رشتے

620

نگہت ظہیر
ثنا کو اپنے شوہر عمیر کے ساتھ یہاں آئے تین ماہ ہوچکے تھے، مگر اب تک اس کی کسی پڑوسی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ شاید یہ علاقہ ہی ایسا تھا جہاں قریب میں کوئی پاکستانی گھرانہ تو کیا، کوئی مسلمان گھرانہ بھی نہ تھا۔ اسی لیے اس نے سوچا کہ اڑوس پڑوس میں جو بھی لوگ رہتے ہیں اُن سے ہی دوستی کرلی جائے، آخر انسان تو ہیں۔ وہ جب بھی باہر نکلتی اُس کو ایک سناٹا سا ملتا، ایسا لگتا سب مرد و خواتین صبح سویرے ہی کام پر نکل جاتے ہیں اور شام ڈھلے آتے ہیں۔ تھکے ماندے لوگ جلدی سوجاتے ہیں یا اپنی ہی مصروفیات اور اپنے مشغلے ہوتے ہیں۔
ایک دن وہ باہر کا چکر لگانے کے لیے نکلی تو اس کو پڑوس کے فلیٹ میں آہٹ محسوس ہوئی، اس نے تھوڑا ہچکچا کر دروازے کی گھنٹی بجادی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک خوبصورت اور کمزور سی تقریباً پچاس سالہ انگریز خاتون دروازے پر نمودار ہوئیں۔ ثنا نے ہیلو ہائے کے بعد اپنا تعارف کروایا۔ وہ انگریزی اچھی بول لیتی تھی۔ ان خاتون نے دلکش مسکراہٹ کے ساتھ ثنا کو اندر بلالیا اور خوشی کا اظہار کیا۔ ان خاتون نے بتایا کہ رات کو انہیں تیز بخار تھا جس کی وجہ سے وہ آج آفس نہ جاسکیں، اب بھی وہ بہت کمزوری محسوس کررہی ہیں۔ ابھی تک انہوں نے کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے فلیٹ میں اکیلی رہتی ہیں۔ ثنا نے ان کو آرام کے لیے لٹادیا اور ان کے لیے چائے ناشتا تیار کرکے لے آئی۔ ان کو دوائیں کھلائیں اور دوپہر کو پھر آنے کا کہہ کر چلی آئی۔ تین دن تک ثنا نے ان کی تیمارداری کی۔ اب ان کی طبیعت بہتر ہوگئی تو وہ آفس جانے لگیں۔
چند دنوں میں ثنا کی ان سے گہری دوستی ہوگئی، وہ ان کو آنٹی کہنے لگی۔ وہ آنٹی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی کہ آخر وہ اتنی تنہا کیوں ہیں؟ آخر ایک دن اس کو موقع مل گیا۔ وہ ایک چھٹی کا دن تھا، عمیر کو کسی کانفرنس میں شہر سے دور کہیں جانا تھا اس لیے وہ صبح جلدی نکل گیا تھا۔ ثنا جلدی جلدی گھر کے کام نمٹاکر آنٹی کے پاس پہنچ گئی۔ آج وہ گھر پر تھیں اور ان کی طبیعت بھی ٹھیک تھی اور موڈ بھی خوشگوار تھا۔ ثنا کو ان کے بارے میں جاننے کا موقع مل گیا اور ان کو بھی اپنا حالِ دل سنانے کے لیے کوئی ہمدرد مل گیا۔ وہ ثنا کے محبت بھرے رویّے سے بہت متاثر تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کی کتاب کھول کر رکھ دی، ورق ورق الٹنا شروع کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں (یعنی مس ہیلن) وہ خوش نصیب بچی تھی جس کے ماں اور باپ دونوں تھے اور مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ جب میں پڑھ لکھ کر جوان ہوگئی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا تو اب میری دلچسپیاں اور مشغلے بدل گئے۔ میں وہی طور طریقے اپنانے لگی جو اس معاشرے کے تھے۔ ایک وقت میں میرے کئی کئی دوست ہوتے۔ خود کماتی، خوب اڑاتی، عیش کرتی، ہر شام رنگین ہوتی۔ اپنی مصروفیات میں پتا ہی نہ چلا کہ ممی کتنی بیمار ہوگئی ہیں۔ ایک دن پتا چلا کہ ان کو کینسر ہوگیا ہے۔ دو سال تک ان کا علاج کرواتی رہی۔ مگر ایک دن ممی مجھ کو روتا ہوا چھوڑ کر چلی گئیں۔ پاپا کی کثرتِ شراب نوشی نے ان کے گردے برباد کردیے۔ میں ان کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر تھی۔ مجبوراً میں نے انہیں ایک ادارے میں داخل کروا دیا۔ کبھی کبھار ان سے ملنے چلی جاتی ہوں۔ اب تو میں خود بھی بہت بیمار رہنے لگی ہوں، نوکری چلانا ہی مشکل نظر آتا ہے، گھر کے کام کاج میں بھی پریشانی ہوتی ہے، پتا نہیں مجھے کیا ہوتا جارہا ہے۔
