حمیرا خالد
جدید تعلیمی اداروں کا معیارِ زندگی بچوں کو نفسِ مطمئنہ سے دور کررہا ہے۔ تجارتی کمپنیوں نے اپنے خریدار اسکول انتظامیہ کی صورت میں بنا رکھے ہیں، اور اسکول بیگ، اسٹیشنری، لنچ باکس اور دیگر لوازمات کے ذریعے خوب رقم لوٹی جارہی ہے۔ والدین اس خیال سے کہ ان کا بچہ کسی احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہو، اپنی حیثیت سے بڑھ کر اسکول کا اضافی بوجھ برداشت کیے جارہے ہیں، اور حال یہ ہے کہ دنیا کی ہر نعمت پاکر بھی بچہ مطمئن نہیں ہے، اُسے اپنا گھر حقیر ہی لگتا ہے۔
مغربی ممالک جو سرمایہ دارانہ نظام کے قائل ہیں، ان کا نظامِ تعلیم ان کے عقائد کے مطابق بچوں کی تعلیم و تربیت کرتا ہے۔ یہ خدا اور آخرت کو ماننے والے نہیں، ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض لذتوں کا حصول اور معیارِ زندگی میں ترقی اور اضافہ ہے۔
عالم اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت کا مقابلہ کرنے کے بجائے مغلوب اور مرعوب ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بھی حصولِ دولت کے لیے علم حاصل کرنا مقصد بنا لیا ہے، اس استدلال کے ساتھ کہ اگر علم سے اعتماد، عزت، دولت اور شہرت ملتی ہے تو آخر اس کے حصول میں حرج ہی کیا ہے!
اگر دولت کمانا ہی زندگی کا مقصد ہو تو دنیا میں پیسہ کمانے کے لیے علم ہی نہیں، کسی بھی فن کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً فٹ بال، کرکٹ، اسکواش کھیلنے والے ناخواندہ کھلاڑی ارب پتی بن جاتے ہیں، فلم اور ٹی وی میں کام کرنے والے اینکر پرسن، مسخرے، اداکار کھربوں روپے کماتے ہیں۔ پھر حجام، درزی، فیشن ڈیزائنر، فوٹو گرافر، ماڈل، مصور اعلیٰ تعلیم کے بغیر اتنا مال بناتے ہیں کہ انسان تصور نہیں کرسکتا۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ علم سے دولت ہے، ہماری ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔
مغربی ممالک میں بھی ڈرائیور ڈاکٹر سے زیادہ پیسے کما لیتا ہے۔ برطانیہ میں تندور میں روٹی لگانے والے کی تنخواہ ڈاکٹر سے زیادہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جدید اسکولوں میں وہ سانچے بنائے جاتے ہیں جو استعمار کی غلامی آسانی سے قبول کرلیتے ہوں۔ ان اسکولوں سے نکلنے والی نسل کے لیے دین کے سوا زندگی کے تمام شعبوں میں عقل کا استعمال ممنوع بلکہ حرام ہوجاتا ہے۔ عقل صرف دین پر تنقید اور دین کی جدید تعبیر کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔ جہاں عقل استعمال کرنی چاہیے وہاں دین کو لے آتے ہیں، اور جہاں دین اور وحی پر اعتماد کرنا چاہیے وہاں عقل لے آتے ہیں۔ لہٰذا جدید تعلیمی نظام سے جو نسل پروان چڑھتی ہے وہ مذہب اور اسلام پر ہونے والے کسی اعتراض کا جواب دینے کے قابل نہیں ہوتی، اور وہ اپنی تاریخ اور تہذیب سے ناآشنا ہے۔
آزادی مغرب کا بنیادی ایمان و عقیدہ ہے۔ یہاں علم کا معیار یہ ہے کہ کون اپنے کام سے سب سے زیادہ سرمایہ پیدا کرسکتا ہے، کیوں کہ آزادی صرف سرمائے سے حاصل ہوتی ہے، اس لیے مغرب میں کام کی تعریف یہ ہے کہ جس سے سرمایہ حاصل ہو۔ جو شخص کام نہیں کرتا، سرمایہ نہیں کماتا وہ اپنی آزادی کا انکار کرتا ہے۔ اسی لیے گھر میں بچوں کو پالنے والی عورت کے کام کو مغرب کام تسلیم نہیں کرتا کہ اس سے سرمایہ پیدا نہیں ہوتا۔ یہ عورت باہر جائے، کمائے تو اسے ’’ورکنگ وومن‘‘ کہتے ہیں۔
