ظہیر خان
سرخ رنگ خطرے کی علامت سمجھی جاتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی کی پہلی رات دُلھن کو سرخ جوڑا پہنا کر شوہر کے سامنے لایا جاتا ہے تاکہ تمام عمر شوہرِ محترم محتاط رہیں۔
سرخ رنگ کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ بہت دور سے نظر آجاتا ہے کیونکہ اس کی رفتار اور رنگوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ میرے ایک دوست ہیں فخراللہ… شاد تخلّص فرماتے ہیں یہ کہیں بھی ہوں چاہے بازار ہو یا گلزار‘ محفل ہو یا محمل ہر جگہ نمایاں نظر آتے ہیں اس کی وجہ ان کے سر اور داڑھی کے وہ سُرخ بال ہیں جو انہیں اوروں سے منفرد رکھتے ہیں نہ جانے کون سی برینڈ کی مہندی استعمال کرتے ہیں جو انہیں ہمیشہ ہرجگہ سرخ رو رکھتی ہے۔
شاعری کرنے کا بے انتہا شوق ہے اور وہ بھی مشکل والی یعنی طنز و مزاح سے بھرپور شاعری سنجیدہ شاعری تو بے شمار احباب کرتے ہیں مگر ایسی شاعری جو حسبِ حال ہو جس میں معاشرے کی خامیاں اجاگر کی جائیں اپنی بات کو مزاح کا پیراہن دیا جائے اور اس میں طنز کی نشتر زنی بھی شامل ہو یعنی بات کڑوی ہو مگر شوگر کوٹڈ کیپسول کی طرح جو حلق سے نیچے بھی اتر جائے اور ناگوار بھی نہ گزرے۔ فخراللہ شاد کا یہی تو کمال ہے کہ ایسی پُرمزاح اور طنز سے بھرپور شاعری کرتے ہیں کہ جب کسی مشاعرے میں اپنا کلام سناتے ہیں تو سامعین کی واہ واہ سے مشاعرہ گاہ گونج اٹھتی ہے۔ فخر اللہ شاد نے اپنی شاعری میں مشکل الفاظ کے استعمال سے گریز کیا ہے آسان الفاظ میں بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ہر خاص و عام تک بات پہنچ جائے۔ کاروباری آدمی ہیں مصروفیت ہر لمحہ دامن گیر رہتی ہے مگر ’’یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے‘‘ اتنی مصروفیت کے باوجود شاعری کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ میری ان سے ملاقات محترم اعجاز رحمانی کے توسط سے ہوئی اکثر کسی مشاعرے ہی میں ملاقات ہوتی ہے ہمیشہ شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں بے انتہا خوش اخلاق اور ملنسار واقع ہوئے ہیں بس یوں سمجھ لیجیے کہ خلوص اور محبت کا پیکر ہیں بھائی فخراللہ شاد۔
فخراللہ شاد نے اپنے تخلّص سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے شعری مجموعہ کو نام دیا ’’شادمانیاں‘‘ ایک جگہ خود اپنے آپ سے مخاطب ہیں…
پڑھ تو رہے ہو اپنی غزل جھوم جھوم کے
فخراللہ شاد شعر کوئی کام کا بھی ہے
میں نے ان کے مجموعے سے کچھ اشعار کام کے نکالے ہیں سب سے پہلے وہ شعر جس میں شاد نے اپنے کالج کے دور کا ذکر بڑی صاف گوئی سے کیا ہے کہ جس نازنین سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے اس کی نرم نرم جوتیوں سے فیضیاب ہوتے رہے اور ہمّت اور استقلال کی داد دیجیے کہ: ’’جوتیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوئے‘‘ بلکہ حوصلے اور بلند ہوئے اور قسمت کی خوبی دیکھیے اب وہی مہ جبیں ان کے گھر کی رونق یعنی چراغِ خانہ ہیں۔
کالج میں بارہا پٹے جس نازنیں سے ہم
اب عقد کرچکے ہیں اسی مہ جبیں سے ہم
اب یہ نہیں پتا کہ پٹنے پٹانے کا عمل کالج تک ہی محدود رہا یا آگے بھی مشقِ ستم جاری ہے۔
ویسے پٹنے پٹانے کا شوق شاد کا محبوب مشغلہ ہے گھر نہ سہی گھر کے باہر ہی سہی اب دیکھیے نا سرِ راہ بھی ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آگیا… فرماتے ہیں…