اس موقع پر ثنا خیالوں میں کہیں دور نکل گئی۔ اس کی نظروں میں اپنی تہذیب، اپنا خاندان آگیا۔ کبھی کسی کو کوئی ہلکی پھلکی بیماری بھی ہوجاتی تو پورا خاندان اس کی خدمت میں لگ جاتا۔ الحمدللہ کوئی خوفناک اور خطرناک بیماریاں ہوتی ہی نہیں تھیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ کوئی ان میں مبتلا ہوجاتا تو پورے خاندان کا ہر چھوٹا بڑا اس کی خدمت پر کمربستہ ہوتا۔ ہر ایک اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھتا۔ ایسا اس لیے تھا کہ ہماری تہذیب اور ہمارا مذہب ہم کو یہی سکھاتا ہے۔
اس کی نظروں میں کتنے ہی مناظر گھوم گئے۔ جب نانا جان کی عمر اسّی سال سے اوپر ہوگئی تو تھوڑے کمزور اور بیمار ہوگئے۔ کچھ دن اسپتال میں رہے تو کس طرح سب بیٹے، بیٹیاں، نواسے، نواسیاں، پوتے، پوتیاں، بہن بھائی اور ان کے بچے خدمت میں لگے رہے۔ نانا جان کا بھرپور بھرا پرا خاندان تھا۔ عورتیں دن میں باری باری اسپتال میں رہتیں۔ مرد نوکری پر چلے جاتے۔ شام اور رات کا محاذ مرد سنبھال لیتے۔
اس کے ساتھ ہی اُس کے ذہن میں اپنا بچپن، لڑکپن سب آگیا۔ کس طرح سارے خاندان (چچا، تایا) کے بچے اوپر سے نیچے تک کھیلتے پھرتے تھے۔ اگر پھوپھیاں اپنے بچوں کے ساتھ آجاتیں تو بچوں کے وارے نیارے ہوجاتے، خوب اچھے اچھے کھانے بنتے، مزا آجاتا۔
نانی کے گھر جاتے تو سب خالائیں بھی آجاتیں۔ خالہ اور ماموں کے بچوں کے ساتھ ایک ادھم مچا ہوتا۔ نانی بچوں کی پسند کی چیزیں بناتیں۔ ماموں بچوں کے فرمائشی پروگرام پورے کرتے۔
خوشیاں بھی سانجھی، غم بھی سانجھے۔ ثنا کو اپنی شادی و رخصتی یاد آگئی۔ کس طرح سب نے محبت سے اپنے آنسوئوں اور دعائوں کے سائے میں رخصت کیا تھا۔ کتنا بڑھ چڑھ کر شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹایا تھا۔ اس کا مہکتا چہکتا خاندان اس کے سامنے تھا، یہ سب کچھ یاد کرکے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ ابھی وہ یادوں کے جھروکوں سے بہت کچھ دیکھنا چاہتی تھی کہ مس ہیلن (آنٹی) کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
ثنا اپنی آنکھیں صاف کرکے آنٹی سے مخاطب ہوگئی:’’ آنٹی آپ کے کوئی رشتہ دار، انکل، آنٹی، کزنز وغیرہ نہیں ہیں جو ایسے موقع پر آپ کی مدد کرتے، دلجوئی کرتے۔ آپ کے والد کا اور آپ کا خیال رکھتے، علاج کرواتے؟‘‘
