اب کے لیلۃ القدر مسجد الاقصیٰ میں!۔
افشاں نوید
رمضان المبارک کی پُرنور ساعتیں ہیں۔ مساجد اور گھروں میں دورہ قرآن کی محافل ہیں۔ کروڑوں لوگ قرآن ختم کریں گے۔ پچھلے برس رمضان سے اِس رمضان تک ہزاروں کی تعداد میں نئے نسخے چھپے اس کتابِ عظیم کے۔ سیکڑوں مفسرین اور ہزاروں حفاظ کا اضافہ ہوا الحمدللہ۔ ہزاروں مساجد میں لاکھوں معتکفین روز و شب ختمِ قرآن اور دعائیہ تقاریب میں مصروف ہوں گے۔
نزولِ قرآن کا ہفتہ۔ چہار سمت ہار، پھول، مٹھائیاں، مبارک بادیں۔ کہیں انفرادی تکمیلِ قرآن، کہیں ختم ِتراویح، دعائیہ تقاریب۔ گھروں اور مسجدوں کی برکتیں اور رونقیں عروج پر۔ ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، ایک کے بعد دوسرا قرآن شروع ہوجاتا ہے۔ ایک رمضان میں کئی کئی قرآن ختم ہوجاتے ہیں۔ الحمدللہ
میری زبان ٹھیر گئی پڑھتے پڑھتے، قلب ساکن ہوگیا، میں آگے پڑھ نہ سکی، الفاظ کی بازگشت نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا ’’پاک ہے وہ ذات، جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجدِ حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘( سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 1)
مسجد اقصیٰ سے آتی سسکیوں کی آوازوں نے ذہن کو مائوف کردیا۔ زمین کا وہ پاکیزہ ٹکڑا جہاں سے میرے نبی محترم علیہ الصلوۃ والسلام آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے آج مجھ سے، امتِ مسلمہ کے ہر فرد سے مخاطب ہے۔ بیت اللہ کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے خود لیا ہے، اس کو خطرات لاحق ہو ہی نہیں سکتے، لیکن بیت المقدس کی آزادی کو ہمارے اعمال سے مشروط کردیا ہے۔ جب مسلمانوں میں حمیت باقی تھی انہوں نے اس کا تقدس بحال رکھا، اس کے لیے ہر قربانی دی۔ لیکن جب ہمارے اعمال یہودو ہنود کو شرما رہے ہیں تو یہ مقدس سرزمین بھی لہولہان ہے اور ہمارے ایمانوں کو للکار رہی ہے۔ اصل میں دنیا کی محبت اور موت سے کراہت ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری بن گئی ہے۔ مٹھی بھر اسرائیلی روز اس پاک سرزمین کو مسلمانوں کے لہو سے رنگ دیتے ہیں۔ ان کے گھروں اور کھیتوںکو مسمار کردیتے ہیں۔ قرآنِ مقدس ہمیں پکارتا رہتا ہے کہ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کو کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے۔کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا، تم نہ اٹھوگے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ ( سورہ التوبہ 38۔39)
سوچیے، قرآن کیا محض ثواب اور ختم کے لیے ہے! قرآن نے جو قصص الامم اور قصص الانبیاء بیان کیے ہیں وہ محض ثواب اور برکت کے لیے دہرائی جانے والی چیزیں ہیں؟ کیا گھروں سے آفات و بلیّات ہم قرآن کا دم کرکے بھگاتے رہیں اور مسلم امہ جس کرب و تکلیف سے گزر رہی ہو ہمیں اس کا کوئی احساس ہی نہ ہو؟ پھر بھی ہم اپنے ایمان کو کامل سمجھتے رہیں؟ کیا غزہ سے ہمیں آوازیں آتی ہوئی محسوس نہیں ہوتیں کہ ’’کونو انصار اللّٰہ‘‘۔ ہر سال ماہِ رمضان میں اسرائیل مسلم امہ کو للکارنے کے لیے نئی کارروائیاں کرتا ہے، اور ہم ختمِ قرآن کے جشن تشکیل دینے میں لگے رہتے ہیں!
