افشاں نوید
ہم شیریں مزاری کی شیریں کلامی پر سر دھن رہے تھے جب وہ ایوان میں لڑکی کی اٹھارہ برس سے کم عمر کی شادی کے ترمیمی بل پر اظہارِ خیال کررہی تھیں۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو تھی یا خاروں کی چبھن، مگر ہمارے ذہن میں اپنی پڑوسن کا سراپا تھا جن کی بیٹی کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ ہے اور وہ انتہائی پریشان رہتی ہیں اُس کے لیے ’’مناسب بر‘‘ کی تلاش میں۔ اور ہر ملنے جلنے والی کو مشورہ دیتی ہیں کہ لڑکیوں کی شادی تو اٹھارہ برس کی عمر میں ہی کردینی چاہیے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں وہ رشتے ٹھکراتی رہیں۔ ادھر بچی کو ’’مزید تعلیم‘‘ کا شوق۔ وہ ’’ہل من مزید‘‘ اب تک جاری ہے۔ جانے کون کون سی ڈگریاں اور ڈپلومے ان کی فائلوں میں سج چکے ہیں۔ ٹھیک ٹھاک تنخواہ پر ایک ملٹی نیشنل ادارے میں اچھی پوسٹ پر فائز ہیں۔ تنخواہ خاندان کے بیشتر مرد حضرات سے زیادہ ہی ہے، مگر کیا کیجیے کہ ماں بار بار ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں کہ اس کے اسٹینڈرڈ کا رشتہ شاید آسمانوں پر تشکیل ہی نہیں پایا۔ شہزادیاں چراغ ہاتھوں میں لیے شہزادے کی منتظر ہی رہیں کہ دن طلوع ہوگیا اور چراغوں کی لو مدھم ہوتی چلی گئی۔
ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں اٹھارہ برس سے کم یا زیادہ عمر کی شادی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وہاں تو مسئلہ بڑی عمر کی شادیاں اور رشتوں کا نہ ملنا ہے۔ جس گھر میں جائیں اہم ترین مسئلہ بیٹی کا رشتہ ہی سامنے آئے گا۔ ہر تیسری چوتھی ماں پریشان ہے کہ مناسب رشتے نہیں ملتے۔ لڑکیاں انتہائی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں، ان کو مواقع بھی زیادہ مل رہے ہیں، اور جب وہ شعور میں پختہ ہوجاتی ہیں تو اپنے سے کم تعلیم یافتہ لڑکوں کو کسی حال میں قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔
دوسری طرف گائوں دیہات ہیں۔ اور پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی وہیں مقیم ہے۔ ان کے سماج کا تجزیہ کریں، وہاں سولہ یا اٹھارہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بڑے شہروں کے مقابلے میں وہاں شادی کے مسائل اتنے گمبھیر نہیں ہیں۔ مجھے بارہا سندھ کے دیہی علاقوں میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ وہاں شادیاں عموماً خاندانوں میں ہوتی ہیں۔ بیشتر شادیاں والدین بچپن ہی میں طے کردیتے ہیں۔ چونکہ خاندانی نظام عموماً مضبوط ہوتے ہیں، اس لیے بچے والدین کے فیصلوں کے سامنے سرِ اطاعت جھکاتے ہیں۔ البتہ دوسری شادی کا کثرت سے رجحان ہے۔ اس کو نہ برا سمجھا جاتا ہے، نہ مزاحمت سامنے آتی ہے۔ ہم نے بارہا ایسے گھرانے دیکھے جہاں ایک ہی گھر میں دو بیویاں مطمئن اور آسودہ زندگی گزار رہی ہیں۔
ریاست کے ایوانوں کا موضوعِ گفتگو سولہ یا اٹھارہ برس کی شادی زیب نہیں دیتا، اس لیے کہ یہ سماج کا حقیقی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ خواتین کی صحت کے مسائل حل کیے جائیں۔ ان کو تعلیم کے مواقع مہیا کیے جائیں۔ اسکولوں کا جال بچھایا جائے۔ اسپتالوں کی سہولتیں ناپید ہیں، دیہی علاقوں میں نامعلوم کتنی اموات بروقت علاج کی سہولت مہیا نہ ہونے کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ عورتوں کے حقوق مرد اسی لیے غصب کرتے ہیں کہ مردوں کی تعلیم اور تربیت کے ذرائع بھی مفقود ہیں۔ نہ پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے ہیں، نہ گھریلو دستکاریوں کو فروغ دینے کی حکومت کے پاس کوئی پالیسی ہے۔ ہمارا دیہی معاشرہ بڑا مظلوم معاشرہ ہے جہاں سب اپنے مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔
اسلام انسانی فطرت کے تقاضوںکو بہت باریک بینی سے دیکھتا ہے۔ نکاح کے لیے بلوغت شرط ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ جسمانی کے ساتھ ذہنی بھی دیکھی جائے گی۔ بہت سی بچیاں اپنی عمر سے بہت زیادہ سنجیدہ اور بالغ نظر ہوتی ہیں، جب کہ بہت سی بڑی بہنیں چھوٹی بہنوں سے زیادہ ناسمجھ ہوتی ہیں۔ ایک خاندان میں کتنے بچے پیدا ہونے چاہئیں، بچوں کی شادیاں کن عمروں میں ہونی چاہئیں یہ ریاست کے طے کرنے کے امور نہیں ہیں۔ یہاں ہمارا مذہب ایک فرد اور خاندان کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے خانگی تقاضوں کے پس منظر میں فیصلہ کریں۔ اسی لیے نوجوانوں کو نکاح کی خواہش کے باوجود نکاح کی قدرت نہ رکھنے پر روزے رکھنے کا حکم دیا گیا کہ ضروری نہیں کہ ہر گھر میں اتنی گنجائش ہو کہ نکاح کی خواہش فوری پوری کردی جائے۔ گھر کے معاشی حالات بھی ہوسکتے ہیں، دوسری خانگی ذمے داریاں بھی ہوسکتی ہیں۔ فی زمانہ تو اعلیٰ تعلیم کا حصول بھی اس کی ایک وجہ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان بیس برس کی عمر میں نکاح کرتا ہے اور خاندان کی ذمے داری اٹھا سکتا ہے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے، لیکن اگر کوئی نوجوان تیس برس کی عمر میں نکاح کا خواہش مند نہیں ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے یا بہنوں کی ذمے داریوں سے فارغ ہوجائے وغیرہ، تو اُسے ایسا کرنے کا حق ہے۔ یہ انفرادی فیصلے ہیں۔ اسلام کا مطلوب ایک پاکیزہ سماج ہے، جہاں نکاح نہ ہونے سے بندِ تقویٰ ٹوٹ جانے کا خدشہ ہو تو اس خاندان کو پہلی ترجیح نوجوان لڑکے یا لڑکی کے نکاح کو دینی چاہیے۔
شریعت میں پسندیدہ یہی ہے کہ معاشرے کو انارکی اور فتنے سے بچایا جائے، اس لیے جابجا نکاح کی ترغیب ملتی ہے اور مجرد زندگی کو پسند نہیں کیا گیا۔
اس وقت اگر آپ پاکستان کے ماہرینِ نفسیات، سماجیات سے پوچھیں کہ معاشرے کا اصل مسئلہ اٹھارہ برس سے کم عمر کی شادی ہے یا طلاق و خلع کا بڑھتا ہوا رجحان؟ بجائے اس کے کہ ہم سر جوڑ کر سوچیں کہ گھر کیوں ٹوٹ رہے ہیں، معاشرے میں نکاح کے رشتے کی پائیداری پر کون سے عوامل ضرب لگا رہے ہیں، خاندان کیوں بکھر رہے ہیں؟ جہاں طلاق یا خلع واقع ہوتی ہے وہ دو افراد کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہمارا معاشرہ مغربی معاشرہ نہیں ہے جہاں ازدواجی زندگی دو افراد کا معاملہ ہو، اور لباس کی طرح لائف پارٹنر بدل لیے جاتے ہوں۔ ہمارے معاشرے میں ایک طلاق یا خلع سے کئی خاندان شدید نفسیاتی دبائو کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جو خانگی اور سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ وہی خاندان جانتے ہیں جو اس کرب سے گزر رہے ہوں۔
ریاست کو مدینہ بنانے کا نعرہ لگانے والے بجائے نکاح کو آسان بنانے کے، نکاح پر پابندی لگا رہے ہیں۔ چھوٹی عمرکی شادیاں ان کے لیے اِس وقت سماج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ عمر کی قید لگا رہے ہیں، کیوں کہ بہت سے اہلِ دانش کا خیال ہے کہ پندرہ، سولہ برس کی بچی کس طرح ایک اچھی ماں بن سکتی ہے۔ ہم سے پچھلی نسلوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کیا سولہ، سترہ برس کی شادیاں ناکام ہوتی تھیں اُس وقت؟ کیا ہماری مائیں اچھی مائیں ثابت نہیں ہوئیں؟ کیا انہوں نے بچے پیدا کرکے چھوڑ دیے؟ انہیں اچھا انسان نہیں بنایا؟ کم سنی کی شادی کے اگر مفاسد ہیں تو پختہ عمر کی شادی کے اس سے زیادہ مفاسد ہیں۔ ایک تیس، پینتیس سال کی لڑکی کردار اور سوچ میں اتنی پختہ ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ بعض اوقات خانگی زندگی کے لیے وہ قربانیاں دینے پر آمادہ نہیں ہوتی جو ایک کم عمر لڑکی بہ خوشی دے دیتی ہے۔
شادی کے لیے عمر کا تعین نہ شرعی مسئلہ ہے نہ سماجی۔ ہمارے سماجی مسائل بہت شدید ہیں۔ اہلِ اقتدار حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے نان ایشوز کو چھیڑ کر اپنے اقتدار کو طول دیتے ہیں، اور دوسری طرف غیر حقیقی ابحاث کو چھیڑ کر اصل مسائل سے روگردانی کرتے ہیں، جو ایک قومی جرم سے کسی صورت کم نہیں۔