رمضان اور ہماری تیاری

642

افروز عنایت
آج جماعت کی طرف سے ’’رمضان اور ہماری تیاری‘‘ کے حوالے سے لیکچر تھا جس میں مقررہ کے علاوہ حاضرینِ محفل نے نہ صرف دلچسپی لی بلکہ اپنی اپنی آراء سے مستفید کیا۔ خصوصاً اس بات پر زور دیا گیا کہ رمضان جو ہم سب کے لیے تربیت کا مہینہ ہے اس سے کس طرح مستفید ہوسکتے ہیں، کس طرح پورے سال بلکہ آئندہ زندگی کے لیے لائحہ عمل مرتب کرسکتے ہیں، اور اس کا اثر ہماری دنیاوی زندگی اور آخرت پر کیا ہوگا۔ یعنی آخرت میں فلاح کا راستہ پانے کے لیے رمضان کا مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انعامات کا خزانہ حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
٭…٭…٭
رات کو بستر پر سوئی تو ’’رمضان آخرت کے انعامات حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے‘‘ کی بازگشت میں بہت دور ماضی میں پہنچ گئی۔
٭…٭…٭
میڈم: تعطیلاتِ گرما میں ان شاء اللہ تعالیٰ تین دن کے لیے اساتذہ کرام کے لیے ورکشاپ اور تربیت کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس دوران کسی کو چھٹی نہیں کرنی، بڑی احتیاط اور دھیان سے یہ تربیتی پروگرام اٹینڈ کیجیے گا، یقینا اس سے تمام اساتذہ کرام مستفید ہوں گے، اسی تربیت کے مطابق آپ سب اپنے اگلے سال کی تدریسی سرگرمیاں انجام دینے کے اہل ہوں گے، آپ کی سالانہ تدریسی کارکردگی کی بنا پر ہی آپ کی ترقی اور آگے بڑھنے کے روشن امکانات ہیں، لہٰذا ابھی سے مصمم ارادہ کرلیں کہ ہمیں اس تربیت سے آئندہ سال کے لیے فائدہ اٹھانا ہے۔
٭…٭…٭
تمام اساتذہ نے پوری کوشش کی کہ اس تربیتی ورکشاپ میں شرکت کریں اور تدریسی امور سے واقفیت حاصل کریں۔ تعطیلات کے بعد بچوں کی پڑھائی کے نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی اساتذہ کرام نے کوشش کی کہ وہ تربیتی کلاس سے حاصل تربیت کو بروئے کار لاکر اپنی کارکردگی میں بہتری لائیں، جس میں کافی اساتذہ کامیاب ہوئے۔ انتظامیہ ان کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لے رہی تھی۔ سال کے اختتام پر بہترین کارکردگی کے حامل اساتذہ کو نہ صرف نقد انعامات و اسناد سے نوازا گیا بلکہ سالانہ اضافی تنخواہ و بونس کا بھی اعلان کیا گیا۔ جن اساتذہ کرام کو نقد انعامات، اسناد اور ترقی سے نوازا گیا اُن کے چہروں کی شادمانی قابلِ دید تھی، خوشی اور اطمینان ان کی آنکھوں سے عیاں تھا، سب انہیں مبارک باد دے رہے تھے۔ ان کے برعکس باقی اساتذہ جو ان انعامات سے محروم رہ گئے تھے، اِدھر اُدھر اپنے اداس چہرے چھپانے کی کوشش کررہے تھے۔ اگلے دن کامیاب اساتذہ کے لیے ایک دعوت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ آج ان کامیاب اساتذہ کے چہرے کل سے بھی زیادہ روشن تھے۔
٭…٭…٭
میں ماضی کے ان خوشگوار لمحوں کو یاد کرتے ہوئے پھر حال میں آگئی۔ آج کے لیکچر کا مفہوم بھی تو یہی تھا کہ اس ماہِ مبارک جسے تربیتی مہینہ کہا گیا ہے، پورے سال کی مصروفیات و اعمال اور کارکردگی کو اس تربیت کے مطابق گزار کر ہی ہم اللہ کی عدالت میں سرخرو ہوسکتے ہیں، اللہ کے پسندیدہ بندے بن سکتے ہیں۔ اور وہاں کے جو انعامات ہوں گے اس کا تو کچھ اندازہ اور پیمانہ ہی ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اللہ نے ہمارے لییکس قدر خوبصورت یہ ورکشاپ اور تربیتی مہینہ رکھا ہے کہ نہ صرف تربیت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ انعامات کی بارش ہے۔ اللہ اس ماہِ مبارک میں ہمیں ایک نیکی کا اجر ستّر گنا دے رہا ہے، اور پکار رہا ہے کہ آئو سمیٹ لو نیکیاں، حاصل کرلو آخرت کے لیے فلاح و کامرانی، ہوجائو آخرت میں سرخرو… سبحان اللہ… اللہ کے محبوب بندے اس ماہِ مبارک میں ایسے نکھر جاتے ہیں جیسے کسوٹی پر پرکھا سونا نکھر کر خوبصورت رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ ہم بھی اللہ کے ان محبوب بندوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ مکمل پرہیزگاری اور تقویٰ اختیار کرنے کے لیے اس ماہِ مبارک سے افضل کوئی مہینہ نہیں۔ ہاں شرط یہی ہے کہ اپنے آپ کو اُس رنگ میں ڈھالنا ہوگا جو اللہ چاہتا ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: روزہ صرف بھوک و پیاس کا نام نہیں بلکہ بندے کو متقی و پرہیزگار بنانا اصل مقصد ہے۔ اپنے تمام معمولات کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنا، ہر قسم کی برائی سے اپنے آپ کو بچانا اور نیکی کے راستے پر گامزن ہونا روزے کا اصل مقصد ہے۔
روزے کی حالت میں دن بھر کی بھوک و پیاس، عبادات، نوافل کی ادائیگی، ذکرِ الٰہی، شکر گزاری اور صبر و تحمل کی وجہ سے ہمارا جسم مجاہدۂ برداشت کا عادی ہوجاتا ہے۔ جسمانی و روحانی صحت و تندرستی سے بندہ مالامال ہوجاتا ہے۔ اس ایک ماہِ مبارک کی مشقت کے بعد یقینا بندہ تقویٰ و پرہیزگاری والی زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے، اگر وہ اپنے اندر مصمم ارادہ کرلے کہ میں ایک تربیت یافتہ بندہ ہوں، اب زندگی میں دوبارہ کہیں بگاڑ نہ پیدا ہو، یقینا میں آخرت میں بڑے اجر و انعامات کا مالک بنوں گا۔ دنیاوی کامیابی کے لیے بھی تو بندہ تربیت کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے، لہٰذا یہاں بھی بندے کی یہ سوچ ہونی چاہیے کہ میں پورے ایک ماہ کی تربیت حاصل کرکے سرٹیفکیٹ لے چکا ہوں، اس سرٹیفکیٹ کے مطابق عمل کرنے سے ہی بڑے نتیجے والے دن مجھے جنت کے سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا (ان شاء اللہ)۔ اس دن جنت کا پروانہ حاصل کرنے پر ان کے چہرے شادماں اور روشن ہوں گے۔
بڑا بدنصیب ہے وہ شخص جو ماہِ رمضان کے انعامات سے فیضیاب نہ ہوسکے، نفس کا مجاہدہ حاصل کرنے سے محروم رہ جائے۔ وہ صرف بھوکا پیاسا رہے اور باقی تمام برائیوں میں ملوث رہے یعنی اپنے آپ کو بچا نہ سکے تو ایسا روزہ اس کے کسی کام کا نہیں۔ ایسی تربیت اس کے کس کام کی جس سے وہ کچھ حاصل نہ کرسکا۔ بے کار گیا تمام مہینہ اُس کے لیے۔ وہ ہاتھ مَلتا رہ جائے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک شخص نے تمام مہینہ کسی دفتر میں ملازمت کی، تنخواہ لے کر وہ بڑی بے پروائی سے گھر کی طرف چلا، اس نے اس تنخواہ کی رقم کی حفاظت نہ کی، راستے میں وہ رقم اس کی جیب سے نکل گئی تو اس کی تمام مہینہ کی محنت اکارت گئی، وہ خالی ہاتھ رہ گیا، پچھتانے لگا کہ کاش میں اس رقم کی حفاظت کرسکتا۔ یہی حال ایسے روزہ دار کا ہے جو اللہ کے احکامات اور نبیؐ کی سنت کو پس پشت ڈال کر روزہ رکھے اور ان احتیاطوں کو نظرانداز کردے جن کی وجہ سے اس ماہِ مبارک کو تقویٰ اور انعامات حاصل کرنے کا مہینہ کہا گیا ہے۔
اس لیے یہ عہد کریں کہ اس ماہِ مبارک کو اللہ کے احکامات اور سنت ِنبوی کے مطابق گزاریں گے، اور جس طرح تقویٰ یعنی ہر قدم پر پرہیزگاری کی تلقین کی گئی ہے اس راہ پر چلیں گے تو پھر یقینا یہ مہینہ ہماری صحیح تربیت کا ضامن ہوگا۔ یہی بات اپنی اولاد کی تربیت میں بھی لازماً مدنظر رکھیں، تاکہ وہ روزے کے اصل مقاصد کو پاسکیں اور اس ماہِ مبارک کو فضول، لہوو لعب اور کھیل تماشوں میں ضائع نہ کریں۔
اللہ ہم سب کو اس ماہِ مبارک کی سعادتیں حاصل کرنے کا اہل بنائے، آمین ثم آمین۔

حصہ