کل راستہ میں ہوگیا یہ حادثہ بھی شادؔ
دھوکے میں اس کے پٹ گئے پردہ نشیں سے ہم
دلاور فگار ایک جگہ فرماتے ہیں…
یارب مرے نصیب میں اکلِ حلال ہو
کھانے کو قورمہ ہو کھلانے کو دال ہو
اسی قسم کی کیفیت کچھ فخر اللہ شاد کی بھی ہے…
غربت کا لوگ میری اڑاتے ہیں یوں مذاق
کھاتے ہیں قورمہ وہ کھلاتے ہیں مجھ کو دال
فخر اللہ شاد کو تضمین کہنے پر کافی عبور حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ مشہور شعرا کے سنجیدہ اشعار استعمال کرکے تضمینات کہی گئی اور سنجیدگی کو مزاح کا پیراہن دیا گیا… اپنی ایک تضمین میں مرزا غالبؔ کی روح کو تڑپنے پر مجبور کردیا…
بیس بچّوں کو جنم دے کے یہ بولیں بیگم
اُف کہ دشوار ہے اس دور میں امّاں ہونا
روحِ غالبؔ نے سنا تو وہ تڑپ کر بولی
’’ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘
میر تقی میرؔ کے دو مصرعے شاد کے قطعہ کی زد میں آگئے…
بنواتے ہوئے شیو میں حجّام سے بولا
اپنایا ہے کیوں آپ نے یہ پیشۂ دُشنام
گردن پہ میری استرا رکھتے ہوئے بولا
’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘
بولا بیگم سے آج بھی تم میں
کیفیت تو گلاب کی سی ہے
بولیں لگتا ہے پی کے آئے ہو
’’ساری مستی شراب کی سی ہے‘‘
وطنِ عزیز کے سیاسی حالات بھی شاد کی نظر میں رہے ہیں ذرا یہ تضمین تو ملاحظہ کیجیے…
شیر افگن ہوں یا ڈاکٹر ارباب رحیم
سب نے اک بات کا افسانہ بنا رکھا ہے
صدر بھی تھام لیں اب دامنِ عبرت ورنہ
’’سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے‘‘
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ رہبر نے ہی ہمیشہ رہزن کا کردار ادا کیا۔ اس وقت مجھے فناؔ نظامی یاد آگئے…
اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں
اے فناؔ رہزن کو بھی صدمہ ہوا
فخر اللہ شاد کی شجاعت اور دلیری قابلِ تحسین ہے کہ جس وقت موصوف نے یہ قطعہ کہا تھا اس وقت یہ لٹیرے برسرِ اقتدار تھے…
کہہ رہے ہیں یہ سب چمن والے
ہم کو آکے بہار نے لوٹا
اتنا لوٹا نہیں کسی نے بھی
جتنا اسحاق ڈار نے لوٹا
اسی تسلسل میںذکر ان لٹیروں کا اور پھر بیاں فخراللہ شاد کا…
دشمنی تھی زمین سے جن کو
وہ مجھے آسمان کیا دیں گے
قوم کا مال لوٹنے والے
روٹی کپڑا مکان کیا دیں گے
فخر اللہ شاد کی سوچ ان کا دائرہ فکر بہت وسیع ہے وہ ملکی اور غیر ملکی معاملات کو جس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر اپنی شگفتہ بیانی سے حقیقت کا پردہ وا کرتے ہیں وہ نشتر کی نوک سے زیادہ نوکیلا اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز تر ہوتا ہے۔ کشمیر ہمارا دائمی مسئلہ ہے اسے ایک نہ ایک دن حل ہونا ہی ہے۔ یہ جنّت نظیر وادی مسلمانوں کی امانت ہے کیونکہ ’’جنّت کسی کافر کو ملے ممکن ہی نہیں ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے جنّت صرف اور صرف مومنین کے لیے ہی تخلیق کی ہے…
بتا چکے ہیں یہ ہم بے وقوف مودی کو
خود اپنے ہاتھ سے تقدیر اپنی پھوڑی ہے
یہ سارا خطہ ہمارا ہے ہم ہی مالک ہیں
تمہارے باپ کا کشمیر کوئی تھوڑی ہے
’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘ مرزا نے نیند نہ آنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی مگر ہمارے فخراللہ شاد نے نیند نہ آنے کی ایسی ٹھوس اور حقیقت سے قریب تر وجہ بتائی ہے جس سے کوئی ڈاکٹر یا حکیم بھی انکار نہیں کرسکتا۔
خواب آور دوائیوں سے بھی
نیند زیرِ اثر نہیں آتی
