غزوۂ بدر۔۔۔ آہن پوش لشکر بہ مقابلہ آہنی عزم

642

سید مہرالدین افضل
جنگی امور کے ماہرین اور تاریخ نگار اب تک کی جنگوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ جب آمنے سامنے تلواروں اور نیزوں وغیرہ سے لڑا کرتے تھے انہیں فرسٹ جنریشن وارز کہتے ہیں… اور بندوق اور توپ سے لڑی جانے والی جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار جب فضائیہ اور نیوی وغیرہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوگئی… میزائلوں کے ذریعے دور سے دشمن پر وار کرنے کے راستے بھی نکل آئے… اور ٹیکنالوجی کا استعمال فیصلہ کن ہوگیا… ان جنگوں کو تھرڈ جنریشن وارز کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں تک جنگیں صرف افواج کے درمیان لڑی جاتی تھیں، لیکن پھر ریاستوں نے جنگیں ٹھیکے پر دینا شروع کردیں، اور اس طرح جنگوں میں ملکی افواج کے ساتھ ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹرز، سفارت کاری، معیشت، اور پروپیگنڈے کے ہتھیار بھی شامل ہوگئے، اور دہشت گردی بھی جنگوں کے اہم ہتھیارکی حیثیت اختیار کرگئی۔ جنگوں کی اس نئی قسم کو فورتھ جنریشن وارز کا نام دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ہائبرڈ وار (Hybrid) کی اصطلاح بھی اسی فورتھ جنریشن وار کا دوسرا نام ہے، کیونکہ اس میں اسلحہ کے ساتھ ساتھ جنگ کے دیگر کئی ہتھیار شامل ہوگئے۔ آج کل ففتھ جنریشن وار کا چرچا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے انگریزی لفظ بیٹل (Battle) اور وار(War) کے فرق کو سمجھنا چاہیے۔ بیٹل وہ ہے جس میں دو فوجیں یا مسلح طاقتیں ایک دوسرے سے براہِ راست لڑائی لڑتی ہیں… جبکہ وار بہت وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے۔ اس میں ہتھیاروں کے ساتھ پروپیگنڈے، سفارت کاری، معیشت اور دیگر ہر طرح کے حربوں کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس میں بیٹل کی یا تو نوبت نہیں آتی، یا پھر وار (War) جیت کر آخری مرحلے میں بیٹل کا آپشن آزمایا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ میڈیا، سفارت کاری، پراکسیز اور معیشت ہیں۔ یہ زمین پر نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جاتی ہے۔ پہلے مرحلے میں انسانوں کو نہیں بلکہ اُن کے ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوجیں بھیجنے کے بجائے دشمن ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ براہِ راست حملے کے بجائے پراکسیز کے ذریعے ٹارگٹ ریاست کو کمزور کیا جاتا ہے… اور اس ملک کے اپنے شہریوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کے ذریعے اپنے پراکسیز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں پہلے مرحلے پر زیرنشانہ ملک کی فوجی چھائونیوں اور تنصیبات کو نہیں، بلکہ معاشرے میں موجود تضادات کو تلاش کیا جاتا ہے، اور پھر ان کے ذریعے اندرونی انتشار کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس جنگ میں کسی ملک کی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے عناصر اور اداروں کو خصوصی توجہ دی جاتی ہے… اور اس لیے ذرائع ابلاغ (ٹی وی، ریڈیو، اخبار، سوشل میڈیا اور فلم وغیرہ) اس جنگ کے خصوصی ہتھیار بھی سمجھے جاتے ہیں اور یہی پہلا نشانہ بھی ہوتے ہیں۔ ان تمام جنگوں کا مقصد قومی اور گروہی مفاد کے لیے دوسری قوموں کو فتح کرنا اور انہیں غلام بنانا ہوتا ہے۔ یہ تو خلاصہ ہے آج کے دفاعی اور جنگی ماہرین کے جنگوں کے بارے میں افکار کا۔ اب ذرا آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کی جنگوں پر نظر ڈالیں۔ یہاں آپ کو صرف قتال (Battle) ہی نظر آئے گا، اور اس کا مقصد بھی صرف لوگوں کے مال لوٹنا اور انہیں غلام بنانا ہے۔ اسلام نے قتال کے لیے فی سبیل اللہ کی شرط لگا دی۔ باقی ہر قتال کو ناجائز اور فساد فی الارض قرار دیا… اور قتال کے بجائے جہاد کا لفط اپنی پوری وسعت کے ساتھ استعمال کیا۔ اب جسموں کو فتح نہیں کیا جائے گا بلکہ دل اور دماغ کو فتح کیا جائے گا۔ جہاد کے اسی وسیع تصور نے اسے فاتح زمانہ بنایا تھا، اور آج بھی اسی مفہوم کے مطابق طرزِ فکر و عمل سے ہی یہ فاتح زمانہ بن سکتا ہے۔