’’نہیں میرے ایسے رشتہ دار نہیں ہیں، کیونکہ میرے والدین اکلوتے تھے۔ اتفاق سے میں بھی اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہوں، اس لیے میرے بہن بھائی، بھابھی، بھانجے، بھتیجے نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے کا یہی چلن ہے۔ لیکن اب تو اس سے برا حال ہے، لوگ شادی اور اولاد دونوں کے ہی قائل نہ رہے۔ لیکن میں ایسی نہ تھی یا وہ زمانہ ایسا نہ تھا۔ جب میری ماں کا انتقال ہوا اور میرے والد بیمار رہنے لگے تو میرا دل اس زندگی سے اچاٹ ہوگیا جو میں گزار رہی تھی۔ اب میری عمر بھی آگے بڑھتی جارہی تھی اور دوست بھی چھٹتے جارہے تھے۔ میں سکون کی تلاش میں تھی۔ میں نے گھر بسانے کا ارادہ کرلیا۔ ایسے میں میری ملاقات فلپ سے ہوئی، وہ مجھے اپنا ہمدرد اور ہم خیال لگا۔ ہم نے شادی کرلی اور نئی امنگوں کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ ہماری ایک پیاری سی پھول جیسی بیٹی پیدا ہوئی، ہم نے اس کا نام روزی رکھا۔ تین چار سال خیریت سے گزرے، پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ فلپ جو کہ میرا ہم عمر تھا، مجھ سے دور ہونے لگا۔ اس کے معمولات بدلنے لگے۔ کثرت سے شراب نوشی کرتا اور نئی نئی تتلیوں کے چکر میں پھنسا رہتا، ساری تنخواہ اڑا دیتا۔ اب گھر چلانا مشکل ہوگیا، روز روز جھگڑا ہوتا، میں نے تنگ آکر طلاق لے لی۔ یہاں یہی ہوتا ہے، طلاق ہوتی ہے یا شوہر بیوی بچوں کو چھوڑ کر غائب ہوجاتے ہیں۔ عورت تنہا اولاد کا بوجھ اٹھاتی ہے یا تنگ آکر کسی ادارے میں ڈال دیتی ہے۔ میں نے بھی یہی کیا۔ دوبارہ جاب شروع کی اور بچی کو بہتر تعلیم و تربیت کے لیے ہاسٹل میں داخل کردیا۔ اب وہ بیس سالہ خوبصورت دوشیزہ ہے۔ پہلے میرے پاس اُس کے لیے وقت نہیں تھا، اب اُس کے پاس میرے لیے وقت نہیں ہے۔ میرے پاس بھی اپنی ماں کی دیکھ بھال کے لیے وقت نہیں تھا۔ ہمارے مغربی معاشرے میں یہی سلسلہ ہے۔‘‘
ثنا نے آنٹی سے کہا: ’’کیا آپ کی بیٹی آپ کا بالکل خیال نہیں رکھتی؟‘‘
’’ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہماری فون پر بات چیت ہوتی ہے۔ وہ دراصل دوسرے شہر میں ہے اور بہت مصروف ہوتی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ جاب چھوڑ کر اس کے پاس چلی آئوں۔ لیکن مجھے اُس کی مصروفیات اور مشغلوں کا علم ہے۔ وہ مجھے نہیں سنبھال پائے گی اور میرے نصیب میں بھی میری ماں کی طرح اولڈ ہائوس ہی ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ کچھ ماں کو یاد کرکے اور کچھ مستقبل کے اندیشوں سے وہ غمگین ہوگئیں۔ ثنا ان کو تسلی دینے کے سوا کیا کرسکتی تھی! وہ بھرے دل کے ساتھ اپنے اپارٹمنٹ میں چلی آئی۔
اب آنٹی بہت زیادہ بیمار رہنے لگی تھیں۔ ان کو نوکری سے بھی جواب دے دیا گیا تھا، کیونکہ ان کو کینسر ہوگیا تھا، وہ اپنے فرائض چابک دستی سے سرانجام دینے سے قاصر تھیں۔ ان کی زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بہت کم دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بسترِ مرگ پر بے یار و مددگار پڑی تھیں۔ کوئی تسلی دینے والا، دل جوئی کرنے والا، ہمدرد و غم گسار نہ تھا۔ ثنا نے ان کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
ایک سرد شام، سرد جذبات لیے ان کی بیٹی آئی۔ اپنے ساتھ لے جانے کے لیے نہیں بلکہ ایک اولڈ ہائوس میں داخل کروانے کے لیے۔ آنٹی کے دل کی حالت ان کے چہرے سے عیاں تھی جس پر لکھے واضح جملے اس مغربی معاشرے کی پروردہ ان کی بیٹی پڑھنے سے قاصر تھی۔ ثناء نے آنسو بھری آنکھوں سے جاتی ہوئی آنٹی اور ان کی بیٹی کو دیکھا اور اپنے مشرقی تہذیب اور احساسات سے بھرے معاشرے پر صد شکر ادا کرتے ہوئے کھڑکی سے ہٹ گئی۔

حصہ