کلیاتِ منیف اشعر شائع ہوگئی

1014

ڈاکٹر نثار احمد نثار
سید منیف اشعر ملیح آبادی ایک سینئر شاعر ہیں جن کی تاریخ پیدائش 2 اگست 1945 ہے‘ وہ اپنے والد کے ساتھ 2 جنوری 1951 کو ملیح آباد بھارت سے ہجرت کرکے کراچی آئے اور لیاقت آباد میں رہائش پزیر ہوئے۔ شاعری ان کے خون میں شامل ہے ان کے والد سید محمد شریف اثر شاعر تھے اور بھائی حنیف افگر بھی معروف شاعر تھے۔ 1977ء سے 1992ء تک سعودی عرب میں ملازمت کی جہاں بزمِ فانوس کے تحت اردو زبان وا دب کی آبیاری کی۔ 13 اپریل 2001ء سے کینیڈا میں مقیم ہیں ان دنوں کراچی آئے ہوئے ہیں اور یہاں کی ادبی سرگرمیوں کا حصہ ہیں ان کی غزلوں کے چار مجموعے تلخ و شیریں‘ رختِ زندگی‘ رہگزار غزل اور زلفِ غزل شائع ہو چکے ہیں جنہیں کلیاتِ منیف اشعر کی شکل میں یکجا کرکے جہانِ حمد پبلی کیشن نے شائع کیا ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں اس کلیات کی تقریب اجرا منعقد ہو چکی ہے جس کا مقدمہ محسن اعظم ملیح آبادی نے لکھا ہے‘ وہ لکھتے ہیں کہ منیف اشعر کی شاعری ماضی بعید‘ ماضی قریب اور لمحۂ موجود کا دل کش آمیزہ ہے‘ ان کی شاعری میں فکر و خیال اور موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ سادہ و شفگتہ زبان میں زندگی کے منظر نمایاں ہیں‘ وہ اپنے ذاتی تجربات کو بیان کرتے ہوئے زمینی حقائق سے نگاہیں نہیں چراتے‘ وہ غزل اور نظم‘ دونوں اصنافِ سخن میں دسترس رکھتے ہیں‘ وہ خوش عقیدہ انسان ہیں اور عاشق رسول بھی۔ انہوں نے نعتیں بھی کہی ہیں‘ مناقب اور حمدیہ کلام بھی لکھا ہے۔ محسن بھوپالی مرحوم نے منیف اشعر کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں تاہم ان کی نظمیں معاشرتی اقدار اور قومی فکر کی آئینہ دار ہیں‘ وہ میرے نزدیک ذہنی اور فکری طور پر جگر مراد آبادی اسکول آف تھاٹ کے نمائندہ ہیں ان کی غزلیں داخلی کیفیات اور محسوسات کے علاوہ مشاہدات اور تاثرات کے خوب صورت امتزاج کی حامل ہیں ان کے یہاں حسن و عشق کے روّیے اور معاملاتِ دل و نظر کے روایتی مضامین زبان و بیان کی پاسداری کے ساتھ نئی جہتوں اور دل کش زاویوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم نے منیف اشعر کے فن و شخصیت کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کی شاعری تسکینِ ذوق و سیرابی فکر و نظر کا سامان ہے ان کی غزلیں اور نظمیں بہ اعتبار فن متوازی ہیں‘ ان کے یہاں شعری محاسن نظر آتے ہیں جو کہ انہیں تادیر زندہ رکھیں گے۔

جہاں جہاں سے پکارا گیا ہوں میں اشعرؔ
میں چاہتا ہوں وہاں تک مری صدا جائے
٭
لبوں پہ اپنے تبسم سجائے رکھتے ہیں
جو عشق کرتے ہیں‘ آہ و فغاں نہیں کرتے

منیف اشعر کے اشعار میں معاشرتی کرب و اضطراب کروٹیں لے رہا ہے اور مستقبل کے حالات بھی نظر آرہے ہیں‘ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے امید ہے کہ یہ بہت ترقی کریں گے۔ مشفق خواجہ نے منیف اشعر کے لیے لکھا کہ جبرِ معیشت نے برصغیر پاک و ہند سے باہر اردو کی جو نئی بستیاں آبادی کی ہیں وہ ایک عجیب و غریب صورتِ حال کی آئینہ دار ہیں‘ ان نئی بستیوں کے باشندے ایک طرف اپنی پرانی اقدار سے وابستہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں اوردوسری طرف اجنبی دنیا کی تہذیب اپنے اندر سمونا چاہتے ہیں۔ نئی بستیوں میں لکھے جانے والے اردو ادب کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے ان نئی بستیوں کا ایک شاعر منیف اشعر شاعری میں نئے حالات سے نبرد آزما ہے وہ داخلی کشمکش کی آئینہ داری کرتا ہے‘ وہ کہتا ہے کہ:

