محمد عارف خلجی
سفرکے ابتدائی دو روز بخیرو عافیت گزرے مگرتیسرے روز گردو غبار کے بگولوں سے ہمارا سامنا ہوا۔ اُڑتی خاک نے ہمارے چہروں کو ایک دوسرے کے لیے نا آشنا بنا دیا۔ہمارے سر مٹی کے ذرات سے اَٹے ہوئے تھے۔اس خاک آلود فضا میں آلودہ پانی ہمارے وضو کا واحد سہارا تھا۔چنانچہ اسی سے وضو کرتے رہے۔چہرے پر آلودہ پانی اور خاک پاشی کے اثرات جلد کے پھٹنے کی صورت میں نمودار ہوئے۔ہونٹ دو لخت ہوگئے۔آسمان ابر آلود ہوچکا تھا۔ سیاہ ابر پارے ہمارے سروں پر منڈلارہے تھے۔خدشہ تھا کہ اگر یہاں ہمیں موسلادھار بارش نے گھیر لیا تو گاڑیوں کا اِس گوند نما زمین سے اخراج بے حد مشکل ہوجائے گا۔ گاڑیوں کے ٹائر کیچڑ میں دھنس جائیں گے اور ہماری مصیبتوں میں ایک اور مصیبت کا اضافہ ہوجائے گا۔
یہ حالات سفر کے تیسرے روز پیش آئے۔ ابھی اس سے ایک اور بڑی مصیبت ہماری منتظر تھی اور ہم اِس پیش آئندہ مصیبت سے قطعی ناآشنا اورلاپروا تھے۔دن ختم نہیں ہو ا تھا۔عصر کی نماز کا وقت قریب آپہنچا تو سب وضو کرکے نماز کے انتظار میں بیٹھ گئے۔بزرگوں کے باہمی مشورے سے عصر کی نماز کے بعد اختتامی دعا ہوئی۔نہایت رقت آمیز لہجے میں کسی سفید ریش اور عمر رسیدہ بزرگ نے دعا کرائی۔تمام حاضرین کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔ہر چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے۔افسردگی کے بادل آہستہ آہستہ چھٹنے لگے۔مگر گردوغبار کا عالم بدستور قائم رہا۔
ہم اسی طوفانی ماحول میں اپنی گاڑی کو کھوجنے لگے۔ تلاشِ بسیار کے بعد ایک خاک آلود خیمے کے قریب کھڑی پائی گئی۔ بڑی مشکلوں سے آدمیوں اور سواریوں کے سیلاب سے ہم اپنی گاڑی نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہم کل سولہ افراد تھے۔ساتھیوں کی عددی گنتی شروع کی تو اِس عالمِ بے سروسامانی میں ہمارے محلے کے مولوی صاحب کہیں غائب ہوگئے تھے۔ باقی ساتھی ان کی تلاش میں سرگرداں پھرتے رہے۔ چند ایک تو مولوی صاحب کو ڈھونڈتے ہوئے خود انسانوں اور گاڑیوں کے اس سمندر میں کھوگئے۔دس پندرہ منٹ کی سر توڑ کوششوں کے بعد مولوی صاحب مجسم مٹی کا پتلا بنے ہمارے درمیان اپنا افسردہ چہرہ لے کر پہنچ گئے۔پہلے پہل تو ان کی صورت پہچاننے میں نہیں آرہی تھی ۔ بعد میں کچھ نشانیاں اور آثار موجود پاکر مبینہ شخص کے ’’مولوی صاحب‘‘ ہونے کی تصدیق ہوگئی۔ اس عرصے میں امیرِ سفر کا پارہ چڑھ گیا۔اُن کے غضب آلود چہرے کا رخ مولوی صاحب کی طرف تھا جوسراپابے چارگی کی تصویر بنے امیرِ مذکور کی کڑوی باتوں کے گھونٹ نہایت بردباری سے پی رہے تھے۔