عزت کا پیمانہ مغرب اور دنیائے جدید میں صرف مادی ہے، اور اور جو زیادہ پیسہ کماتا ہے وہ زیادہ عزت پاتا ہے۔ امریکا میں ایک اعلیٰ ترین طوائف تین ہزار ڈالر فی گھنٹہ کماتی ہے۔ اس پیشے کو آج کل آرٹ کہا جاتا ہے۔
معاشرے میں گناہ اور گناہ گار کو پسند کیا جارہا ہے، اسے برداشت (Tolerance) کہتے ہیں۔ آپ نیک کام کریں، دوسرے کو برے کام کرنے دیں کہ دونوں کا حق ہے۔ آپ اپنی ذاتی زندگی میں جس خیر کو اختیار کرنا چاہیں کریں، مگر دوسرے کو مجبور نہ کریں۔ دوسرے معنوں میں خیر کی بحث ہی بے معنی ہے۔ اُن کے نزدیک خیر کچھ نہیں ہوتا، اصل چیز پیسہ ہے۔ جدید نظامِ تعلیم اور تعلیمی اداروں کا مقصد یہی تعلیم دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے غیر اخلاقی پیشوں کو بے تابانہ اختیار کرنا چاہتی ہے۔
جدیدیت کا عقیدہ ہے کہ آزادی کے عقیدے پر ایمان لائو۔ اس بارے میں کسی اعتراض یا سوال کی گنجائش نہیں۔ یہ دلیل کا نہیں ایمان کا معاملہ ہے۔ جو آزادی کے عقیدے کا انکار کرے گا اسے قتل کردیا جائے گا۔ اسی آزادی کے لیے امریکیوں نے دس کروڑ ریڈ انڈین کو قتل کیا۔ ان کے مطابق جب جمہوریت کے تمام مخالفین کو قتل کردیا گیا تو دنیا پُرامن ہوگئی۔ لہٰذا اب دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ جمہوریت ہی پُرامن تبدیلی کا راستہ ہے۔ جدید تعلیمی اداروں میں جمہوریت کی خونیں تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ عالم اسلام میں جمہوریت کو اسلام سے برآمد کرلیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ پہلے جمہوری وزیراعظم ثابت کیے جاتے ہیں۔ آزادی اور جمہوریت کے یہ دعوے دار اپنے نظام تعلیم اور اداروں سے کم عمری میں ہی آزادی سلب کررہے ہوتے ہیں۔ ایک ماہ کی عمر میں ڈے کیئر سینٹر اور ڈیڑھ سال کی عمر میں اسکول کے سپرد کرکے اصلاً ہم بچے کی آزادی سلب کررہے ہوتے ہیں لیکن اپنی آزادی میں اضافہ کررہے ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں ڈے کیئر سینٹر کھلتے ہیں اسی معاشرے میں اولڈ ہومز بھی کھولنے پڑتے ہیں۔ جب ماں باپ کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیںہے، انہیں سرمایہ اور آزادی چاہیے، تو بچے کے پاس بھی آپ کے بڑھاپے میں خدمت کے لیے وقت نہیں ہے، اُسے بھی سرمایہ اور آزادی چاہیے۔ ہماری اسلامی تاریخ اور دنیا کی 23 بڑی تہذیبوں میں کیا یہ ادارے موجود تھے؟
اللہ کی عبادت بچے پر سات سال کی عمر میں فرض ہوتی ہے۔ مادہ پرستی، ترقی، مال و دولت کی عبادت ایک سال کی عمر سے پہلے فرض ہوجاتی ہے۔ اسی کا نام آزادی ہے۔ اللہ کے گھر عبادت کے لیے آنے والوں کے لیے لباس کی کوئی خاص شکل اور رنگ مخصوص نہیں ہے، مگر اسکول میں خاص لباس کے بغیر داخلہ ممنوع ہے۔ اسے آزادی کہتے ہیں! سیکولرازم کا جبر نظر نہیں آتا، اسلام کا جبر ناجائز اور غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
آج کے اسکول آزادی اور سرمائے کا جبر ہے، یہ جبر عین حق ہے۔ تعلیم عام کرنے کے لیے مغربی ممالک اربوں کھربوں روپے کیوں خرچ کررہے ہیں؟ عورت کو مرد کے برابر لانے کا فائدہ کس کو ہے اور کیسے؟ UNO تعلیم عام کرنے کے لیے میرج فری زون تو بنارہا ہے لیکن ریپ فری زون کیوں نہیں بنارہا!
