زاہد عباس
اقبال بھائی کا مزاج بھی خوب ہے، وہ ہر بات سنانے سے پہلے نہ صرف لمبی تمہید باندھتے ہیں بلکہ دوسرے کو اپنی پوری بات الف سے لے کر ’ے‘ تک سنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ بات نہ سننے والے سے ناراض ہوجانا اُن کی طبیعت میں شامل ہے۔ بزرگ ہونے کی وجہ سے لوگ مجبوراً اُن کی جانب سے کی جانے والی باتیں سننے، یا یوں کہیے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی لیے مجھے بھی اُن کی ہر بات بڑے تحمل سے سننی پڑتی ہے۔ پچھلے دنوں ایسے ہی امتحان کی زد میں اُس وقت آگیا جب رقم کے حصول کے لیے مجھے اپنے گھر کے قریب قائم اے ٹی ایم پر جانا پڑا۔ اے ٹی ایم کا لنک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے جہاں پہلے سے لوگوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی، اسے برائی کہیں یا میری قسمت کہ وہاں سے گزرتے ہوئے اقبال بھائی کی مجھ پر نظر پڑ گئی۔ بس پھر کیا تھا، پلک جھپکنے سے پہلے ہی وہ میرے قریب آن پہنچے، اور یوں گویا ہوئے ’’یہاں کیا کررہے ہو، کیوں دھوپ میں کھڑے ہو! میاں شدید گرمی ہے، جاؤ گھر جاکر آرام کرو‘‘ جیسے سوالات داغتے اقبال بھائی کو اب بھلا کون روک سکتا تھا! اس سے پہلے کہ میں انہیں یہاں اپنی موجودگی کے بارے میں کچھ بتاتا، اگلی ہی سانس میں کہنے لگے: ’’لگتا ہے تم یہاں رقم نکلوانے کے لیے کھڑے ہو، اسی لیے تو کہہ رہا ہوں جاؤ میاں گھر جاکر آرام کرو، یہ اے ٹی ایم برائے نام ہوا کرتی ہیں، ان سے پیسے نکلوانا جی کا جنجال ہے، یہ سب فراڈ ہے فراڈ۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں اقبال بھائی ایسا نہیں، نیٹ ورک کا مسئلہ ہے ابھی ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
لیکن وہ کہاں ماننے والے تھے، اپنی عادت کے مطابق بولے: ’’مجھے سمجھا رہے ہو! میں تم سے پہلے دنیا میں آیا ہوں، اس لیے تم سے زیادہ تجربہ رکھتا ہوں، میں نے تو اُس وقت ایک بینک ملازم کو کھری کھری سنائی تھیں جب مجھے بھی اے ٹی ایم بنوانے کے لیے راگ پارٹ دے کر تمہاری طرح ان مشینوں کے باہر کھڑا کردیا گیا تھا، اے ٹی ایم سروس استعمال کرنے کے لیے یہ لوگ بہت لالچ دیتے ہیں، مجھ سے کہا گیا تھا کہ آپ رقم نکلوانے کے لیے بینک نہ آیا کریں، بینک کی جانب سے آپ کو ایک کارڈ بناکر دیا جائے گا جس سے آپ کو اجازت ہوگی کہ آپ خودکار ٹیلر مشین یا اے ٹی ایم کے استعمال کے ذریعے اپنے اکاؤنٹ سے رقم حاصل کرلیا کریں۔ اے ٹی ایم کارڈ سے آپ اپنے اکاؤنٹ سے رقم نکالنے کے علاوہ اپنے اکاؤنٹ میں موجود رقم کی معلومات بھی حاصل کرسکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میں کہتا رہا کہ ہم سیدھے سادے لوگ ہیں، جب بھی ہمیں رقم کی ضرورت ہوتی ہے بینک سے نکلوا لیتے ہیں، ہمیں ان چکروں سے دور ہی رہنے دو۔ لیکن نہیں مانے۔ مجھے مزید لالچ دیا جانے لگا کہ یہ اے ٹی ایم کارڈ ایک ڈیبٹ کارڈ بھی ہوتا ہے، ڈیبٹ کارڈ سے مختلف اشیائے ضروریہ کی خریداری بھی کی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ اس سہولت سے آپ ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ رقم اپنے اکاؤنٹ میں بھی جمع کرسکتے ہیں۔ اے ٹی ایم سہولت سے بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی، ڈاک کے ٹکٹ یا موبائل فونز کے لیے ائر ٹائم کارڈز بھی فروخت کیے جاسکتے ہیں۔ اُس وقت بینک ملازم کی جانب سے کی جانے والی باتوں پر میں مستقل ناں ناں ہی کرتا رہا، لیکن وہ بھی بہت ڈھیٹ تھا، پھر یوں گھیرنے لگا کہ آپ بینک سے بھی تو پیسے نکلواتے ہیں، یہ اے ٹی ایم کارڈ بھی بینک کا ہی ہوتا ہے، ہر بینک خود اپنا اے ٹی ایم کا نیٹ ورک رکھتا ہے جسے لنک ون اور لنک ٹو کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ اس طرح آپ اپنے بینک کارڈ کو لنک کے مطابق قائم کہیں سے بھی اور کسی بھی اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں خواہ اے ٹی ایم کا تعلق آپ کے بینک سے ہو یا نہ ہو۔ اُس نے اے ٹی ایم کارڈ کی خصوصیات اور استعمال سے متعلق بات کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ کے استعمال کے لیے آپ کو ایک کوڈ دیا جاتا ہے، اس پن نمبر کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ یہ اُس وقت منتخب کیا جاتا ہے جب آپ اپنا اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ وصول کرتے ہیں۔ عام طور سے پن نمبر چار سے چھ ہندسوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو آپ آپنی سہولت کے لیے خود بھی منتخب کرسکتے ہیں۔ اسے خفیہ رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ہر بار اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے استعمال کے لیے آپ اسی پن کوڈ کو استعمال کریں گے۔ پن ایک اضافی تحفظ ہوتا ہے، اگر کوئی آپ کی جیب تراش لے، پرس چرا لے، اے ٹی ایم کارڈ چھین لے، یا اے ٹی ایم کارڈ گم ہوجائے تو صرف وہی شخص آپ کا اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرسکتا ہے جو آپ کے کارڈ کا خفیہ پن نمبر جانتا ہو۔ لہٰذا اس صورت میں آپ کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی، کیونکہ اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے کوئی غیر متعلقہ فرد، چور یا ڈکیت آپ کی رقم نہیں نکلوا سکتا۔
آخر کو میں انسان ہی ہوں، اس لیے بینک ملازم کی باتوں سے متاثر ہوگیا اور میں نے بھی اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ بنوانے کا فیصلہ کرلیا۔ چند ہی روز بعد مجھے بینک کی جانب سے دی جانے والی یہ سہولت فراہم کردی گئی۔ کارڈ وصول کرنے کے بعد ایک روز جب میں نے بینک ملازم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق رقم نکلوانے کے لیے اپنا اے ٹی ایم کارڈ مشین میں داخل کیا اور لکھی عبارت کے مطابق پوچھے جانے پر رقم کو منتخب کیا تو اسکرین پر کئی رقوم ظاہر ہوگئیں، میں نے ہندسوں کے بٹن دباکر اپنی مطلوبہ رقم لکھ دی۔ ’’اپنی رقم وصول کریں‘‘ کی تحریر پڑھنے کے بعد میں رقم کی وصولی کا انتظار کرنے لگا، جس پر خاصی دیرکے بعد مجھے وصول کی گئی رقم کی فقط رسید ہی موصول ہوئی۔ رقم نہ ملنے پر میں انتہائی پریشان ہوگیا، میں رقم کے انتظار میں اے ٹی ایم کے پاس ہی کھڑا رہا، اس سے پہلے کہ میں پیسے آنے کا مزید انتظار کرتا، باہر کھڑے ہوئے شخص نے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا: جلدی سے باہر آجائیں اور لوگوں کو بھی پیسے نکلوانے ہیں۔ اُس وقت مجھ پر جو گزری تھی، میں نے اُس کے سامنے رکھ دی، اس پر اُس نے بتایا کہ ’’لنک میں خرابی آجانے کی وجہ سے آپ کی رقم وصول نہیں ہوئی، اب یہ رقم چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے بعد ہی آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوگی۔‘‘
’’پیسوں کی ضرورت آج ہے، اور اپنے ہی پیسوں کے لیے مجھے مزید 24 سے 48 گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا، یہ کیا چکر ہے؟‘‘ میری حیرت پر وہ بولا ’’انکل ایسا ہی ہوتا ہے، اب کیوں ہوتا ہے یہ بینک ہی بتائے گا، آپ مہربانی کریں تاکہ دوسرے لوگ اپنی رقم نکلوا سکیں۔‘‘
چونکہ میرا اے ٹی ایم کارڈ نیا نیا بنا تھا اس لیے میں اس کے استعمال کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا، اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ پہلی مرتبہ کارڈ استعمال کرتے ہی میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا تھا، اس لیے میں کیوں کسی اجنبی شخص کی باتوں پر اعتبار کرتا! میرے ذہن میں تو بس یہی چل رہا تھا کہ کہیں کوئی دوسرا شخص میری نکالی گئی رقم نہ لے اُڑے۔ بس اسی لیے میں اے ٹی ایم مشین پر قبضہ جمائے کھڑا رہا اور اپنی رقم وصول ہونے کی امید پر لوگوں سے مستقل بحث کرتا رہا، یوں ہمارے درمیان ہونے والی بحث کو ختم کرانے کے لیے اے ٹی ایم کے ساتھ قائم بینک کے ایک اہلکار کو مداخلت کرنی پڑی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن… اس کارڈ پر لعنت بھیج کر اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے والوں سے اسی طرح بحث کرتا چلا آرہا ہوں۔‘‘