جب تمام ساتھی اپنے گرد آلود چہروں، خاک آلود سروں اور داڑھیوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے تو ڈرائیور نے اللہ کا نام لے کر واپسی کے سفر کا آغاز کردیا۔ہم ہر طرف سے گاڑیوں کے نرغے میں آگئے تھے۔ ایک گھنٹے سے گاڑی سبک خرامی سے چلتی رہی۔مگر پکی سڑک اب تک ہماری نگاہوں سے بہت دور تھی۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ رات کے اندھیرے میں ہماری سست رفتار گاڑی یکدم ایک کٹے ہوئے درخت کے باقی ماندہ جڑوں میں پھنس گئی۔ چند ساتھی نیچے اُترے تاکہ گاڑی کو اپنے زورِ بازوسے قدرے اوپر اٹھا کر درخت کے اس موذی تنے کی گرفت سے آزاد کرواسکیں مگر ان کی کوششیں بارآور نہ ہوسکیں۔ ڈرائیور مرحوم نے (جو کہ اب دارِ فنا سے کوچ کرچکا ہے) اپنی فن کاری کے تمام جوہر دکھائے مگر گاڑی ٹس سے مس نہ ہوئی۔
ہمارے پیچھے گاڑیوں کی ایک طویل قطار ساکن حالت میں کھڑی ہارن کی متواتر آوازوں سے ہماری سمع خراشی کررہی تھی۔ ڈرائیور نے تمام سوار حضرات کو نیچے اُتر جانے کا حکم دیا۔ حکم کی فوری تعمیل کی گئی۔ ہم سب نے اپنی قوت کو یکجا کرکے گاڑی کو دھکیلنے کی آخری کوشش کی مگر گاڑی کے پایہء ثبات میں ایک انچ کی لغزش نہ آئی۔ اپنے مقام پر مضبوطی سے جم کر کھڑی رہی۔ ہماری بیچارگی ملاحظہ کرتے ہوئے چند خدا ترس حضرات اس ’’دھکم پیل‘‘ میں ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ اِس بیرونی امداد کے باوجود ہماری گاڑی اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ہم سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ چنانچہ آخرکار گاڑی کے نیچے جیک لگا کر بڑی مشکلوں سے اس کو تنے کے آخری دندانوں کی قید سے آزاد کروایا۔
ریت کی بارش بدستور جاری رہی۔ خاک پاشی کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے ہم سب گاڑی کے پچھلے حصے میں چادریں اوڑھے گم سم بیٹھے رہے۔ چند منٹ تک گاڑی اسی خاموشی میں سفر کرتی رہی ۔ اچانک ایک ساتھی کی تیز آواز نے خاموشی کا سینہ چیر کر ہم سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ ہماری حیران نظریں ان کے حواس باختہ چہرے پر ٹک گئیں۔اُن کا موبائل غائب ہوگیا تھا۔ دراصل جن لوگوںنے رضاکارانہ طور پر گاڑی دھکیلنے میں ہماری مدد کی تھی ، یہ انہی کی کارستانی تھی۔ ایک دو منٹ بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ ایک اور ساتھی کی تیز آواز نے ہم سب کو چونکا دیا۔ ان حضرت کے دو موبائل اور تین ہزار روپے چور اُڑا کر لے گئے تھے۔ مجھے اپنے موبائل اور پیسوں کے بارے میں تشویش لاحق ہوئی۔ جیبوں کو بے چینی سے ٹٹول کردیکھا تو تمام اشیا کو حسبِ سابق موجود پایا۔
اگر چہ آج اس واقعے کو گزرے چار برس کا عرصہ بیت چکا ہے ۔مگر میرے ذہن پر آج بھی ان بزرگ نما حضرات کی تصویریں نقش ہیں جنہوںنے سبی کے اس بیابان میں ہماری طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا تھا اور ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے تھے۔