خیال تھا کہ یہ مغرب تو مثلِ جنت ہے
اسی بہانے جہنم بھی دیکھ لی ہم نے

منیف اشعر نے جدید بننے کے شوق میں اپنی روایات سے بے تعلقی اختیار نہیں کی ان کے نزدیک شاعرانہ ہنر مندی‘ شعری روایات کا دوسرا نام ہے اور انہوں نے اس روایت کی پاسداری کرتے ہوئے خوب نام کمایا۔ ڈاکٹر فہیم اعظمی نے لکھا کہ منیف اشعر نے سہل ممتنع میں کمال کے اشعار کہے ہیں لیکن انہوں نے اپنی غزلوں اور نظموں کے لیے مروجہ بحریں بھی استعمال کی ہیں انہوں نے غزل میں جدید حسیت‘ تجربات و مشاہدات کے باوجود روایتی شاعری سے انحراف نہیں کیا ان کے یہاں غزل کے روایتی مضامین موجود ہیں اور ترقی پسند نظریات بھی نمایاں ہیں۔ راغب مراد آبادی نے لکھا کہ منیف اشعر زبان و بیان کے نزاکتوں سے واقف ہیں‘ وہ اسالیبِ سخن اور تقاضائے فن کو بھی نظر انداز نہیں کرتے‘ غمِ دوراں کے ساتھ ساتھ غمِ جاناں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔

نفرتیں احباب کی یوں دوستی کے ساتھ ہیں
جیسے نادیدہ اندھیرے روشنی کے ساتھ ہیں

پروفیسر سحر انصاری کہتے ہیں کہ منیف اشعر کی شاعری میں تازگی اور توانائی ہے مجھے منیف اشعر کی شاعری میں تازگی اور توانائی ہے‘ مجھے منیف اشعر کی نظموں نے زیادہ متاثر کیا ہے اگر یہ اس طرف مزید توجہ دیں تو یہ اردو کے قابلِ ذکر نظم نگاروں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ منیف اشعر ایک مدت سے شعر کہہ رہے ہیں‘ ان کے یہاں لفظوں کا دروبست موجود ہے‘ انہوں نے زندگی کے گرم و سرد کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے جس کا اظہار وہ اپنے اشعار میں کرتے ہیں ان کے اشعار میں زبان و شاعری کا رچائو موجود ہے یہ نامساعد حالات کے باوجود بھی اردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے منیف اشعر کے لیے لکھا ہے منیف اشعر‘ شائستہ‘ حلیم اور دل پزیر شخصیت کے حامل شخصیت ہیں ایسے اچھے لوگ کم کم میسر آتے ہیں انہوں نے سخت آزمائشوں کے باوجود اپنے آپ کو بکھرنے سے بچائے رکھا ہے اور پوری دل جمعی کے ساتھ شعر کہہ رہے ہیں میں ان کی شاعری سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ پروفیسر جاذب قریشی نے لکھا ہے کہ منیف اشعر کی شاعری زنددگی کے اجلے اور سیاہ‘ مثبت و منفی تجربوں کی عکاس ہے انہوںنے پاکستان کے سماجی‘ سیاسی‘ عمرانی اور تہذیبی روّیوں پر قلم اٹھایا ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ:

تعصب کی فضا میں جن کو پلتے دیکھتے ہیں
ہم ان بچوں کے مستقبل کو جلتے دیکھتے ہیں
تم اپنے شہر میں لوگوں کے چہرے پڑھ نہ پائے
ہم اپنے جنگلوں کے جانور پہچانتے ہیں

