بچے مسجد میں۔۔۔ ہمارا مستقبل ہیں

1064

ترجمہ : فاطمہ عزیز
آپ سوچیں ایک ایسی مسجد جس کے امام صرف اس وجہ سے سجدہ طویل کرلیں کہ ان کی کمر پر بچے چڑھے ہوئے ہوں (جب کہ ان کے پیچھے جماعت بھی سجدے میں ہو)، امام ایسی نماز ادا کریں جس میں وہ بچے کوگود میں لے کر قیام کریں۔ ایک ایسی مسجد جہاں کے امام صرف اس وجہ سے نماز کا دورانیہ چھوٹا کردیں کہ بچے کے رونے کی آواز آرہی ہو۔ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کا ذکر ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرتے تھے۔
حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’اللہ کے رسولؐ نماز پڑھانے آئے اور ان کی گود میں حسنؓ یا حسینؓ تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امامت کے لیے آئے، اُن کو نیچے بٹھا دیا اور تکبیر کے ساتھ نماز شروع کی۔ نماز کے دوران نانا کا ایک سجدہ طویل ہوگیا۔ میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر حضرت حسنؓ چڑھ کر بیٹھے ہوئے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے۔ میں پھر سجدے میں چلا گیا۔ جب نماز مکمل ہوگئی تو لوگوں نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسولؐ، آپؐ نے سجدہ اتنا طویل کیا کہ ہم سمجھے آپؐ پر وحی آرہی ہے یا آپؐ کو کچھ ہوگیا ہے‘‘۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ’’نہیں ایسا نہیں تھا، بلکہ میرے نواسوں نے مجھے اپنی سواری بنایا ہوا تھا اور میں انہیں کھیل سے لطف اندوز ہونے دینا چاہتا تھا۔‘‘ (نسائی ، ابن عساکر، حاکم)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنتِ زینب بنتِ رسول اللہ کو لے کر نماز ادا کرتے اور سجدہ کرتے وقت ان کو نیچے بٹھا دیتے، پھر قیام کے دوران دوبارہ گود میں لے لیتے تھے۔ (بخاری اور مسلم )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز ارشاد فرمایا ’’جب میں نماز کے لیے کھڑا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز طویل ادا کروں، مگر جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنا ارادہ ترک کرکے نماز چھوٹی کرلیتا ہوں، کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں پریشان ہو۔‘‘ (بخاری)
ان احادیث سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں بچوں کی موجودگی عام بات تھی۔ اس کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی فطرت کو سمجھتے تھے اور ان کے آرام کا خیال رکھتے تھے۔
کیا یہ باتیں ہمیں اپنی مساجد میں نظر آتی ہیں؟ نہیں، بلکہ ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ بزرگ افراد بچوں کو پکڑ کر کہتے ہیں کہ خاموشی سے بیٹھ جائو، کیونکہ وہ صفوں کے بیچ میں بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ یا پھر ہمیں یہ سنائی دیتا ہے کہ ’’بہن کیا آپ باہر جاکر اپنے بچے کو چپ کرا سکتی ہیں!‘‘ یا پھر مساجد کے باہر لکھا دکھائی دیتا ہے کہ بچے مسجد کے اندر نہ آئیں۔
ہماری مساجد میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے بچوں سے اچھا سلوک روا رکھا جائے۔ اور ایسا کیوں کیا جائے؟ اس لیے کہ اس میں ہماری خواتین اور بچوں کی بہتری ہے۔ کس طرح؟ ایسے کہ جب مساجد میں بچوں کو آنے کی اجازت نہیں ہوگی تو مائیں بھی نہیں آئیں گی۔ اور ایک طویل اور تھکا دینے والے دن کے اختتام پر گھروں میں، جہاں مائیں پورا دن برتن دھوکر اور شور مچاتے بچوں کو کنٹرول کرتی رہتی ہیں، دن کے اختتام پر یہ مائیں کہیں ایسی جگہ جانا چاہیں گی جہاں پر ان کے بچوں کو گھومنے پھرنے کے لیے کھلی جگہ ملے، جہاں وہ بھاگ دوڑ سکیں، جہاں ان کی مائیں تھوڑی دیر اطمینان سے باتیں کرسکیں، پُرسکون ماحول مل سکے۔ اگر یہ جگہ مسجد نہ ہوئی تو پھر خوایتن مالز کا رُخ کریں گی جہاں اُن کے بچے موسیقی سنیں گے، بے ہودہ لباس دیکھیں گے اور مختلف اشتہارات دیکھیں گے۔
