حضرت خنساؓ بنتِ عمرو شجاعت و ہمت کی چٹان

1032

بنت ِ حو ّا
سیدنا عمر فاروقؓ کا عہدِ خلافت ہے، کسریٰ سے مقابلے کا فیصلہ کن معرکہ درپیش ہے۔ جنگِ قادسیہ کا شمار سرزمینِ عرب کے قلب عراق میں لڑی جانے والی انتہائی خونریز جنگوں میں ہوتا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے مقابلے میں کسریٰ نے اپنے دو لاکھ انتہائی آزمودہ جنگجو لا کھڑے کیے تھے، ساتھ ہی تین سو جنگی ہاتھی بھی تھے جو جس طرف کا رُخ کرتے، صفیں کی صفیں الٹ کر رکھ دیتے۔
مجاہدینِ اسلام کی تعداد صرف تیس سے چالیس ہزار تک تھی۔ ان مجاہدین میںکچھ اپنے اہل و عیال کے ساتھ جہاد کے لیے آئے تھے، ان ہی میں ایک ضعیف العمر خاتون بھی تھیں جو جذبۂ جہاد سے سرشار اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ جہاد کے لیے آئی تھیں۔
ابھی شب کا ابتدائی حصہ تھا، اگلے دن جنگ کا میدان گرم ہونا تھا، ہر سپاہی آنے والی صبح کی ہولناکی پر غور کررہا تھا۔ ان ضعیف خاتون نے اپنے چاروں فرزندوں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے یوں خطاب کیا:
’’میرے بچو! تم اپنی خوشی سے اسلام لائے اور اپنی خوشی سے تم نے ہجرت کی۔ اس ذات لایزال کی قسم، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تمہارا نسب بے عیب ہے اور تمہارا حسب بے داغ ہے۔ خوب سمجھ لو کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی کارِ ثواب نہیں۔ آخرت کی دائمی زندگی دنیا کی فانی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے ’’اے مسلمانو! صبر سے کام لو اور ثابت قدم رہو، اور آپس میں مل کر رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ مراد تک پہنچو۔‘‘ کل اللہ نے چاہا اور تم خیریت کے ساتھ صبح کرو تو تجربہ کاری کے ساتھ اور خدا کی نصرت کی دعا مانگتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑنا، اور جب تم دیکھو کہ لڑائی کا تنور خوب گرم ہے اور اس کے شعلے بھڑکنے لگے ہیں تو تم خاص آتش دان جنگ میں گھس پڑنا اور راہِ حق میں دیوانہ وار تلوار چلانا۔ ہوسکے تو دشمن کے سپہ سالار پر ٹوٹ پڑنا۔ اگر کامیاب رہے تو بہتر، اور اگر شہادت نصیب ہوئی تو یہ اس سے بھی بہتر، کہ تم آخرت کی فضیلت کے مستحق ہوگئے۔‘‘
چاروں نونہالوں نے یک زبان ہوکر کہا ’’اے مادرِِ محترم ان شاء اللہ ہم آپ کی توقعات پر پورے اتریں گے اور آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گی۔‘‘
صبح جب معرکۂ کارزار گرم ہوا تو ان خاتون نے چاروں فرزندوں کو گھوڑے کی باگیں تھمائیں اور وہ رزمیہ اشعار پڑھتے ہوئے ایک ساتھ میدانِ جنگ میں کود پڑے۔
بزرگ خاتون اپنے فرزندوں کو میدانِ رزم میں بھیج کا بارگاہِ الٰہی میں یوں دعاگو ہوئیں ’’الٰہی! میری متاعِ عزیز یہی کچھ تھی، اب یہ تیرے سپرد ہے۔‘‘
بہادر ماں کے بہادر جگر گوشے شوقِ شہادت کی وارفتگی کے ساتھ میدانِ جنگ میں کود پڑے اور ایسی بہادری کے ساتھ لڑے کہ جس طرف جھک پڑتے پرے کے پرے صاف کردیتے۔ آخرکار سیکڑوں جنگجوئوں نے انہیں گھیر لیا، لیکن وہ قطعاً ہراساں نہ ہوئے اور بیسیوں دشمنوں کو خاک چٹادی، اور آخرکار خود بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
یہ بہادر خاتون جو اپنے چاروں بیٹوں کو میدانِ جنگ میں بھیج کر تسلیم و رضا اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنے جگر گوشوں کی شہادت کی خبر سنتی ہیں عرب کی عظیم مرثیہ گو حضرت خنساؓ بنتِ عمرو ہیں۔
جب خنساؓ کو ان کے بچوں کی شہادت کی خبر دی گئی تو وہ نالہ و فریاد کے بجائے اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوگئیں اور ان کی زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ جاری ہوگئے:
’’اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنے فرزندوں کے قتل سے مشرف کیا۔ باری تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ قیامت کے دن مجھے ان بچوں کے ساتھ اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے گا۔‘‘
حضرت خنساؓ کا تعلق قبیلہ بنوسلیم سے تھا جو بنو قیس بن عیلان کی ایک شاخ تھا۔ یہ قبیلہ اپنی شرافتِ نفس، جودوسخا اور شجاعت و ہمت کی بنا پر قبائلِ عرب میں امتیازی شان رکھتا تھا۔ ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس قبیلے کے بارے میں یہ تعریفی الفاظ کہے ’’بلاشبہ ہر قوم کی ایک پناہ گاہ ہوتی ہے، اور عرب کی پناہ گاہ قیس بن عیلان ہے۔‘‘
حضرت خنساؓ کے والد عمرو بنو سلیم کے رئیس تھے، لہٰذا خنساء انتہائی عیش و عشرت میں پرورش پائیں۔ خنساؓ کو بچپن ہی سے اشعار کا ذوق تھا، لہٰذا چھوٹی عمر میں ہی دو چار اشعار موزوں کرلیا کرتی تھیں، یہاں تک کہ آگے چل کر وہ ایک شہرۂ آفاق مرثیہ گو شاعرہ کے مرتبے پر فائز ہوئیں۔
انہوں نے امیر معاویہ کے زمانے میں وفات پائی۔

حصہ