مناہل امجد
ببلو اپنے دوستوں میں سب سے شریر بچہ تھا شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ اس کی شرارت کی اطلاع نہ ملے اور کوئی اس کے ہاتھوں ستایا نہ گیا ہو اپنی تمام تر شراتوں کے باوجود اس کا شمار اسکول کے ذہین بچوں میں ہوتا تھا وہ ہر سال اپنی کلاس میں اول آتا ببلو کی شرارتیں صرف اور صرف گھرتک محدود تھیں۔ اسکول میں وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا تھا جو شرارت میں شامل ہو اسی لیے اسکول میں اسے ایک سنجیدہ طالب علم سمجھا جاتا تھا۔
ببلو نے اپنے محلے کے دوستوں پر ایک شرارتی گروپ بنایا ہوا تھا جو ببلو گروپ کے نام سے مشہور تھا لوگوں کو پریشان کرکے ان کو نہ جانے کیا مزا آتا تھا کہ بڑوں کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنی شرارتوں سے باز آنے پر آمادہ نہیں تھے۔
کبھی کسی گھر سے لگے درخت کے پھل توڑ لیے تو کبھی گھر سے باہر کھڑی گاڑی سے ہوا نکال دی کسی کے گھر کی بیل بجا کر بھاگ گئے یہ اس قسم کے شغل گرمیوں میں دوپہر کے وقت کیا کرتے جب لوگ عموماً آرام کررہے ہوتے اس طرح یہ لوگوں کو اذیت پہنچانے کا سبب بنتے۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ببلو نے اعلان کیا کہ وہ اس سال پورے روزے رکھے گا سب سے پہلے اس نے اپنی امی کو بتایا کہ امی میں اس سال پورے روزے رکھوں گا ببلو کی امی نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہاکہ ببلو میاں ایک تو آپ کا منہ ہر وقت چلتا رہتا ہے آپ کو دن بھر کھانے پینے سے فرصت نہیں اور دوسرے آپ اپنی شرارتوں سے دوسروں کا جینا حرام کردیتے ہو اس کا کیا بنے گا۔ ببلو نے بڑے فخر سے کیا کہ امی کھانے پینے پر تو اللہ صبر دے گا رہا شرارتیں تو اس سے ہی روزے میں وقت گزرے گا ببلو یہ جملہ ادا کررہا تھا کہ اس کے ابو گھر میں داخل ہوئے اور کہا ببلو میاں آپ کیا فرما رہے تھے کہ کھانے پینے کے معاملے میں اللہ صبر دے گا اور روزے میں وقت گزارنے کے لیے آپ لوگوں کو ستانے کا کام کر لیں گے اور وہ آپ کو برا بھلا کہیں گے یا صبر کریں گے مگر اسے روزے سے آپ کو کیا ملے گا صرف اور صرف بھوک اور پیاس کے۔ ببلو نے ابو کی بات سن کر کہا کہ ابو آپ درست کہہ رہے ہیں جب ببلو کے ابو نے محسوس کیا کہ ببلو میاں آج سمجھنے کے موڈ میں ہیں تو انہوں نے روزے کی افادیت کی پر تفصیل بتائی اور کہا کہ بیٹا روزے کی حالت میں تو حلال چیز بھی حرام ہو جاتی ہے جبکہ لوگوں کو اذیت پہنچانا ان کے لیے پریشانی کا باعث بننا ویسے ہی ایک ناجائز عمل ہے ببلو نے کہا بالکل ٹھیک ابو… ابو نے کچھ دیر ٹھیر کر پھر بات شروع کی رمضان تو اپنی اصلاح و تربیت کے لیے ہوتا ہے اس میں وقت گزاری کے لیے فضول کاموں کا کرنا قطعی غلط ہے ویسے بھی وقت کی ایک اہمیت ہے جو وقت ضائع کرنا ہے وقت اس کو ضائع کر دیتا ہے رمضان کا مہینہ ہے اسکول کی چھٹیاں ہیں لہٰذا ایک منصوبہ بندی کے تحت آپ اس رمضان کو گزاریں نماز مطالعۂ قرآن کے ساتھ آپ اسکول کے کام پر توجہ دیں لوگوں کو ستانے کے بجائے ان کے کام آئیں تو دیکھنا اس رمضان کے کیسے کیسے فائدے آپ کے سامنے ہوں گے جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ببلو نے پر عزم انداز میں کہا کہ میں اس ماہ رمضان کو ایک منصوبہ عمل کے تحت گزاروں گا اور بھرپور فائدہ اٹھائوں گا ساتھ ہی اپنے شریر دوستوں کو بھی دعوت دوں گا کہ وہ رمضان کو اس کی اصل روح کے ساتھ گزاریں۔