مہ جبیں تاج ارزانی
احسن،علینہ اور فضہ بہن بھائی تھے۔فضہ چھوٹی تھی ،لیکن ہمیشہ سچ بولتی تھی۔فضہ کے سچ بولنے پر احسن اور علینہ والدین اور داداابو سے ڈانٹ سنتے۔ایک دن دونوں نے فضہ سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا۔
جمعہ کا دن مقررکیا ،کیوں کہ اس دن امی جمعہ بازار اور دادا ابو درس سننے کے لیے جاتے تھے۔
جمعہ کو امی اور دادا ابو کے جانے کے بعد اسکول کا ہوم ورک کرنے کے لیے فضہ نے اپنا بستہ تلاش کرنا شروع کیا۔احسن اور علینہ کے بستے اپنی جگہ پر موجود تھے صرف اس کا غائب تھا۔وہ بے حد حیران ہوئی۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ہر جگہ بستہ تلاش کرنے کے بعد وہ علینہ کے پاس آئی۔احسن وہاں موجود نہیں تھا۔
’’آپ لوگوں نے میرا بستہ چھپا یا ہے نا؟‘‘اسے شک تھا کہ دونوں نے مل کر یہ کام کیا ہے،تاکہ اس کا ہوم ورک پورانہ ہواور اسے ڈانٹ پڑے۔
علینہ نے فوراً کہا:’’احسن نے تمھارا بستہ چھت والے اسٹور میں چھپا دیا ہے۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘فضہ کہہ کر چھت کی طرف بڑھی۔
علینہ اس کے پیچھے تھے۔فضہ نے چھت کے اسٹور کا دروازہ کھولا۔دھڑام سے گردوغبار میں بھری کپڑوں کی گٹھڑی اس کے سر پر گری۔
اس اسٹور میں گھر کا بہت پرانا اور فالتو سامان بھرا تھا۔
احسن نے ایک مرتبہ فضہ سے کہا تھا کہ اسٹور میں کوئی بھوت رہتا ہے۔فضہ نے کبھی احسن کی بات پر یقین نہیں کیا تھا۔اسی لیے بے دھڑک دروازہ کھول دیا۔سر پر سے گردجھاڑ کر اس نے بتی جلانے کے لیے دیوار پر ہاتھ مارنے شروع کیے۔
اسے یاد نہیں رہا کہ سوئچ بورڈکدھر ہے۔اچانک اسٹور کے کونے میں روشنی ہوئی۔گول سی روشنی تھی جو کسی حصے کو روشن کرنے کے لیے گولائی میں ڈالی جاتی ہے۔اس کے منہ سے بے ساختہ لمبی سی چیخ نکلی:’’امی…!‘‘ دو قدم پیچھے ہٹ کر اس نے دروازہ کھولنا چاہا،مگر وہ بند تھا۔
دروازے کو دونوں ہاتھوں سے پیٹتے ہوئے اس نے بہن بھائی کو آواز دی :’’علینہ باجی،احسن…دروازہ کھولو…بھوت…بھوت۔‘‘
ادھر وہ عجیب الخلقت مخلوق اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔اس کا چہرہ بالکل سفید تھا۔آنکھوں کے اردگرد گول ساحصہ سرخ ہورہا تھا اور ہونٹ کالے تھے۔بھوت اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ چیخ چیخ کر اس کا گلا بند ہونے لگا۔پوری قوت سے دروازہ بجاتے بجاتے اس کے ہاتھ دْکھنے لگے۔اسے لگا رہا تھا جیسے وہ اب کبھی نہیں نکل پائے گی۔
بھوت آہستہ آہستہ اس کے قریب آرہا تھا۔فضہ سے اس کی سمت دیکھا نہیں جارہا تھا۔بھوت اس کے بالکل قریب آچکا تھا۔اس نے سیاہ لباس کے اندر سے ہاتھ نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔فضہ کی برداشت کی حد ختم ہو گئی۔وہ تیور اکرگری اور بے ہوش ہوگئی۔ادھر بھوت جو اپنی ہنسی برداشت کررہا تھا اس کا ہنستے ہنستے بْراحال ہو گیا۔اس نے سوئچ پر ہاتھ مارکربلب جلادیا۔
