نیکی کا صلہ

420

فری ناز خان
کسی گاؤں میں ایک لکڑ ہارا رہتا تھا۔اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام علی تھا۔ وہ لکڑہارے سارا دن جنگل میں لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور ان پر اپنی محنت سے کام کرتے وہ ان لکڑیوں کی مدد سے دروازے اور کھڑکیاں اور بہت سے گھریلوں سامان بناتے تھے اور اپنے ہی گاؤں والوں کو نہایت ہی سستے داموں فروخت کرتے تھے۔اس طرح وہ اپنا گزر بسر کر رہے تھے۔ ایک دفعہ کافی دنوں تک علی کے ابو کو جنگل سے لکڑیاں نہیں مل سکیں جس کی وجہ سے گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی وہ انہی پریشانیوں کو سوچتے ہوئے جنگل کی طرف جارہے تھے کہ وہ چکر کھا کر گر پڑے اور بیہوش ہوگئے۔دور سے آتے ہوئے ایک شخص نے انہیں دیکھ لیا اور وہ ان کو گھر لے آیا۔ وہ لکڑہارہ بہت بیمار ہو گیا تھا۔اس کے بیٹے علی نے پورے گاؤں والوں سے مدد مانگی مگر کوئی بھی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوا۔
علی بہت اداس بیٹھا تھا کہ اس کے والد نے گاؤں والوں کو اپنی طرف سے نہایت ہی سستے داموں پر لکڑیوں کا کام کر کے دیا اور بدلے میں گاؤں والوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔وہ ابھی انہیں سوچوں میں گم تھا کہ وہی شخص علی کے قریب آیا اور اس سے پوچھنے لگا کہ وہ اتنا پریشان کیوں ہے تو علی نے اس شخص کو بتایا کہ وہ اس لکڑہارے کا بیٹا ہے اور اس کے والد کی طبیعت کافی عرصہ سے خراب ہے اور علی کے علاوہ گھر میں ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے اب اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیا کرے۔ اس شخص نے اسی وقت ڈاکٹر کو بلایا اور علی کے ابو کا علاج شروع کروایا اسی دوران اس شخص نے علی کے ابو کے کام کا بغور معائنہ کیا جو انھوں نے اپنے گھر کے دروازے اور کھڑکیوں اور دوسرے سامان پر کیا ہوا تھا۔وہ شخص روزانہ علی کے لئے بھی کچھ نہ کچھ لاتا اور اس کے ابو کا بھی علاج کروایا۔ جب علی کے ابو نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے تو اس نے بتایا کہ اس کا نام عامر ہے وہ پاس ہی کے ایک گاؤں میں رہتا ہے اور وہ اکثر کام کے سلسلے میں شہر جاتا ہے۔
ایک بار جب وہ کام سے فارغ ہو کر واپس آ رہا تھا تو راستے میں شام ہو گئی تھی اور اسے اسی جنگل سے گزر نا پڑتا ہے جہاں سے وہ لکڑہارہ لکڑیاں کاٹتا ہے۔اس دن راستے میں کسی لٹیرے نے اس کا سارا سامان اور پیسے سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ نہایت ہی مایوس ہو چکا تھا تب علی کے ابو نے اس کی مدد کی تھی اور اس وقت ان کے پاس جو بھی پیسے تھے وہ سارے اسے دے دیے تھے۔ میں جو کہ ایک انجان تھا پھر بھی بنا کچھ سوچے سمجھے میری مدد کی۔
عامر نے ان کے کام کو بہت سراہا اور کہا کہ جب وہ بہتر ہو جائیں گے تو وہ اسے اپنے ساتھ اپنے گاؤں لیے جائے گا اور ان کے کام کو اچھے داموں میں فروخت کرواسکتا ہے۔کیوکہ اس کے گاؤں کے لوگ اس کام کو بہت پسند کرتے ہیں۔اس طرح آپ کو آپ کی بنائی ہوئی چیزوں کی منہ مانگی قیمت بھی مل جائے گی۔کیونکہ آپ کی بنائی ہوئی چیزیں بہت عمدہ اور خوبصورت ہیں یہ سن کر علی اور اس کے ابو بہت خوش ہوئے۔
جوں ہی علی کے ابو کی طبیعت بہتر ہوئی تو وہ عامر کے بتائے ہوئے گاؤں چلے گئے وہاں پر ان کی ہاتھوں سے بنائی گئی چیزوں کو سب نے بہت پسند کیا اور گاؤں والوں نے علی کے ابو کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا علی کے ابو نے جتنا سوچا تھا اس سے کہیں زیادہ ان کے بنائے ہوئے سامان کی قیمت ملی تب انہیں یہ احساس ہوا کہ ان کے گاؤں والے ان کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ علی کے ابو نے اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک چھوٹی سی نیکی کا کتنا بڑا صلہ دیا۔۔۔بیشک بلا غرض کسی کی مدد کرنے سے اللہ پاک بہت خوش ہوتا ہے اور وہ اپنے بندوں کی نیکی کا بدلہ اس سے کئی گنا زیادہ دیا کرتا ہے۔

حصہ