا ڈر زیادہ ہے

نظموں میں احسان اکبر کی طویل نظم ’’باب ِ علی بابا پر خود کلامی‘‘ کے علاوہ 9 شعرا کی 13 نظمیں شامل ہیں، جن میں جلیل عالی، افتخار بخاری، سہیل ممتاز، خالد محمود، عبیرہ احمد، ثاقب ندیم، تبسم فاطمہ، شبہ طراز اور شازیہ مفتی شامل ہیں، جن میں سے بعض نظمیں احساس کے تار چھیڑتی ہیں تو بعض سے سوچ کے در وا ہوتے ہیں۔
استعارہ پانچ میں مضامین کا حصہ بہت عمدہ اور وقیع ہے۔ تقریباً 80 صفحات پر مشتمل اس حصے میں 8 مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا مضمون ’’ڈاکٹر وزیر آغا… ایک منفرد شاعر‘‘ ہمہ جہت وزیر آغا کے منفرد شاعرانہ پہلو کا بہت عمدہ محاکمہ کرتا ہے اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوئوں کو آشکار کرنے میں کامیاب ہے۔ قاضی جاوید نے اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں ’’شاہ عنایت کی صوفیانہ روایت‘‘ میں فوک صوفی شاعر کے بارے میں معلومات کا خزانہ پیش کیا ہے۔ یاسمین حمید نے اپنی سینئر اور حال ہی میں وفات پانے والی ’’فہمیدہ ریاض کی شاعری‘‘ پر بات کی ہے اور خوب کی ہے۔ فہمیدہ ریاض ہمارے دور کی بڑی اور اہم شاعرہ اور ادیب تھیں۔ ان کے فن پر مزید بات یقینا ہوتی رہے گی۔ امجد علی شاکر نے ’’اردو لسانی تحقیق پر تحقیق‘‘ کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے، جب کہ ڈاکٹر طارق محمودہاشمی نے حمیدہ شاہین کی غزل کا فکری اور فنی جائزہ پیش کیا ہے۔ گزرا سال 2018ء جاتے جاتے بھی ہم سے بہت سے عمدہ شاعر و ادیب لے گیا۔ صفدر حسین انجم نے اس شمارے کے سب سے اہم اور عمدہ مضمون میں گزشتہ برس کے ایسے ہی 17 رفتگاں کا ذکرِِ خیر کرتے ہوئے قارئین کو ان کے بارے میں ابتدائی اور بنیادی معلومات فراہم کی ہیں، ساتھ ہی اس مضمون سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ 2018ء کے ستم گر سال میں اردو ادب کے کیسے کیسے انمول ہیرے ہم سے رخصت ہوئے، جن میں مختصر بحر میں بے مثال غزل کہنے والے رسا چغتائی، منفرد ادیب، ڈراما نگار اورکالم نگار منو بھائی، نظم کے اپنے دورکے بڑے شاعر ساقی فاروقی، ممتاز ادیب و مترجم شاہد حمید، دورِِ حاضر کے اردوکے سب سے بڑے محقق پروفیسر حنیف شاہد، ابن صفی کے بعد طویل مدت تک جاسوسی ناول نگاری کا واحد نام مظہرکلیم، معروف مترجم محمد عمر میمن شامل ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ اردوکے مزاحیہ ادب کا دورِ یوسفی ختم ہوگیا۔ ترقی پسند شاعر و دانشور یوسف حسن اور افسانہ و ناول نگار سعید شیخ، اردو کے منفرد شاعر، ادیب و دانشور وزیر آغا کے شاعر و ادیب صاحبزادے ڈاکٹر سلیم آغا بھی ہم سے رخصت ہوئے۔ افسانہ و سفرنامہ نگار پروین عاطف، شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض، افسانہ و ناول نگار الطاف فاطمہ، ادیب، شاعر اور محقق عطش درانی، براڈ کاسٹر اور ادیب ابصار عبدالعلی اور استاد، ادیب، افسانہ و سفرنامہ نگار ڈاکٹر سلیم اختر کے بارے میں صفدرحسین انجم کا مضمون بروقت اور اہم ہے جسے روزنامہ جنگ سے لیا گیا ہے۔ اظہر حسین نے ریاست حیدرآباد دکن کے آخری دربارکے بارے میں کتاب ’’دربار ِدُربار‘‘ کو پیش کیا ہے، جبکہ طفیل اختر کا مضمون ’’یاسمین حمید کی شاعری، ایک مطالعہ‘‘ کا عنوان ہی اس کے بارے میں پتا دیتا ہے۔
ڈاکٹر امجد پرویز موسیقی کے حوالے سے اپنے سلسلۂ مضامین کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے دورکی اہم گلوکارہ ’’ناہید نیازی ایک مہذب آواز‘‘ کے بارے میں مضمون حسبِ سابق بہت دل چسپ اورعمدہ ہے۔ پرچہ کے اختتام پر معروف ادیب و دانشور مختار مسعود مرحوم کا ایک مختصر گوشہ دیا گیا ہے جس میں مرحوم کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پرچے میں بعض اصنافِ ادب جیسے سفرنامہ، ناول اور آپ بیتی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ گزشتہ شمارے میں پنجابی ترقی پسند شاعرہ پروین ملک کی آپ بیتی کا ترجمہ شروع کیا گیا تھا جو اس شمارے میں موجود نہیں ہے، تاہم استعارہ پانچ خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں ہے۔ اس کا ہر شمارہ پہلے سے بہتر ہورہا ہے جس کے لیے ڈاکٹر امجد طفیل اور ریاظ احمد مبارک باد کے مستحق ہیں۔

حصہ