اقبال بھائی تو اے ٹی ایم کارڈ کے خلاف اپنا لمبا چوڑا بھاشن دے کر چلے گئے، لیکن میں اے ٹی ایم لنک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے وہیں کھڑا رہا۔ اقبال بھائی کی باتوں سے اختلاف اپنی جگہ، لیکن بینکوں کی جانب سے نصب کی گئی ان مشینوں کی کارکردگی پر اُن کی جانب سے کی جانے والی تنقید معنی خیز ہے۔ سارے شہر میں گھوم کر دیکھ لیں، شاید ہی آپ کو کوئی اے ٹی ایم ایسی نظر آئے جہاں لوگ اس قسم کی شکایت کرتے دکھائی نہ دیتے ہوں۔ کوئی بھی تہوار ہو یا مہینے کی ابتدا، ہمارے ملک کے بینکوں کی جانب سے عوام کی سہولت کے لیے لگائے جانے والے اے ٹی ایم سسٹم کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اس صورت حال میں عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دنیا بھر میں جو سہولت گزشتہ 50 برسوں سے بھی زائد عرصے سے دی جارہی ہے، ہم آج کے اس سائنسی دور میں بھی اس میں ناکام ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ مغربی دنیا میں اے ٹی ایم بینکنگ سسٹم 52 برس پہلے آچکا تھا۔ یعنی 27 جون 1967ء کو دنیا کی پہلی ’’آٹومیٹڈ ٹیلر مشین (اے ٹی ایم) لندن کے علاقے این فیلڈ میں بارکلیز بینک کی ایک شاخ میں لگائی گئی تھی۔ اس سے رقم نکالنے والے پہلے شخص ٹی وی فنکار ریگ وارنی تھے۔ اُن دنوں پلاسٹک کے کارڈ نہیں ہوتے تھے، اس لیے مشین سے پیسے نکالنے کے لیے چیک ہی استعمال ہوتے تھے، جن پر ہلکا سا کاربن 14 لگایا جاتا تھا۔ مشین چیک اور Pin نمبر کا موازنہ کرکے رقم ادا کرتی تھی۔ اے ٹی ایم کی گولڈن جوبلی کے موقع پر بینک نے اس پہلی مشین کو سونے کی مشین میں تبدیل کردیا تھا۔ آج مغرب کہاں سے کہاں پہنچ گیا، اور ہم ہیں کہ وہی لنک ڈاؤن یا اے ٹی ایم مشین خراب ہونے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے یہاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان تمام نجی بینکوں کو اضافی کیش اور سسٹم درست رکھنے کی ہدایات تو جاری کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود کمرشل بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کے لنک ڈاؤن اور کیش نہ ہونے کی وجہ سے عوام سخت پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ اگر قسمت سے کہیں اے ٹی ایم مشینیں فعال بھی ہوں تو ان پر صارفین کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ اس ساری صورت حال میں بینک انتظامیہ کی جانب سے عوام کو وہی پرانا بھاشن یعنی رمضان المبارک یا کسی بھی تہوار پر رقم کا لین دین بہت زیادہ ہوجاتا ہے، اس لیے آن لائن نظام کو فعال رکھنے میں مشکلات پیش آرہی ہوتی ہیں۔ چونکہ سارے ہی شہر کی اے ٹی ایم مشینوں پر عوام کا رش ہوتا ہے اس لیے لنک ڈاؤن یا فنی خرابی کی شکایات میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔ یہ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کا کام ہے، وغیرہ وغیرہ ہی سننے کو ملتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عوام کا کہنا ہے کہ تہواروں کی آمد پر تجارتی مراکز اور اہم شاہراہوں پرقائم کمرشل بینکوں کی اے ٹی ایم کا خراب یا بند ہونا عام سی بات ہے۔ رمضان المبارک ہو یا عید کی خوشیاں، سب رقم کی دستیابی سے منسلک ہوتی ہیں، لیکن ہمیشہ ہی بینکوں سے ٹرانزیکشن کے عمل میں رکاوٹیں ہماری خوشیاں پھیکی کردیتی ہیں۔ اور تو اور، بینکوں کی جانب سے عمر رسیدہ پنشنروں یعنی ریٹائرڈ سرکاری و نجی ملازمین کو ماہانہ پنشن کی وصولی کے لیے بھی اے ٹی ایم پر لگی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے پر مجبور کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی عوام کو رقم نکالنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو اے ٹی ایم سسٹم میں ہونے والی فنی خرابیوں کے ساتھ ساتھ بینکوں کا اپنا آن لائن سسٹم بھی کام نہیں کرتا، جس کی وجہ سے شہری اپنی ہی رقم کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