’’فضہ…‘‘بھوت کے منہ سے چیخ برآمد ہوئی۔
’’علینہ،علینہ!دروازہ کھولو۔‘‘بھوت نے دروازہ دھڑ دھڑایا،جو فوراً کھل گیا۔
’’کیسا رہا؟‘‘اس نے شوق سے پوچھتے ہوئے اندر جھا نکا۔اب بھوت بنے احسن کی طرح اس کے ہوش بھی اْڑگئے۔بے ہوش پڑی فضہ کے سر اور دائیں ہتھیلی سے خون نکل رہا تھا۔’’فضہ،فضہ!‘‘احسن کی طرح اس نے بھی فضہ کا گال تھپتھپا یا ،مگر وہ ہوش میں نہیں آئی۔
جس وقت بھوت بنے احسن نے اس کی سمت ہاتھ بڑھایا ،اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بے ہوش ہو کر گرپڑی تھی۔جس جگہ وہ گری تھی وہ نوکدار لکڑیوں کا گٹھا پڑا تھا۔ایک نوکدار لکڑی سے ا س کے سر پر خراش آئی تھی۔تین چارلکڑیوں نے اس کی ہتھیلی کو چھیل دیا تھا۔
وہ خون میں بھری اسٹور کی چھت پر بے ہوش پڑی تھی۔
’’یہ کیا ہورہا ہے ؟‘‘دادا ابو کی آواز سن کر فضہ پر جھکے احسن اور علینہ جھٹکے سے سیدھے ہوئے۔
کسی وجہ سے دادا ابو کی واپسی جلدی ہوگئی تھی۔نیچے کے پورشن میں بچوں کو نہ پاکر وہ اوپر چلے آئے۔
پہلے ان کی نظر روتے ہوئے احسن پر پڑی۔اس کا عجیب وغریب حلیہ دیکھ کر وہ کچھ کہنے ہی والے تھے کہ
ان کی نظر فضہ پر پڑی۔
’’اسے کیا ہوا؟فضہ،فضہ!‘‘انھوں نے اسے سیدھا کیا۔چہرہ خون سے بھرا ہوا تھا۔
دادا ابو نے کہا:’’علینہ!بھاگ کر جاؤ،میرافرسٹ ایڈبکس لے کر آؤ۔
احسن!تم اسے اْٹھا کر نیچے لے چلنے میں میری مدد کرو۔‘‘
نیچے آنے کے بعد دادا ابو نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔وہ کسمسا کر جاگی اور دادا ابو سے لپٹ کر روروکربتانے لگی:’’مجھے بھوت نظر آیا دادا ابو!بہت خطر ناک۔‘‘
’’یہ تو نہیں تھا وہ بھوت!‘‘انھوں نے روتے ہوئے احسن کی طرف غصے سے اشارہ کیا۔جس کے آنسوؤں سے آنکھوں کے گرد لگائی گئی لپ اسٹک اور چہرے پر تھوپا گیا پاؤڈر کہیں کہیں سے مٹ چکا تھا۔ہونٹ پر لگایا گیا کاجل بھی کہیں کہیں سے ہٹ گیا تھا،شاید اس نے آنسو پوچھتے ہوئے ہونٹوں پر بھی ہاتھ ملا تھا۔
اب وہ بھوت کم اور جوکر زیادہ لگ رہا تھا۔فضہ خون سے بھرے سر کے ساتھ ہنس پڑی۔علینہ دواؤں کا بکس لے کر آگئی۔دادا ابو نے روئی سے چہرے کا خون صاف کرکے زخموں کا معائنہ کیا اور مرہم پٹی کردی۔چوٹ معمولی ہے۔وہ دو چار دن میں ٹھیک ہو جائے گی۔ داداابو نے احسن اور علینہ کی طرف دیکھتے ہوئے طنز یہ کہا:’’اب تم دونوں پھر جھوٹ بولوگے کہ فضہ کے ساتھ مذاق کررہے تھے۔وہ خود ہی زیادہ ڈرگئی۔مجھے معلوم ہے تم دونوں سچائی کی خوبیوں سے ناواقف ہو،تمھیں فضہ کے سچ بولنے سے پریشانی ہوتی ہے ،اس لیے تم لوگوں نے اس سے بدلہ لینے کے لیے ایسا کیا تھا۔‘‘
دونوں کے سرجھکے ہوئے تھے۔دونوں کے سرجھکے ہوئے تھے۔