افروز عنایت
زمانۂ اسلام سے قبل عرب معاشرہ جس طرح برائیوں میں ملوث تھا، یوں لگتا تھا کہ وہ بے لگام نفس کے غلام ہوکر صرف اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہے ہیں۔ لیکن یہی عرب عالمِ اسلام کے دائرے میں شامل ہوئے تو ان کی کایا ہی پلٹ گئی۔ نفس کی غلامی کے بجائے رب الکریم کی غلامی و اطاعت پر سرِ تسلیم خم کردیا۔ میں تاریخ کے اوراق پلٹتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ بے راہ روی کے شکار بندوں نے دائرۂ اسلام میں داخل ہوکر کلمہ پڑھا اور اپنے نفس کو قابو کرلیا، اور اُس راہ پر چل پڑے جو راہِ حق ہے، جس سے رب کی رضا حاصل ہے۔ آج بھی ہمارے اردگرد وہی لوگ فلاح پانے والے نظر آتے ہیں جو اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کے اہل ہیں، جو اپنی نفسانی خواہشات کے بجائے اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ گرچہ کل کی نسبت آج ہمارے اردگرد طاغوتی طاقتوں کا جال انتہائی مضبوطی سے پھیلا ہوا ہے جو کراہت زدہ لہو و لعب چیزوں کو حسین و مزین کرکے اپنے جال میں پھانس لیتا ہے۔ ان چیزوں کے فریب سے بچنے کے لیے ماں باپ اور اساتذہ کرام کی تربیت، ماحول، اچھی صحبت وغیرہ کا ہونا لازمی امر ہے جو انسان میں نفس پر قابو رکھنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ دل میں خوفِ خدا پیدا ہونے کی وجہ سے وہ پرہیز و احتیاط برتنا ہے، وہ اپنے آپ کو نفسانی خواہشات کا غلام بننے سے روکتا ہے۔ میرے اردگرد بہت سے ایسے چہرے ہیں جو ہر قدم احتیاط سے اٹھاتے ہیں کہ کہیں غلطی سرزد نہ ہوجائے۔
یورپ میں رہنے والے بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو وہاں بھی احتیاط برتتے ہیں، حلال و حرام کا خیال رکھتے ہیں۔ گرچہ وہاں اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا بڑا مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ وہ نہ صرف وہاں کیچڑ میں رہ کر اپنے آپ کو گندگی سے بچاتے ہیں بلکہ دوسروں کا ہاتھ تھام کر انہیں بھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے ایک عزیزہ نے بتایا کہ گرچہ بہت مشکل ہے اپنے آپ کو بچانا، لیکن اگر مصمم ارادہ کرلیں کہ ہمیں ہر صورت میں اس سے بچنا ہے تو یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔
میں اپنی اس عزیزہ کی بات سے متفق ہوں کہ انسان مصمم ارادہ کرلے یعنی اپنے نفس پر قابو پالے تو وہ ضرور کامیاب ہوتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی مریض کو ڈاکٹر پرہیزکی تاکید کرتا ہے کہ کھانے کی اس چیز سے تمہیں لازمی پرہیز کرنا ہے ورنہ مرض کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ مریض ڈاکٹر کی بات پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کرتا ہے کہ کھانے کی یہ چیز چاہے میرے لیے کتنی ہی مرغوب ہے، میں اسے ہاتھ بھی نہیں لگائوں گا۔ وہ اپنے اس ارادے کی وجہ سے نفس پر کنٹرول کرتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم بھی کچھ غلطیوں کا ارتکاب کررہے ہیں تو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، اور ان غلطیوں سے بچنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ عہد کرنا چاہیے کہ میں اس برائی یا بداخلاقی سے ہر ممکن طور پر بچوں گا۔ پہلی مرتبہ حج کرنے کے لیے تربیتی کلاس میں شریک ہونے کا موقع ملا، جہاں عالم صاحب نے کہا کہ ’’حج وہ ہے جو آپ کے اندر مثبت تبدیلی لائے‘‘۔ اس جملے نے مجھے جھنجھوڑا کہ میری ذات میں کیا خرابیاں ہیں جنہیں میں ترک کرکے اپنے اندر مثبت تبدیلی لائوں۔ محاسبہ کرنے پر کچھ ایسی برائیاں سامنے آئیں جن سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کوشش کروں تو لازمی ان سے بچ سکتی ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے میرے اس ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مدد کی اور میں کامیاب ہوئی۔ اس میں سے ایک برائی کا یہاں ذکر کروں گی جس کی وجہ سے میرے اپنے کنبے کو بھی فائدہ ہوا، الحمدللہ۔
حج پر جانے سے پہلے میں ٹی وی کا کوئی ڈرامہ چھوڑتی نہ تھی، اگر کوئی چھوٹ جاتا تو اسے نشر مکرر میں ضرور دیکھتی، جس کی وجہ سے میرا زیادہ وقت گھر کے کام کاج کے علاوہ ٹی وی کے سامنے گزرتا۔ یعنی اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو پورا کرکے زیادہ وقت ٹی وی دیکھتی، جس کی وجہ سے رات کو بھی سونے میں دیر ہوجاتی۔ حج سے واپس آئی تو بار بار یہ جملہ مجھے جھنجھوڑ رہا تھا ’’حج تو وہ ہے جو آپ میں مثب تبدیلی لائے‘‘۔ لہٰذا میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کروں گی۔ یقین کریں اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں مجھے زیادہ تکلیف نہیں ہوئی۔ اب سوائے خبرنامہ، وہ بھی شاذو نادر دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے، اس ایک خامی پر قابو پانے کی وجہ سے میرا خاصا وقت بچ گیا جس میں کوئی ’’نیک‘‘ کام کرسکتی ہوں۔ ٹی وی پر جو ڈرامے اکثر و بیشتر چلتے رہتے تھے میری وجہ سے لازماً گھر کے دوسرے افراد بھی دیکھتے تھے۔ انہیں بھی ’’لت‘‘ پڑگئی تھی۔ میرے نہ دیکھنے سے وہ بھی ان خرافات سے بچ گئے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال تھی جو میں نے آپ کے روبرو پیش کی۔ اس طرح میرے آس پاس اور بھی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کی، یا کسی برائی سے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے خاندان کو بھی بچایا، جیسا کہ زرینہ کا واقعہ ہے۔
اگرچہ زرینہ اور اُس کے شوہر دونوں کا تعلق خوشحال گھرانوں سے تھا، لیکن شادی کے بعد انہیں مالی مصائب کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ ’’کھانے کے لالے‘‘ پڑگئے۔ بڑی تگ و دو کے بعد شوہر کو سرکاری ملازمت ملی جہاں رشوت عام تھی۔ زرینہ چونکہ دینی تعلیم سے آشنا تھی، اس نے شوہر سے عہد لیا کہ آپ کبھی حرام کمائی کی طرف نہیں جائیں گے۔ پہلے تو شوہر بگڑے کہ کیا حرام حلال کی تم نے رٹ لگائی ہوئی ہے! بچوں کی تعلیم و تربیت، گھر کے اخراجات اس حلال کمائی میں ناممکن ہیں۔ اس پر زرینہ نے خود ملازمت کرنے کا سوچا، جس پر شوہر ناراض ہوئے کہ گھر اور بچے تمہاری ذمہ داری ہیں یہ سب کون کرے گا؟ اس نے شوہر سے وعدہ کیا کہ نہ گھر اور نہ ہی بچوں اور آپ کی ذمہ داری کو نظرانداز کروں گی، صرف آپ مجھ سے عہد کریں کہ اس گھر میں صرف حلال روزی آئے گی چاہے مجھے کتنی بھی تکلیف اٹھانی پڑے۔ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن آنے والے وقت میں زرینہ ثابت قدم رہی۔ گرچہ شوہر کو بھڑکانے والے بہت تھے۔ زرینہ کو اپنی خواہشات کو قابو کرنا پڑا۔ اس نے اپنی ذات کو تکلیف میں رکھ کر رزقِ حلال سے نہ صرف اپنے گھر کو چلایا بلکہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی۔ ان دونوں مثالوں کی روشنی میں اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی بھی نیکی کی طرف بڑھنے کے لیے مضبوط ارادے اور نفس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ لوگ اپنا ٹارگٹ (مقام و منزل) پانے کے لیے ارادے کے ساتھ جدوجہد اور محنت کرتے ہیں، تب جاکر انہیں دنیاوی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ چاہے وہ تعلیمی میدان ہو، کاروباری معاملات ہوں، ملازمت میں ترقی حاصل کرنا ہو یا سیاسی میدان ہو، منزل پر پہنچنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کے لیے لوگ تیار ہوتے ہیں، اور بعض اوقات کچھ منفی سوچ و عمل والے تو اپنی دنیاوی کامیابی کے لیے منفی ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے سے نہیں چوکتے، جبکہ یہ تو صرف دنیاوی کامیابی ہے۔ تو کیا انسان اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنی ذات میں مثبت سوچ و عمل لانے کی کوشش نہیں کرسکتا؟ جس میں رب العزت دنیا میں بھی سرخرو کرتا ہے اور آخرت میں بھی۔ یہی تربیت اساتذہ اور والدین بھی بچوں کی کرسکتے ہیں۔ یقینا اس تربیت سے بچے دنیاوی کامیابی کے ساتھ آخرت کی کامیابی کو بھی مدنظر رکھیں گے اور کسی غلط راہ پر جانے سے ہچکچائیں گے۔ اپنے نفس پر قابو پانے کی وجہ سے بہت سی اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے نہ صرف خود بچ سکتے ہیں بلکہ اس کے مثبت اثرات اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی دے سکتے ہیں، جیسا کہ زرینہ نے رزقِ حلال کو ترجیح دی۔ اس کی اولاد کے سامنے ان کے والدین ’’رول ماڈل‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ بھی رزقِ حرام سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص کو جھوٹ بولنے کی عادت ہو تو اس کی اولاد بھی ویسے ہی رنگ میں ڈھل جاتی ہے اور انہیں ’’جھوٹ‘‘ برا نہیں لگتا۔ یہ ان کا معمول اور عادت بن جاتا ہے۔ لہٰذا اپنی دنیا و آخرت سنوارنے اور اپنی نسل کو بھی برائی سے بچانے کے لیے اپنی ذات کو نیکی کے راستے پر ڈالنے کا مصمم ارادہ کرلیں۔ تمام برائیاں ایک ساتھ ختم نہیں ہوسکتیں، لیکن آہستہ آہستہ کچھ تو کم ہوسکتی ہیں۔ بیشک اللہ بندے کے دل میں موجود ہے، وہ اپنے بندے کے نیک ارادے اور نیت کے مطابق اس کی مدد کرتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام، تابعین اورتبع تابعین کی زندگی سے ظاہر ہوتا ہے۔ بس آج ہی اپنا محاسبہ کرکے اپنی ذات میں موجود کوئی ایک برائی کو کچلنے کا مصمم ارادہ کرلیں۔ بے شک جو اللہ آپ کے دل میں موجود ہے وہ آپ کی ضرور مدد کرے گا، اور اگر یہ نیکی آپ سے اس ماہِ رمضان میں ہوجائے تو ’’سونے پر سہاگہ‘‘، ایک نیکی کا ستّر درجے ثواب حاصل ہوگا (ان شاء اللہ)۔ رمضان کا مہینہ اسی لیے مسلمانوں کے لیے ’’انعام‘‘ کہا گیا ہے۔ اس کی برکتوں اور سعادتوں سے فیضیاب ہونے کی کوشش کے لیے اپنے اندر کی کسی ایک ہی خرابی و برائی سے نجات حاصل کریں، ان شاء اللہ میرا رب مایوس نہیں کرے گا۔