کھٹملوں سے یہ انکشاف ہوا
’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘
میر تقی میرؔ اور مرزا غالبؔ کے بعد ایک کمی رہ گئی تھی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی سو شاد نے اسے بھی پوری کردی…
پوچھنے والا ترا شہر میں کوئی بھی نہیں
خود کو جائے گا کہاں بزم سے تنہا لے کر
چھوڑ کر جا چکے بستی ترے دیوانے تمام
’’اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر‘‘
بشربدر کا شعر ’’اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو‘‘ یارانِ شعروسخن میں بے انتہا مقبولیت حاصل کرچکا ہے اور ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے خاص طور پرمصرعۂ ثانی ’’نہ جانے کسی گلی میں زندگی کی شام ہوجائے‘‘ تو زبان زدِ خاص و عام ہے فخراللہ شاد بھلا کہاں چوکنے والے تھے اس خوبصورت مصرعہ کو نیا رنگ نیا روپ نیا زاویہ تو دیا ہی ہے ساتھ ساتھ شگفتگی کا لبادہ پہنا کر قارئین کے چہروں پر مسکراہٹ بھی بکھیر دی آپ بھی ان کی اس خوبصورت تضمین سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں…
نہیں جاتا میں پڑھنے کو بڑی محفل میں اس ڈر سے
کہیں خودکش دھماکے میں نہ اپنا کام ہوجائے
اسی باعث الیکشن میں نہیں حصّہ لیا میں نے
’’نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے‘‘
ذکرِ سیاست ہو اور زرداری اس سے محروم رہ جائیں یہ کیسے ممکن ہے شاد نے بڑی ہوشیاری سے اپنے قطعہ میں انہیں ڈوبنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔
یہ جو آنسو میری آنکھوں میں نظر آتے ہیں
تیرے مصنوعی تبسّم کو بھی لے ڈوبیں گے
ایک سیلاب زدہ نے کہا زرداری سے
’’ہم تو ڈوبیں ہے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘
’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ اکثر اس طرح کے بینر پولیس تھانوں کی دیواروں پر آویزاں ہوتے ہیں مدد تو وہ کرتے ہیں مگر ’’بنتی نہیں ہے بات رشوت لیے بغیر‘‘ رشوت کو یہ خدّامِ قوم اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں جس دن رشوت کی حرام رقم سے ان کی جیبیں گرم نہ ہوں وہ دن کون سا ہے؟ …سنیے یہ لن ترانی فخر اللہ شاد کی زبانی…
اک پولیس والے نے کہا یارو
کیا عجب آج کی کہانی ہے
کوئی رشوت نہیں ملی مجھ کو
یہ قیامت کی اک نشانی ہے
مزاح نگار کا سارا نزلہ اپنی بیگم پر ہی گرتا ہے جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے اپنی بیگم کے کاندھے پر بندوق رکھ کر کہہ دیتا ہے جس قطعہ کا ذکر اب میں کرنے جارہا ہوں اس کی سب سے بڑی خاص بات بیگم شاد کا شاد کو دیا ہوا وہ حسین ’خطاب‘ ہے جو سند کا درجہ رکھتا ہے اور یہ شاد کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے اسے مخفی نہیں رکھا بلکہ بہ بانگِ دہل اسکا اعلان بھی فرما دیا۔
پوچھا بیگم سے مشک یا دربار
کون سی خوشبو تم کو پیاری ہے
بولیں مجھ سے کہ تم تو ’احمق‘ ہو
خوشبو نوٹوں کی سب پہ بھاری ہے
شاد کے ایک نصیحت آمیز شعر پر ہی اپنی بات ختم کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ شاد کا یہ ادبی سفر
جاری و ساری رہے شعر کہتے رہیں محفلیں گرماتے رہیں خوشیاں لٹاتے رہیں لوگوں کی داد پاتے رہیں اور اگلے مجموعے کی تیاری بھی کرتے رہیں اس امیدکے ساتھ کہ اگلا مجموعہ پہلے سے بہتر نہیں بلکہ بہت بہتر ہوگا۔
انہیں کچھ دے کے بھیّا ٹال دینا
پولیس والوں سے منہ ماری نہ کرنا
(خاص طور پر کراچی کی پولیس سے)