منیف اشعر عہدِ منافقاں میں شکایتوں اور عداوتوں سے خود کو بچانے کا ہنر جانتے ہیں‘ وہ جھوٹے معاشرے میں سچ بول رہے ہیں‘ اس کا انجام کیا ہوگا؟ وہ اس سے باخبر ہیں‘ وہ محبتوںکے سفیر ہیں‘ انہیں اپنے چاہنے والوں کا خیال رہتا ہے‘ وہ ان کے ساتھ آباد رہنا چاہتے ہیں لیکن وقت کی تیز رفتاری نے بہت سی انسانی قدریں بدل دی ہیں‘ محبت کی قیمت دی جانے لگی ہے اور لوگ آئینوں کی طرح چمکنے والے اداکاروں کا لباس پہن کر سامنے آرہے ہیں۔ منیف اشعر معاشرے کی ان تبدیل شدہ اقدار کو دیکھ رہے ہیں اور شاعری میں ان مسائل کا حل لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی لکھتے ہیں کہ منیف اشعر جہاں دیدہ شاعر ہیں انہوں نے معاشرے میں رہ کر بہت کچھ سیکھا ہے جو کہ انہوں نے اپنے اشعار میں لکھ دیا ہے یہ ردیف اور قافیے نبھانا جانتے ہیں‘ ان کے کلام میں گہرائی و گیرائی بہ درجہ اتم موجود ہے‘ انہوں نے غزل کی روایات اور تقاضوں کو پوری طرح نبھایا ہے۔ راقم الحروف نے بھی کلیاتِ منیف اشعر کا مطالعہ کیا ہے۔ مجھے بھی ان کی شاعری نے متاثر کیا ہے امید ہے کہ یہ مزید عزت و شہرت پائیں گے۔

ناطق بدایونی مرحوم کی یاد میں مشاعرہ

بزمِ ناطق بدایونی کراچی کے ادبی اداروں کا حصہ ہے جس کے روح رواں فیروز ناطق خسرو ہیں جو کہ ہر ماہ تواتر کے ساتھ شعری محفل سجاتے ہیں اسی تناظر میں انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے دولت خانے پر مشاعرے کا اہتمام کیا یہ مشاعرہ انہوںنے اپنے والد محترم حضرت ناطق بدایونی مرحوم کی یاد میں ترتیب دیا تھا۔ مشاعرے کی صدارت رشید اثر نے کی۔ امریکا سے تشریف لائے ہوئے معروف شاعر و ادیب اختر علیم سید مہمان خصوصی تھے۔ مہمانِ اعزازی سید آصف رضا رضوی اور ناظم مشاعرہ اختر سعیدی تھے۔ علشبہ محسن نے تلاوتِ کلام پاک کی سعادت حاصل کی جو کہ فیروز ناطق خسرو کی پوتی ہیں۔ خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کے خدمت گزار ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اردو ادب کی ترویج و ترقی میں ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ مشاعرے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جو لوگ اپنے حرف و بیاں سے اردو کی اشاعت میں نمایاں ہیں ان میں ایک اہم نام اختر سعیدی کا بھی ہے جو کہ آج کے مشاعرے کے ناظم ہیں۔ یہ درویش صفت انسان اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ان کی ادبی خدمات‘ ہم سب پر روشن ہیں جنگ اخبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے کالم فیس بک کی زینت ہیں جن سے ہماری معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ اس موقع پر تمام مسند نشینوں کو گل دستے پیش کیے گئے جب کہ شرکائے محفل کو فیروز ناطق خسرو نے اپنی کتابیں پیش کیں۔ آج کا مشاعرہ ناطق بدایونی مرحوم کی یاد میں منعقد ہوا تھا اس لیے شرکائے محفل کو ایک آڈیو ریکارڈنگ پیش کی گئی جس میں ناطق بدایونی اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔ ان کی شاعری کو بے حد پسند کیا گیا۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ناطق بدایونی مرحوم 1910ء میں بدایوں میں پیدا ہوئے اور 92 سال کی عمر میں وفات پائی انہوں نے بھرپور زندگی گزاری اور اپنی اولادوں کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے ایک صاب زادے فیروز ناطق خسرو نے ان کی غزلوں کا مجموعہ شائع کیا جو کہ قابل ستائش اقدام ہے۔ یہ کتاب جنوری 2010ء میں منظر عام پر آئی جب کہ ناطق بدایونی کا انتقال 2003 میں ہوا تھا۔ ناطق بدایونی کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کے یہاں غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ غم دوراں بھی نظر آتا ہے‘ ان کی شاعری ہمارے معاشرے کا منظر پیش کرتی ہے کہ جہاں بے شمار برائیاں موجود ہیں انہوں نے زمانے کے تغیرات اور انقلابات کو شعری منظر نامے میں ڈھالا ہے۔ انہیں رثائی ادب میں بھی دسترس حاصل تھی وہ سچے عاشق رسول تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی نعتوں میں کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا ان میں فیروز ناطق خسرو‘ نرجس حسین‘ شازیہ طارق‘ شائستہ سحر‘ شائق شہاب‘ انورانصاری‘ واحد رازی‘ عاشق شوکی‘ کاشف علی ہاشمی‘ اسد قریشی‘ احمد سعید خان‘ وقار زیدی‘ سخاوت علی نادر‘ یاسمین یاس‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ نور شمع نور‘ محمد علی گوہر‘ راشد حسین راشد‘ سحر تاب رومانی اور دیگر شامل تھے۔