سورۃ الانفال غزوہ بدر پر اللہ تعالی کا تبصرہ ہے، اسے سمجھنے کے لیے غزوہ بدر سے پہلے کے حالات کا گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے، خاص کر اُس وقت کے سیاسی، معاشی حالات… سماجی رویّے اور صلح و جنگ کے طریقے… صرف عرب کے نہیں دنیا بھر کے حالات، تاکہ آپ جان سکیں کہ دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کیا تھی، اور آپؐ کیا سکھا کر گئے… اور آج کی دنیا پر اس کے کتنے دوررس اثرات ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جو علمی کام کیا ہے اسے اپنی نوجوان نسل کے لیے آسان کرکے پیش کیا جائے، تاکہ وہ آنے والے معرکوں میں اعتماد کے ساتھ کھڑے ہوسکیں۔ ہمارے گزشتہ مضامین اسی سلسلے کی کوشش ہیں، لیکن یہ آغاز ہے، ابھی بہت کام باقی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس پس منظر کو جانے بغیر قرآن مجید کا مطالعہ مخالفین کے لیے بہت سے اعتراضات اور اہلِ ایمان کے لیے غلط فہمی، اور اس کے نتیجے میں غلط طرزِعمل کا سبب بنتا ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پڑھنے والے کی نظر اسلام کے پورے منظر، اور جامع نقشے پر رہے… تاکہ وہ کسی بھی مرحلہ فکر میں یک رخا نہ ہوجائے۔ اسی لیے اس کی ترتیب ایسی ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے مدنی مرحلے کی باتیں مکی دور والی تعلیم کے درمیان، اور مکی مرحلے کی باتیں مدنی دور والی تقریروں کے درمیان، اور ابتدا کی گفتگوئیں آخرکی تلقینات کے بیچ میں… اور آخری دور کی ہدایات کام کی ابتدائی تعلیمات کے پہلو میں بار بار آتی چلی جاتی ہیں۔ اب آئیے سورہ انفال کے مضامین کی طر ف… جیسا کہ ہم نے آغاز میں کہا کہ یہ غزوہ بدر پر اللہ کا تبصرہ ہے… تو دیکھیں یہ تبصرہ عام طور پر بادشاہوں اور کمانڈروں کے فاتحانہ تبصروں سے کتنا مختلف اور نرالا ہے۔ اور اسے اس نظر سے پڑھنے کا اصل فائدہ اُس وقت ہوگا جب ہم اپنی مہمات اور پراجیکٹس کے اختتام پر بھی اسی طرز پر غور و فکر کریں… وہ چاہے کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی مقررہ دورانیے کی مہم ہو، کوئی کاروباری پراجیکٹ ہو، یا انتخابی مہم… اس تبصرے میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ انسان آخر انسان ہے اور اس سے معاملات میں غلطیوں کا اظہار کوئی ان ہونی بات نہیں ہے۔ اس کی چند باتیں مختصراً یہ ہیں: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی توجہ اُن کوتاہیوں اور اخلاقی کمزوریوں کی طرف دلائی ہے، جو ان میں ابھی باقی رہ گئی تھیں، اور جن میں سے بعض کا اظہار اس موقع پر ہوگیا تھا۔ اس توجہ دلانے کا مقصد یہ تھاکہ مسلمان اپنی ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں… کسی بھی مرحلے پر اپنے آپ کو کامل نہ سمجھیں، بلکہ خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ اس کے بعد اس فتح میں اللہ تعالیٰ کی جو تائید اور غیبی مدد شامل تھی، اس کا ذکر فرمایا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنی شجاعت وبہادری کے دھوکے میں نہ آجائیں، جس کے نتیجے میں مزاج اور رویّے میں غرور وتکبر کا تسلط ہوجاتا ہے… بلکہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کریں اور اس کی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں۔ پھر ان بلند اغراض ومقاصد کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوفناک اور خونریز معرکے میں قدم رکھا تھا، اور اسی سلسلے میں ان اخلاقی اوصاف کی نشاندہی کی گئی ہے جو معرکوں میں فتح کا سبب بنتے ہیں۔ پھر مشرکین ومنافقین کو، اور یہود اور جنگی قیدیوں کو مخاطب کرکے انتہائی وضاحت کے ساتھ نصیحت فرمائی گئی ہے، تاکہ وہ حق کے سامنے جھک جائیں اور اس کے پابند بن جائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے معاملے میں مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس مسئلے کے تمام بنیادی قواعد واصول سمجھائے اور بتائے گئے ہیں۔ اور اب اسلام ایک طاقت اور ریاست کی صورت میں ظاہر ہوچکا تھا، اس لیے اسے جنگ و صلح کے جن قوانین کی ضرورت تھی انہیں واضح کیا گیا ہے، ان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ مسلمانوں کی جنگ اور اہلِ جاہلیت کی جنگ میں فرق قائم ہو جائے… اور اخلاق وکردار کے میدان میں مسلمانوں کو برتری حاصل رہے…اور دنیا اچھی طرح جان لے کہ اسلام صرف ایک نظریہ نہیں ہے، بلکہ وہ جن اصولوں اور ضابطوں کی دعو ت دیتا ہے ان کے مطابق اپنے ماننے والوں کی عملی تربیت بھی کرتا ہے۔اور اسلامی حکومت کے قوانین کی دفعات بیان کی گئی ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرے میں بسنے والے مسلمانوں، اور اس دائرے سے باہر رہنے والے مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان ا لحمد و للہ رب العالمین۔

حصہ