فخر ماتری ایک عہد ساز صحافی

1538

ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی

فخر ماتری پاکستان کی صحافت کا ایک ایسا نام ہے جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے انتہائی نامساعد اور مشکل حالات میں بھی حق گوئی اور بیباکی کو اپنا شعار بنائے رکھا اور اصولوں پہ کبھی سودابازی نہیں کی۔
فخر ماتری کو ﷲتعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔وہ اپنی پیش بینی کی صلاحیت سے آنے والے حالات کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔انہوں نے صحافت کو ہمیشہ ایک مشن سمجھا اور ساری زندگی اپنے قلم سے ملک و قوم کی خدمت کرتے رہے۔زندگی نے انہیں زیادہ مہلت تو نہ دی مگر وہ جتنا عرصہ حیات رہے ،اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے ہم وطنوں کی فکری سطح کو بڑھانے اور ان کے زوق کی آبیاری کرنے میں مصروف رہے۔
”ہم پرورش لوح قلم کرتے رہیں گے”
انہوں نے تین اخبارات کا اجراء کیا جو کہ تین مختلف زبانوں میں شائع ہوئے۔”ملت”گجراتی زبان میں ،”لیڈر”انگریزی زبان میں اور ”حریت”اردو زبان میں شائع ہواکرتا تھا۔
فخر ماتری نہ صرف ایک صحافی بلکہ ادیب،افسانہ نگار،شاعر اور ڈرامہ نگار بھی تھے۔اُن کی شخصیت کی تمام جہتیں ہی لاجواب تھیں۔اُن کے مزاج میں سنجیدگی بھی تھی،شرارت بھی،شوخی بھی تھی اور ڈرامائیت بھی۔ہر پہلو اپنی جگہ بھرپور تھا۔اُن کی صحبت میں کبھی کوئی بور نہیں ہوتا تھا،بلکہ لوگ اُن کے ساتھ وقت گزارنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
فخر ماتری کا پورا نام سید فخرالدین تھا۔گجرات کے ایک گائوں ماتر میں پیدا ہوئے اس لئے ماتری کہلائے۔اُن کے آباء واجداد میں ایک گرانقد نام شاہ وجیہہ الدین کا ہے جو کہ اپنے وقت کے جیدعالم تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم ماتر میں ہی حاصل کی۔اُن کے گھر میں فارسی اور گجراتی زبان بولی جاتی تھی۔انہوں نے انگریزی اور فارسی میں تعلیم حاصل کی اور ان دونوںپر انہیں عبور حاصل تھا۔وہ اردو بول سکتے تھے مگر لکھنا نہیں آتی تھی۔
انہوں نے کسی ناکامی کو اپنی کامیابی کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا۔جب ان کا میٹرک کا نتیجہ آیا اور پتہ چلا کہ وہ فیل ہوگئے ہیں تو اپنے ایک جاننے والے صاحب کے استفسار پر انہوں نے اپنا نتیجہ کچھ اس طرح بتایا کہ ”میں نے میٹرک کے امتحان کو مات دے دی ہے اور ناکام ہونے میں کامیاب ہوگیا ہوں”۔
اُن کے دو بیٹے تھے جن کے نام بھی فخرماتری کی انفرادیت ،شاعرانہ مزاج اور انقلابی سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں،بڑے بیٹے کا نام انقلاب اور چھوٹے کا نام فردوس ہے۔
انہوں نے عملی زندگی کا آغاز ممبئی کے پرکاش اسٹوڈیو میں اشتہارسازی سے کیا۔اس کے بعد ایک گجراتی ہفت روزہ”ویٹریں”میں پہلے نیوز ایڈیٹر پھر ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔اسی دوران انہیں خیال آیا کہ بجائے اس کے کہ دوسرے اخبار میں کام کیا جائے،کیوں نہ خود اپنا اخبار نکالا جائے۔اس سلسلے میں انہوں نے قائداعظم سے مشورہ کیا اور 3مئی کو ممبئی سے گجراتی اخبار ملت کا اجراء کیا۔اس اخبار نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا اور مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی ۔
فخر ماتری قائداعظم کو رہنماسمجھتے تھے اور اُن کے بہت قریب تھے۔تحریک پاکستان میں انہوں نے بہت جوش و خروش سے حصہ لیا تھا،خالص مسلم لیگی تھے۔قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح انہیں اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ایک موقع پر محترمہ فاطمہ جناح نے ماتری صاحب کے لئے کہا تھا کہ