ہماری مساجد ایسی جگہ ہونی چاہئیں جہاں مائیں اپنے بچوں کو لے کر آئیں تاکہ وہ اچھی دوستی اپنائیں، نماز کی پابندی کی عادت اپنائیں۔
مساجد میں جب بچوں کو کھیلنے، شور مچانے سے منع کیا جاتا ہے تو ان کو اسکول اور میدان زیادہ بھاتے ہیں، جہاں وہ ہر طرح کا کھیل کھیل سکتے ہیں، بلکہ ان کی تعریف کی جاتی ہے، ایسے حالات میں بچے کہاں جانا پسند کریں گے؟ جب بچپن سے ہی بچوں کے دل مساجد میں نہیں لگیں گے تو بڑے ہوکر بھی مشکل ہے کہ وہ مساجد کا رُخ کریں۔ اگر ان کے دل میں مسجد کی محبت شروع سے بٹھانی ہے تو اس کے لیے تھوڑا شور شرابہ اور کھیل کود برداشت کرنا ہوگا، تاکہ ایک اچھا مسلم معاشرہ پروان چڑھے۔
بچوں کو درج ذیل طریقے سے مسجد کی جانب راغب کریں:
(1) آرام سے سمجھائیں:
انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو ہمیشہ پیار، محبت اور انتہائی مشفقانہ انداز میں سمجھایا کرتے تھے‘‘ (بخاری)۔ اس لیے بچوں کو آرام سے سمجھائیں۔ اللہ تعالیٰ بچوں کو ان کی شرارتوں پر سزا نہیں دیں گے مگر ہمیں گناہ ملے گا اگر ہم نے بچوں سے صحیح سلوک نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ بچے ہمیشہ آرام اور پیار سے سمجھیں گے، ڈانٹ ڈپٹ سے وہ آپ سے متنفر ہوجائیں گے۔
( 2) مدد کریں: اگر آپ کسی ماں کو دیکھیں کہ وہ مشکل میں ہے کہ کیسے اپنے بچے کو چپ کرائے، یا باپ اپنے چھوٹے بچے کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگتا پھر رہا ہے تو آپ ان کی مدد کو آگے بڑھیں، آپ ان کے بچوں کو تھوڑی دیر سنبھال لیں تاکہ وہ سکون سے نماز پڑھ لیں۔ اس سے آپ کو ثواب ملے گا۔
(3) بچوں کو مسجد کا احترام سکھائیں: مسجد میں ایک ہفتہ وار پروگرام رکھیں جس میں مسجد کا احترام اور ضروری ہدایات بچوں اور اُن کے والدین تک پہنچائی جائیں، جن پر بچے عمل کرنا سیکھیں۔
(4) مساجد بچوں کی مناسبت سے بنائی جائیں، جیسے کہ باتھ روم میں ڈائپر چینج کرنے کی جگہ یا ٹیبل ہو، تاکہ قالین اور کارپٹ خراب نہ ہوں۔ کتابیں، قرآن، بچوں کی پہنچ سے دور رہیں۔ جھاڑو یا ڈسٹ بِن موجود ہو تاکہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے اور مائیں بچوں کی پھیلائی ہوئی چیزیں صاف کرسکیں۔
(5) ایک کمرہ الگ سے بنایا جائے جہاں بچے نماز کے دوران کھیلتے رہیں۔ وہاں بچوں کی مناسبت سے کھلونے اور کاغذ پینسل رکھے جائیں، چاہیں تو ایک آدھ ملازمہ بچوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے رکھ لیں، خاص طور سے ایسے اوقات میں جب امید ہو کہ بہت بچے موجود ہوں گے، تاکہ وہ نماز کے دوران بچوں پر نظر رکھ سکے، کیونکہ والدین اس معاملے میں پیسے دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ جیسے جمعہ کی نماز یا تراویح کے دوران زیادہ رش اور بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کے امکانات ہوتے ہیں، تو ایسی صورت میں ملازمہ بچوں کے لیے مناسب ہوگی۔
آئیں کوشش کریں کہ بچوں اور ان کی مائوں کو بھی مساجد میں اچھے رویّے کے ساتھ خوش آمدید کہیں اور ایک اچھے مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

حصہ