اگر ہم کہتے ہیں کہ سرزمینِ فلسطین ہماری ماں ہے، تو ماں تو سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ یہ سرزمینِ پاک جس کا قرآن نے بے حد اکرام کے ساتھ ذکر کیا، جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے، اسرائیل اسی القدس کے اردگرد نئی بستیاں تیزی سے آباد کررہا ہے۔ وہ حرمِ پاک جس کی طرف منہ کرکے انبیاء کرام ؑ اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عرصے تک اسی قبلہ کے روبرو نماز ادا کرتے رہے، آج وہاں اسرائیلی توپوں کے بدلے میں معصوم بچے اور جوان غلیلوں سے لڑ رہے ہیں۔
قبلہ اوّل کا تذکرہ کبھی اہلِ ایمان میں حرارت بھر دیتا تھا۔ ظلم و ستم غزہ کی پٹی پر ہوتے تھے اور پوری مسلم دنیا کی سڑکیں سراپا احتجاج بن جاتی تھیں۔ جگہ جگہ مسلمان اپنے لہو سے قبلہ اوّل کی آزادی کے وعدے تحریر کرتے۔ اب تو عالمِ اسلام لاتعلق سا رہتا ہے اور اسرائیل کی دہشت گردی کو وہاں کا اندرونی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے سنگ دلانہ اقدامات پر عالمی برادری “Condemn” اور”Noted” کے عظیم الفاظ کے تاج انہیں پہنا کر تھپکی دیتی ہے۔ کبھی کبھی تو ہم ’’الفاظ‘‘ بھی ضائع ہونے سے بچا لیتے ہیں! سورہ بنی اسرائیل میں ذکر کیے گئے مقامِ مقدس کا احوال یہ ہے کہ جگہ جگہ میٹل گیٹ نصب کیے گئے ہیں، ان سے گزر کر مسجد اقصیٰ جانا جوئے شیر لانے سے بھی بڑا امتحان ہے۔ چیک پوسٹوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ کیا جاتا ہے۔ اگر پانچ سڑک بعد کسی کا گھر ہے تو اُسے کم و بیش پچیس، تیس دفعہ تلاشی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ ہر وقت شناختی کارڈ، اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کا پرمٹ طلب کیا جاتا ہے۔ لایعنی اور زچ کردینے والے سوال و جواب کے عذاب سے گزر کر جب کوئی فلسطینی مسجد اقصیٰ کے کسی دروازے تک پہنچنے میںکامیاب ہوجاتا ہے اور اگر شناختی کارڈ میں اس کی عمر چالیس برس سے ایک دن بھی کم ہے تو اس کا شناختی کارڈ اور پرمٹ ضبط کرکے اس کو حقارت سے واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔ جس کا شناختی کارڈ ضبط ہوجائے اس کو دھمکی دی جاتی ہے کہ یا جیل جائو یا فلسطین چھوڑ دو۔
فلسطینی نوجوانوں کے اعصاب شل کیے جارہے ہیں۔ وہ ردعمل کا شکار ہورہے ہیں۔ آخر کب تک ذلت کے اس عذاب کو برداشت کرتے رہیں! یہ الگ بات ہے کہ ان کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔
قبلہ اوّل کی یہ تنہائی یقینا ایک عظیم المیہ بھی ہے اور سانحہ بھی۔ فلسطینی بچہ بچہ ہمارا ہیرو ہونا چاہیے جو جان پر کھیل کر فرضِ کفایہ ادا کررہے ہیں۔ وہ فاقے بھی سہہ رہے ہیں اور زخم بھی، پھر بھی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ یہ صرف اُن کا تو مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ تو مسلم امہ کا ہے۔ اگر فلسطینی جوان غلیلیں رکھ دیں اور مائیں بچوں کو شہادت کے لیے تیار نہ کریں تو مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر ہونے سے کون روک سکتا ہے! اور قبلہ اوّل کا سقوط پوری مسلم امہ کا سقوط ہوگا۔
رمضان المبارک ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ کب تک انبیاء کی یہ مقدس سرزمین خون میں نہاتی رہے گی؟ ہماری خاموشی نے امریکہ و اسرائیل کو ہر شیطانی عمل کر گزرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ عالمِ اسلام پر سکوت طاری ہے کہ ہم بیانات کی حد تک بھی ان ظالموں اور انصاف و انسانیت کے دشمنوں کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار نہیں کرسکتے۔ کیا World Order ابJew Order بن چکا ہے؟ واشنگٹن اور تل ابیب برابر انسانیت کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ ہم نے انسانیت کو ان کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے۔ ہم بھول گئے کہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا ظلم کرنے ہی کے مترادف ہے۔ غزہ کی سرزمین سے روز جوانوں کی لاشیں اٹھتی ہیں۔ بلڈوز کی ہوئی عمارتوں پر گولے برساتی ہوئی توپیں، نوحہ کرتی مائیں یہودی فسطائیت کے چہرے کا بدنما داغ ہیں۔ اس خطے کی قسمت پنجۂ یہود میںدینا، اور عربوں کو غلام بناکر رکھنا ہی وقت کی سپر پاور کی نظر میں مسئلے کا واحد حل ہے۔
قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ اگر اسرائیل ایک ظالم و غاصب ریاست ہے تو امریکہ اُس کا سرپرستِ اعلیٰ ہے۔ ہم دنیا کی ظالم قوتوں کو تو پھر بھی کبھی للکار لیتے ہیں، لیکن ان کے سرپرستوں کے سامنے نظریں جھکا کے رکھتے ہیں کہ کہیں معاشی مفادات وابستہ ہیں، تو کہیں اقتدار کے لالے پڑے ہیں۔ اسرائیل سے تعلقات کا انقطاع کرتے ہیں اور امریکہ سے یاری نبھاتے ہیں۔ اگر عالمِ اسلام بیت المقدس کے مسئلے پر بھی متحد اور بیدار نہیں ہوگا پھر تو اس کو صورِ اسرافیل کا انتظار ہی کرنا چاہیے! ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، رمضان کے روزے رکھتے ہیں مگر ظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ ظالموں کے معاشی و سفارتی بائیکاٹ کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بناتے۔ آخر یہ ایمان کی کیسی گواہی ہے جو ہم پیش کررہے ہیں؟
آپ سوچیے! عین رمضان المبارک میں جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے، اسرائیل غزہ یا فلسطین کے بچے کھچے علاقے پر کوئی دہشت گردانہ حملہ کرتا ہے، معصوم بے گناہ فلسطینی توپوں اور میزائلوں کا نشانہ بنتے ہیں، بستیاں تاراج ہوتی ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ رسمی بیانات، اظہارِ افسوس، تبادلۂ خیالات، امن کے لیے مختلف فارمولے… سفارتی میزیں سج جاتی ہیں اور بس۔
کتنا بڑا المیہ ہے کہ عالمِ اسلام کا کوئی قائد یا لیڈر (ماسوائے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے) بیت المقدس کے تحفظ کے لیے آگے آنے کی جرأت بھی کرتا ہے تو یہود وہنود ایسی سازش تیار کرتے ہیں کہ خود مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرکے ان کی قوت کو پارہ پارہ کردیتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کا ہر مقدس پتھر، اور فلسطینیوں کے بہنے والے لہو کا ہر قطرہ مسلم امہ پر ایک قرض ہے۔ وہ لاکھوں مسلمان جو رمضان المبارک کے مقدس دن اور راتیں حرم شریف میں گزارتے ہیں یا اس کا خواب دیکھتے ہیں، کیا کبھی یہ خواب بھی دیکھتے ہیں کہ لیلۃ القدر زندگی میں ایک بار کبھی مسجد اقصیٰ میں بھی گزاری جائے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ اول اور انبیا کی سرزمین ہے۔ طاق راتیں تو مسجد اقصیٰ میں بھی جاگتی ہوں گی، مگر ہماری آنکھوں سے یہ خواب چھن گئے ہیں۔ جن کے لہو میں حدت ہے وہ وہاں اب بھی کئی کئی کلومیٹر لمبی لائنوں میں چیک پوسٹوں سے گزرتے ہیں اور ہر قیمت پر لیلۃ القدر مسجد اقصیٰ میں گزارنے کا عزم رکھتے ہیں۔ دس دس برس یا زیادہ چیک پوسٹوں سے واپس لوٹنے والے ہر سال آکر ان لمبی لائنوں میں پھر لگ جاتے ہیں، آنکھوں میں یہ سپنا سجائے کہ طاق راتوں میں سجدے تو بس وہی ہوں گے جو مسجد اقصیٰ میں ادا ہوں گے۔ اسرائیل چھوٹے چھوٹے واقعات کو بہانہ بنا کر ان کے بیت المقدس میں داخلے کے پرمٹ منسوخ کردیتا ہے، وہ سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں اور سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں۔ ہزاروں فلسطینی چیک پوسٹوں سے واپس کردیے جاتے ہیں پھر بھی لاکھوں جمعۃ المبارک ادا کرنے کے لیے پھر لائنیں بناکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ بسوں میں بھی پکارتے ہوئے آتے ہیں اور چیک پوسٹوں پر بھی کھلے عام پکار پکار کر کہتے ہیں ’’ مسجد اقصیٰ ہماری تھی، ہماری ہے، بیت المقدس ہمارا ہے، قبلہ اوّل ہمارا ہے‘‘۔ وہ اپنے ایمان کی گواہی پیش کررہے ہیں اور وقت ہم سے سوال کررہا ہے کہ تمہاری جبینوں کے وہ سجدے کہاں گئے جن کا اقصیٰ انتظار کررہی ہے؟