‘مسٹر فخر ماتری عالمگیر شہرت یافتہ ممتاز و آزاد خیال صحافی اور تحریک آزادی کے عظیم علمبردار تھے”۔ (روزنامہ حریت،7مارچ1967)
تحریک پاکستان میںفخر ماتری نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاناور اپنے اخبار ”ملت”کے زریعے مسلمانوں کی آواز دوردور تک پہنچائی ۔اِسی وجہ سے اس وقت کے ممبئی کے وزیراعلیٰ نے ذاتی پرخاش کی بناء پر انہیں زبردستی ممبئی سے نکال دیا اور فخرماتری بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان آگئے۔
فخرماتری کا عزم اور مضبوط قوت ارادی نے انہیں کبھی شکستہ دل ہونے نہیں دیا،اسی لئے جب وہ انتہائی خراب حالات میں پاکستان آئے تو مالی لحاظ سے صفر تھے اور دوبارہ اپنے اخبار ملت کا اجراء کرنا چاہتے تھے،مگر اس کے لئے سرمایہ نہ تھا۔اس موقع پر ایک ہندو اپنی مشین بیچ کے جارہا تھا،اس دوران انہیں ایک انڈیا کے زمانے کے جاننے والے صاحب اچانک مل گئے اور انہوں نے ماتری صاحب کو وہ مشین لے کر دے دی۔ماتری صاحب نے کراچی میں سلطان ہوٹل کے پیچھے دو کمرے کرائے پر لے کر ”ملت”کا دوبارہ اجراء کیا۔مالی حالات کسی طرح درست ہی نہیں ہورہے ہیں۔ایک مرتبہ ”نورہوا”تمباکو کمپنی کے مالک ان سے ملنے آئے اور خراب حالات دیکھ کر کہا کہ ان کے پاس ایک گودام ہے جو خالی ہے،وہ جگہ آپ لے لیں اور کام شروع کردیں ۔اس طرح حالت کچھ بہتر ہوئے اور ان کے پاس نئی مشین بھی آگئی۔
1956میں فخرماتری پاکستان نیوزکونسل کے پہلے جنرل سیکریٹری بنے اور بعد میں انہیں صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔
ملت کے بعد ماتری صاحب نے سوچا کہ پاکستان کا افسر طبقہ انگریزی لکھنے پڑھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے،لہٰذا اپنے خیالات ان تک پہنچانے میں کے لئے انگریزی کا اخبار نکالنا چاہئے۔اس طرح ان کے انگریزی کے اخبار لیڈر کا اجراء ہوا۔
اپنے اردو قارئین کے لئے 1962میں ماتری صاحب نے اردو اخبار ”حریت”کا اجراء کیا جس نے پاکستان کی صحافتی تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا اور اردو صحافت میں جدید تکنیک کو روشناس کروایا۔حریت نے آتے ہی تہلکہ مچا دیا اور اپنے زمانے کے مشہور اخبارات سے اسکا سخت مقابلہ رہا۔صحافت کی دنیا کے معروف لوگ حریت سے وابستہ رہے،جن میں رضاعلی عابدی،حسن ندوی،نصرﷲخان،خواجہ رفی حیدر،انور مقصود،فرہاد زیدی وغیرہ شامل تھے۔اخبار کا نئے انداز کا لے آئوٹ،معروف کالم نگاروں کے کالم زبردست اداریوں نے قارئین کی توجہ بہت تیزی سے اپنی جانب مبذول کروائی۔
انہوں نے صحافت کو ہمیشہ مشن سمجھا اور مالی خسارے کے باوجود اصولوںپر سودے بازی نہیں کی۔حالانکہ وہ تین اخبارات کے مالک ہوگئے ،چاہتے تو عیش و آرام کی زندگی گزارتے ،مگر انہوں نے اس پیشے کو کبھی تجارت نہیں بنایا ۔لیڈر کے اجراء کے کچھ عرصے بعد مارشل لاء کا نفاذ ہوگیا اور اس زمانے میں اخبارات کو حکومت کے خلاف کچھ بھی چھاپنے کی اجازت نہیں تھی۔اِس زمانے میں جب انتخابات ہوئے جس میں محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان صدارتی امیدوار تھے،تو فخری ماتری نے حکومت کی مخالفت مول لے کر محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ۔اس وجہ سے ان کے اخبار کے سرکاری اشتہارات بند کردئیے گئے اور انہیں شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
فخر ماتری کو اﷲتعالیٰ نے بہت عزت و احترام سے نوازا تھا۔لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔اس کی وجہ ان کی نرمی اور رحمدلی تھی۔وہ ہر ایک کا خیال رکھتے۔خاص کر اپنے ملازمین کے ساتھ بہت شفقت برتتے،اسی لئے ان کے ملازمین اور اخبارات سے منسلک تمام لوگ انہیں ”باپو”پکارتے تھے۔