جمیل جالبی کی علمی و ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں‘ راشد نور

جالبی صاحب کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انہوں نے 12 سال کی عمر میں تحریر کی تھی‘ یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج پر پیش کی گئی تھی ان کی بے شمار تحریریں دہلی (بھارت) کے رسائل ’’بنات‘‘ اور ’’عصمت‘‘ میں شائع ہوتی رہیں ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب ’’جانورستان‘‘ تھی جو کہ جارج آر ول کے ناول کا ترجمہ تھی۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و صحافی راشد نور نے اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے مذاکرے اور مشاعرے کے موقع پر اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمیل جالبی کی ایک اہم کتاب پاکستانی کلچر قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے اس کتاب کے آٹھ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اس کے علاوہ ان کی ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادبارد ہے جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ‘ نئی تنقید‘ ادب کلچر اور مسائل‘ میر تقی میر‘ معاصر ادب‘ قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل‘ قلندر بخش جرأت‘ تہذیب کا نمائندہ شاعر‘ مثنوی کدم رائو پدم رائو‘ دیوان حسن شوقی‘ دیوانِ نصرتی وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ قدیم اردو لغت فرہنگ‘ اصلاحات اور جامعہ عثمانیہ بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں اس کے علاوہ انہوں نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ بچوں کے لیے بھی ان کی تحریریں موجود ہیں۔ اختر سعیدی نے کہا کہ جمیل جالبی 12 جون 1929ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے اور 18 اپریل 2019ء کو دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ وہ بیک وقت محقق‘ نقاد‘ انشاء پرداز‘ مترجم‘ مورخ اور ماہر تعلیم تھے۔ علم و ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس پر جمیل جالبی نے اپنی بصیرت و بصارت کے نقش نہیں چھوڑے۔ افسوس کہ ہم ایک اہم انسان سے محروم ہوگئے۔ وہ اپنے عہد کے نظریہ ساز نقاد اور دانشور تھے‘ انہیں ادب کے علاوہ سماجی اور مذہبی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی‘ انہیں دائود ادبی انعام 4 بار پیش کیا گیا‘ 1985ء میں وہ طفیل ادبی انعام کے حق دار ٹھہرے‘ 1976 میں ہلال امتیاز‘ 1990ء میں ستارہ امتیاز اور 2015ء میں کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اس لیے وہ تقسیم ہند کے بعد بھی ہندوپاک کے علمی و ادبی رشتوں کو مستحکم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ کبھی بھی تعصب کا شکار نہیں ہوئے‘ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں امن و سکون رہے اور پاکستان ترقی کرے۔ انور انصاری نے کہا کہ جمیل جالبی کی لاتعداد جہتیں ہیں جنہیں محدود اوراق میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے 95 سال کی عمر پائی اور 94 کتابیں لکھیں جن سے عوام فیض پارہے ہیں۔ انہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا‘ جو قومیں اپنے محسنوں کو یاد کرتی ہیں وہ ترقی پاتی ہیں۔ اکادمی ادبیات کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ جمیل جالبی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ وہ ادارے کی حیثیت رکھتے تھے‘ وہ افکار و نظریات کا بحر بے کراں تھے‘ ان کی فکر و نظر کا دائرہ کافی وسیع تھا‘ وہ تمام دنیا کو پیغامِ امن و محبت دے رہے تھے۔ اس موقع پر قادر بخش سومرو نے تمام شعرائے محفل کا شکریہ بھی ادا کیا۔ مذاکرے کے بعد مشاعرہ ہوا جس میں راشد نور‘ اختر سعیدی‘ انورانصاری‘ عاشق شوکی‘ اصغر خان‘ عرفان علی عابدی‘ ڈاکٹر رحیم ہمزاد‘ ہدایت سائر‘ نشاط غوری‘ شجاع الزماں خاں‘ محمد رفیق مغل‘ قمر جہاں قمر‘ تاج علی رانا‘ فرح کلثوم‘ طاہرہ سلیم سوز‘ نازیہ غوث اور حمیدہ کشش نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