(قسط نمبر 2)
اگلے دن جب شہزادہ حسب معمول اسکول سے سیدھا اپنے گھوڑے کے بچے کے پاس پہنچا تو اسے آنسو بہاتے دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ اس بے زبان سے رونے کا سبب معلوم کیا تو اسے انسانوں کی طرح بولتے دیکھ کر ڈر بھی گیا اور حیران بھی ہوا۔ گھوڑے کے بچے نے کہا کہ آپ نہ تو ڈریں اور نہ ہی حیران ہوں۔ میں پری زادہ ہوں اور آپ کی والدہ مرحومہ کی درخواست پر آپ کی حفاظت کیلئے مامور کیا گیا ہوں۔ شہزادے کو اپنی ماں کا خواب میں آکرگھوڑے کا بچہ خریدنے کی ہدایت یاد آگئی۔ یہ سن کر اسکا خوف دور ہوا اور حیرانی بھی ختم ہوگئی۔ شہزادے نے کہا کہ تمہارے یاد دلانے پر مجھے اپنی والدہ کے خواب میں آکر گھوڑے کا بچہ خریدنے کی بات بہت اچھی طرح یاد آگئی ہے لیکن یہ تو بتاؤ کہ آج تم رو کیوں رہے ہو۔ گھوڑے کے بچے نے نے شہزادے سے کہا کہ یہ جو تمہاری سوتیلی ماں ہیں آج انھوں نے تمہیں مارنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اپنی ایک کنیز سے مل کر تمہارے شربت میں زہر ملایا ہے۔ بس تم ایسا کرنا کہ تمہاری ماں یا کنیز جتنی بھی ضد کرے تم وہ شربت کسی بھی صورت نہیں پینا باقی جو بھی کھانے پینے کی چیزیں ہیں وہ بلا خوف و خطر کھا پی سکتے ہو۔ بس اسی غم میں مجھے رونا آرہا تھا کہ ماں ہوتے ہوئے بھی وہ آخر تم سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہے۔ تمہارے والد بھی اس سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ اگر تم ان کو سارے حالات بتاؤ گے بھی تو وہ کبھی تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے اس لئے تم فی الحال حالات کے اچھے ہونے کا انتظار کرو اور وقت کا انتطار کرو۔ شہزادہ ساری کہانی سن کر مطمئن ہوگیا اور حسب معمول اسکول بیگ اپنے کمرے میں رکھ کر اپنا لباس تبدیل کرکے جب کھانے کی میز پر پہنچا تو خلاف معمول اپنی سوتیلی ماں کو اپنے قریب پایا۔ اگر گھوڑے کا بچہ (پری زادہ) سب حقیقت نہ بتا چکا ہوتا تو وہ یقیناً حیران رہ جاتا۔ سوتیلی ماں نے بہت پیار سے اسے کھنا پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ بہت محبت بھری باتیں کیں۔ کھانے سے فارغ ہوکر شہزادے کا معمول تھا کہ وہ ایک خاص شربت ضرور پیتا تھا۔ اس کی سوتیلی ماں نے جب اسے وہ شربت پیش کیا تو اس نے اسے پینے سے انکار کردیا اور دل نہ چاہنے کا بہانہ بناکر اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔ اس کی سوتیلی ماں نے کمرے میں آکر بھی بہت اصرار کیا لیکن وہ راضی نہ ہوا۔ سوتیلی اس بات پر حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی ہوئی۔ اپنی خاص باندی کو بلا کر سارا حال اس کے سامنے رکھا۔ باندی نے کہا کہ کل ایسا کریں گے کہ اس کے سالن میں ہی زہر ملادیں گے پھر وہ کیا کر سکے گا۔ ملکہ (سوتیلی ماں) کی آنکھیں یہ سن کر چمکنے لگیں۔
اگلے دن جب شہزادہ اسکول سے واپس آیا تو حسب معمول وہ اپنے گھوڑے کے بچے کے پاس گیا۔ آج بھی اسے روتے ہوئے پایا تو رونے کا سبب دریافت کیا۔ گھوڑے کے بچے نے اسے بتایا کہ آج تیری سوتیلی ماں نے کھانے میں ہی زہر ملادیا ہے۔ باقی کسی بھی چیز میں زہر نہیں ہے۔ آج ایک نئی بات یہ بھی ہوئی ہے کہ ماں نے تیرے لئے شربت کی بجائے لسی کا انتظام کیا ہے۔ تم دسترخوان پر رکھی ہر شے کھاسکتے ہو لیکن سالن چکھنا بھی نہیں۔ ادھر گھوڑے کا بچہ اسے یہ باتیں بتارہا تھا ادھرباندی دور کھڑی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی۔ بے شک وہ کوئی بات تو نہ سن سکی لیکن شہزادے کو سرہلاتے اور گھوڑے کے بچے سے کچھ کھسر پھسر کرتے دیکھ کر بہت حیران ہوئی۔ ادھر شہزادہ اپنا لباس بدل کر کھانے کی میز پر جا پہنچا اور اپنی سوتیلی ماں کو اپنے قریب موجود پایا۔ اس نے دو گھونٹ پانی پینے کے بعد روٹی کا نوالہ توڑ کر منھ میں رکھا اور لسی کا گلاس منھ کو لگایا تو ماں نے بڑے پیار سے سالن کی پلیٹ اس کی جانب سرکاتے ہوئے کہا کہ دیکھو آج تو یہ سالن خود میں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ تم کو تو معلوم ہے کہ ملکاؤں کا یہ کام کب ہوتا ہے لیکن آج مجھے خیال آیا کہ میں صرف ملکہ ہی نہیں تمہاری ماں بھی تو ہوں تو کیوں نہ خود تمہارے لئے سالن بناؤں۔ بہت مزے کا ہے ذرا کھاکر تو دیکھو۔ شہزادے نے لسی کے ساتھ نوالہ نگلنے کے بعد بصد ادب کہا کہ واہ ماں، کیا بات ہے آپ کے ہاتھ سے بنی اس لسی کی۔ زندگی میں پہلی بار اتنی خوش ذائقہ لسی پینے کو ملی ہے۔ آج گرمی بھی بہت ہے اس لئے میں تو آج لسی سے ہی روٹی کھاؤں گا۔ سچ مچ بہت مزا آرہا ہے۔ لسی سے روٹی بھی کھاؤں گا اور خوب ساری لسی بھی پیوں گا۔ اس کی سوتیلی ماں نے بہت چاہا کہ ایک نوالہ ہی وہ سالن کے ساتھ کھالے لیکن تمام تر اصرار اور کوشش کے باوجود بھی وہ شہزادے کو اس بات پر راضی نہ کر سکی۔
شہزادہ روٹی کھانے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا تو ملکہ نے پھر اپنی باندی کو بلا بھیجا۔ سارا ماجرا اس کے سامنے رکھا تو باندی نے بڑے رازدارانہ انداز میں ملکہ سے کہا کہ مجھے شک ہے کہ وہ جو گھوڑے کا بچہ ہے وہ کوئی عام گھوڑا نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ انسانوں کی طرح باتیں کرتا ہے۔ میں دور ہونے کی وجہ سے اس کی باتیں تو نہ سن سکی لیکن جس انداز میں گھوڑا شہزادے کے کان میں منھ لگاکر کچھ کہتا ہوا محسوس ہوا اور جس انداز میں میں نے شہزادے کو سر ہلاتے اور گھوڑے کے کان میں کچھ کہتے سنا وہ بہت ہی پر اسرار سا محسوس ہوا۔ مجھے تو ایسا ہی لگا جیسے وہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوں۔ ملکہ یہ سن کر حیران رہ گئی۔ اس نے بہت حیرت سے کہا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ گھوڑے بھی انسانوں کی طرح باتیں کریں۔ یہ سن کر باندی نے بھی کہا کہ ایسا ہو تو نہیں سکتا لیکن آپ یہ بھی تو سوچیں کہ جب ہم نے اس کے شربت میں زہر ملایا تو شہزادے نے شربت پینے سے انکار کردیا اور جب آج ہم نے اس کے سالن میں زہر ملایا تو آج اس نے سالن کا ایک نوالہ تک نہیں چکھا۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ کوئی ہے جو اس کو ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔ یہاں پورے محل میں شہزادے کی کسی سے بھی دوستی نہیں اور نہ ہی وہ کسی کے پاس جاتا ہے البتہ جب وہ اسکول سے آتا ہے تو اپنے گھڑے کے بچے کے پاس پہلے جاتا ہے پھر کہیں وہ کوئی اور کام کرتا ہے۔
ملکہ کو باندی کی باتیں اپنے دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئیں اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اس گھوڑے کے بچے کو ہی اپنے راستے سے ہٹا کر دم لی گی پھر دیکھے گی کہ شہزادے کو اس کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش کا کیسے علم ہوتا ہے۔
اس نے اپنی باندی کی مدد سے اپنے خاص طیب کو بلا بھیجا۔ جب طبیب آیا تو اس کو بھاری معاوضے کا لالچ دے کر اپنے کام پر راضی کر لیا۔
منصوبے کے مطابق ایک دن وہ بہت ہی صبح صبح زور زور سے تڑپنے اور چیخنے لگی۔ بادشاہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ ارے کیا ہوا، کیا ہوا ہی چلاتا رہ گیا لیکن وہ کوئی بھی جواب دینے کی بجائے ماہی بے آپ کی طرح تڑپتی رہی۔ جب اس کا چیخنا چلانا اور تڑپنا بند نہ ہوا تو اس نے اپنے طبیب خاص کو بلوا بھیجا۔ وہ بھی بوکھلانے اور گھبرانے کی اداکاری کرتے ہوئے حاضر ہوا اور ماجرا دریافت کیا تو بادشاہ نے اپنی ملکہ کی کیفیت کے متعلق آگاہ کیا۔ طبیب نے معائنہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تو فوراً اس بات کا اہتمام کیا گیا۔ جب طبیب کمرہ خاص میں داخل ہوا تو منصوبے کے مطابق ملکہ اسی طرح تڑپتی اور چلاتی پائی گئی۔ کئی کنیزوں کی مدد سے ملکہ کو قابو میں کرکے طبیب نے اس کا معائنہ کیا۔ معائنے کے بعد اس نے گھبراتے ہوئے بتایا کہ آپ کی ملکہ صرف آٹھ گھنٹے کی مہمان ہیں۔ انھیں بچانا ہے تو فوری طور پر اسے ایک گھوڑے کے بچے کا دل بھون کر کھلایا جائے ورنہ اس کے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بادشاہ یہ سن کر بہت گھبرایا۔ فوری طور پر تو اس کے پاس گھوڑے کا ایک ہی بچہ تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے بغیر اس کا شہزادہ شاید ہی زندہ رہ سکے۔ ضروری تھا کہ وہ اپنے بچے کو راضی کرے۔ قصائی کا انتظام کروائے اور ملکہ کیلئے گھوڑے کے بچے کا دل بھواکر اسے کھلائے۔
شہزادہ ویسے بھی صبح ہی صبح اٹھنے کا عادی تھا لیکن محل میں مچی چیخ و پکار کی وجہ سے وہ پہلے ہی بیدار ہو چکا تھا۔ اسے محل میں ہونے والی ساری سازشوں کا علم پہلے ہی گھوڑے کے بچے سے ہو چکا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ اس کی سوتیلی ماں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اس لئے نہ تو اس کے بتانے سے وہ اس کی باتوں پر یقین کریگا گا اور نہ ہی اس کی مرحومہ ماں کی تربیت ایسی تھی جس میں بڑوں کا احترام نہ کرنے کی ہدایت ہو۔ خواب میں بھی اس کی ماں نے یہی تلقین کی تھی کہ وہ وقت اور حالات کا انتظار کرے۔ گھوڑے کے بچے نے بھی اسے ساری صورت حال بتادی تھی اور سمجھادیا تھا کہ اسے کیا کیا کرنا ہے اس لئے وہ ذہنی طور پر ہر بات کیلئے تیار تھا۔
باد شاہ اپنے شہزادے کے پاس آیا اور سب احوال کہہ سنایا۔ شہزادے نے بھی ہر حقیقت معلوم ہونے کے باوجود اس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ سب جانتا ہے۔ بس اتنا کہا کہ جب آپ نے ارادہ کر ہی لیا ہے تو مجھے گھوڑے کے بچے کو ذبح کرنے سے پہلے اس پر بیٹھ کر تین چکر لگانے کی اجازت ضرور دے دیجئے گا۔ باد شاہ کو اس بات کا یقین ہی نہیں تھا کہ شہزادہ اتنی جلد راضی ہو جائے گا۔ گھوڑے کے بچے کی پیٹھ پر بیٹھ کی تین چکر لگانے کی بات کوئی ایسی تو نہیں تھی جس پر بادشاہ کو کوئی اعتراض ہوسکتا تھا۔ بادشاہ بخوشی راضی ہوگیا۔
سورج نکلتے ہی قصائی بلالیا گیا۔ محل کے وسیع و عریض صحن میں قصائی کو بٹھا کر گھوڑے کے بچے کو لایا گیا۔ صحن کے وسط میں لاکر اسے باندھا گیا۔ اتنے میں شہزادہ بھی آگیا۔ تن پر معمولی کپڑے تھے اور آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ رات بھر جاگتا بھی رہا ہے اور روتا بھی رہا ہے۔ بادشاہ اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت غمزدہ ہوا لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ شہزادہ حقیقت میں کیوں پریشان تھا۔ شہزادہ گھوڑے کے بچے کی پشت پر سوار ہوا، محل کے درودیوار پر بہت گہری نظر ڈالی، باد شاہ کو یوں دیکھا جیسے الوادعی انداز میں کوئی دیکھا کرتا ہے اور گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی۔ گھوڑے نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا، صحن کا ایک چکر لگایا، دوسرے چکر میں اور بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ چکر لگایا، محل میں موجود سارے غلام، کنیزیں اور ملازمین یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ تیسرے چکر میں گھوڑے کی تیز رفتاری دیدنی تھی۔ جونہی تیسرا چکر مکمل ہوا، بجلی کی سی تیزی کے ساتھ گھوڑا فضامیں بلند ہوا اور سب نے دیکھا کہ اچانک اس کے بدن پر بڑے بڑے پر نمودار ہوئے اور وہ کسی ہوائی جہاز کی طرح سب کو حیران و پریشان چھوڑ کر آنکھوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا۔
(جاری ہے)