وہ جس محفل میں ہوتے جانِ محفل بن جاتے،اپنی شوخیوں اور بزلہ سنجی سے محفل کو زعفران زار بنادیتے،اداس لوگوں کو خوش کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔اپنی دلچسپ باتوں اور بھرپور شخصیت سے لوگوں کے دل جیت لیتے اور روتے ہوئوں کو ہنسادیتے۔
ان کے اندر وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ملک کے وقار اور اس کی سربلندی کے لئے وہ ہر طرح کی تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرلیتے مگر وطن کے مفاد پر آنچ نہ آنے دیتے۔انہیں طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔خاص طور پر ایوب خان کے زمانے میں جب محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تو فخرماتری نے ان کا ساتھ دیا۔مادرِملت کا ساتھ دینے پر انہیں بہت زیادہ مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔مگر انہوں نے حق کا ساتھ دیا اور باطل قوتوں کے آگے کبھی نہ جھکے۔یہ ہی حال ان کا1965کی جنگ میں تھا۔وہ اپنے ادارئیے خود لکھواتے اور اسے ویسے ہی چھپوادیا کرتے تھے۔فخرماتری کے بارے میں زیڈا اے سلہری نے کہا
”مجھے جس چیز نے فخرماتری کے اتنا قریب کیا وہ ان کی حب الوطنی تھی۔ان کی زندگی ملک کی خدمت کرنے کے جذبات سے سرشارتھی”۔
(روزنامہ حریت ،7مارچ)
فخر ماتری 6مارچ1966کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔
فخرماتری کے انتقال سے دنیائے صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا وہ پُر ہونا نا ممکن ہے۔ان کی ناگہانی موت پر ان سے مخالفت رکھنے والے بھی افسردہ تھے۔جناب الطاف حسین(ایڈیٹر ڈان) نے ان کے بارے میںکہا
”مسٹرفخر ماتری کئی سال تک میرے ہم پیشہ دوست رہے ہیں اور پاکستانی صحافت میںانہوںنے نمایاں کردار انجام دیا ہے۔اگرچہ میرے اور مرحوم کے درمیان عموماََ اختلاف رائے ہوتا تھا لیکن میں نے انہیں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا ان کے یوں اچانک اٹھ جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ مشکل ہی سے بھرا جائے گا”۔(روزنامہ حریت ،7مارچ1967)
زیڈ اے بخاری جو فخر ماتری کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے ان کے انتقال پہ صدمے سے نڈھال تھے اور انہوں نے مرحوم کے بڑے صاحبزادے انقلاب کے نام ایک خط بھی لکھا تھا۔
نواب آف جونا گڑھ نے اس غمگین موقع پر کہا
” مسٹر فخرماتری کی یاد ہمیشہ میرے دل میں رہے گی،مرحوم میرے ہمدرد اور یہی خواہ تھے ان کا قیمتی مشورہ اور ہنمائی مجھے ہمیشہ حاصل رہی اور مجھے ان پہ پختہ اعتماد تھا۔مسٹر فخرماتری کا ہمارے درمیان سے اچانک اٹھ جانا نہ صرف میرے لئے نقصان ہے بلکہ ایک ایسا زبردست نقصان ہے جسے قومی سطح پہ محسوس کیا جائے گا”۔(روزنامہ حریت،7مارچ 1967)
روزنامہ جنگ کے چیف ایڈیٹر میر خلیل الرحمن نے کہا
”جناب فخرماتری پاکستان کے اخبار نویسوں میں ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے اور ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ فی الحال پُر ہوتا نظر نہیں آتا۔میں نے ماتری صاحب کو بہت قریبسے دیکھا ہے مجھے ان کی شخصیت کردار اور ان کے اصولوں نے ہمیشہ متاثر کیا۔پاکستانی صحافیوں کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ فخرماتری کے بنائے ہوئے راستہ پہ گامزن رہیں اور عوامی مفاد اور ترقی کے لئے برابر کام کرتے رہیں۔(روزنامہ حریت ،7مارچ1967)
پاکستان کی صحافت میں فخرماتری کا نام سرفہرست رہے گا اور تاریخ میں ان کی صحافتی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔

آخر کو ہنس پڑیں گے کسی بات پر
رونا تمام عمر کا بے کار جائے گا

خورشید رضوی

حصہ