جدید سیکولر تعلیمی نظام بہت اچھا سہی مگر اس نظام سے نکلنے والوں کی منزل جنت نہیں۔ امراء القیس کی شاعری کے بارے میں رسالت مآبؐ نے فرمایا تھا کہ وہ شاعر تو بہت اچھا ہے مگر قیامت کے دن جہنمیوں کا سردار ہوگا۔ گویا آپؐ کا فرمان یہ بتاتا ہے کہ آرٹ خواہ کس قدر قابلِ قدر کیوں نہ ہو اگر اخلاقی اقدار سے آزاد ہے تو اس کی اقدار تہذیب کے لیے تباہ کن ہوں گی، کیوں کہ اخلاقیات سے آزاد ہونے کے بعد صالح زندگی تو درکنار انسانی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
آزادی، مساوات اور ترقی کے عقیدے کے نتیجے میں اخلاقیات اور انسان کے باطن کی اصلاح سیکولر جمہوری ریاست کے اہداف میں شامل نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی نسلوں کا اخلاقی طور پر جو حال ہے وہ وہائٹ ہائوس سے سابق صدر اوباما کی ہدایت پر جاری ہونے والی رپورٹ میں ہے۔ یہ رپورٹ وہائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جدید سیکولر تعلیمی نظام میں فرد کے باطن کی اصلاح اور تعمیر شخصیت کا کوئی نظام ہی نہیںہے۔ مذہب کو بے دخل کر دیا گیا ہے اور سوشل سائنس کے ذریعے فرد کی اصلاح کی جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 22 ملین امریکی عورتوں اور 2 ملین لڑکوں سے جبری زنا کیا جاتا ہے۔ رضامندی سے ہونے والے کروڑوں زنا اس فہرست میں شامل نہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میںجبری زنا کی وارداتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ جبری زنا کرنے والے تمام مرد لڑکیوں کے جگری دوست اور قریبی رشتے دار ہوتے ہیں۔ ان اداروں میں صرف عورت ہی نہیں مرد بھی محفوظ نہیں۔ امریکی فوج میں عورتیں اور مرد بڑے پیمانے پر جنسی درندگی کا شکار ہیں۔
یورپین ایجنسی فار فنڈا منٹل رائٹس کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں ایک کروڑ بیس لاکھ عورتوں کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ تشدد صرف جوان لڑکیوں پر نہیں 75 سال کی بوڑھی عورتوں پر بھی ہوا۔ واضح رہے کہ امریکا اور یورپ میں پولیس صرف تین منٹ میں موقع واردات پر پہنچتی ہے، تب زنا کاری کا یہ حال ہے۔ یہ ہے ترقی اپنی عزت اور حرمت کی قیمت پر۔
آزادی کے علَم بردار، اعلیٰ تعلیم یافتہ، سائنسی اور معاشی ترقی کرنے والے امریکا میں روزانہ 85 لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ یہ اعداد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (NIMH) کے ہیں اور نصابی کتاب میں شامل ہیں۔
15 سے 24 سال کے امریکیوں میں موت کا تیسرا بڑا سبب خودکشی ہے۔ کالج میں پڑھنے والی طالبات میں خودکشی کی شرح میں تین سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دینی، روایتی، اَن پڑھ، جاہل معاشروں میں کبھی عورت نے خودکشی نہیںکی تو کیوں؟آزاد، تعلیم یافتہ، خوش حال عورت خودکشی کیوں کررہی ہے؟
44 فیصد بوڑھے لوگوں کی خودکشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے خاندان سے دور اولڈ ہوم میں تنہا زندگی پسند نہیں کرتے، اور تنہائی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بیماریاں، سب سے زیادہ جرائم، سب سے زیادہ زنا کاری، سب سے زیادہ بے سکونی، خودکشیاں اور گھروں سے محروم بوڑھے اور بچے انہی تربیت یافتہ ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔
جدید تعلیم کے ہولناک نتائج کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ہمارے لیے لمحۂ فکر ہیں۔ اس نظام کو بدلنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