در شہوار خان
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ… لا الٰہ الا اللہ… آنکھوں سے جاری آنسوئوں اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ پیار سے اپنے والد کی پیشانی اور بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دل کی بے ترتیب دھڑکنوںکے ساتھ آغا خان اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں اپنے والد کے بستر کے ساتھ اپنی بہنوں اور والدہ کے ہمراہ کھڑی اپنے پیارے ابو کو کلمہ طیبہ کی ترغیب دلا رہی تھی کہ اچانک ان کے حلق سے کچھ آوازیں نکلیں کہ جیسے وہ میرے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھ رہے ہوں۔ دل و دماغ کی عجیب جنگ چل رہی تھی۔ دل میں طرح طرح کے خوف سمٹ آئے۔ آنے والے وقت کی نزاکتیں، میری والدہ کا اس ناگہانی حادثے کے غم سے سفید چہرہ، میرے اکلوتے بھائی کی فون پر لرزتی ہوئی آواز، اچانک شفقتِ پدری سے محروم ہوجانے کا خوف… کیا ہونے والا ہے؟ چند گھنٹے اسی طرح خوف و امید میں ڈوبتے نکلتے گزر گئے کہ دل نے سوچا کہ کیوں؟ کیا صرف نرس کے یہ کہہ دینے سے کہ آپ لوگ اپنے والد کو دیکھ لیں، یہ چند گھنٹوں کے مہمان ہیں… کیا میں ناامید ہوجائوں؟ نہیں ’’اے میرے رب میرے والد کو صحت یاب کردے، آپ تو صرف کُن کہیں گے اور سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا… اے میرے رب… اے میرے رب…‘‘ اور پھر پانچ دن کوما میں رہنے کے بعد ابو اس دنیا کے قافلے کو چھوڑ کر دوسری دنیا چلے گئے۔
میرے والد کا نام عبدالرئوف خان تھا۔ جماعت اسلامی کے انتہائی مخلص حامی تھے۔ انہوں نے میری امی کو جماعت اسلامی کے کام کے لیے پوری اجازت دی تھی۔ انہیں اس دنیا سے ابدی دنیا کی طرف گئے سوا سال سے اوپر ہوگئے۔ ایسی دنیا جس کا ویزا لینا نہیں پڑتا بلکہ دے دیا جاتا ہے، جہاں سے کوئی ریٹرن فلائٹ نہیں آتی… ایک سال گزر گیا… مگر کچھ بھی تو نہیں بدلا… دنیا اپنی تیز رفتاریوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ میرے ابو کا وہ گھر جسے انہوں نے یہ کہہ کر بنایا کہ اب شاید میں اپنی زندگی کا آخری گھر بنارہا ہوں۔ اپنے تجربات، ماہرانہ صلاحیتوں، پیسہ، طاقت سب اس گھر پر لگا دیا۔ وہ بھی ویسا ہی اپنے بنانے والے کی محبتوں کی عکاسی لیے کھڑا ہے۔ کسی کو بھی تو کوئی فرق نہیں پڑا۔
لیکن نہیں… فرق پڑا ہے، ان کی زندگی کی ساتھی کو جس نے اپنی زندگی کے 44 سال نرم گرم موسموں میں ان کے ساتھ گزارے… ہاں فرق پڑا ہے ان پھولوں اور درختوں کو جو اپنے مالی کے انتظار میں پیاس سے مرجھا گئے، جو ابو نے بڑی محبت سے کہاں کہاں سے جمع کرکے پورے گھر کے اندر باہر لگائے تھے… ہاں فرق پڑا ہے ہم چار بہنوں اور ہمارے بھائی کو جو یہ سمجھتے تھے کہ ابو تو ہیں ناں… پھر ہمیں کسی مسئلے میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے! ابو کے پاس کوئی نہ کوئی حل ہوگا ہمارے مسئلے کا۔ ہاں ہمیں فرق پڑا ہے… ہمیں لگتا ہے کچھ کھو گیا ہے۔ ذہن حالات کو تسلیم کرتا ہے مگر دل بے قرار ہے۔ سال گزر گیا مگر ہر وہ کام کرتے ہوئے ابو کی یاد آتی ہے جو میں نے اُن سے سیکھے۔ گھر اور جماعت کے کام منظم طریقے سے کرنا، پیپر ورک، فائلنگ، ہر کام کو لکھنا، ہر کاغذ پر تاریخ ضرور ڈالنا، ہفتے بھر کے کاموں کی فہرست بنانا… یہ سارے کام میں نے اپنے والد سے سیکھے۔
میرے والد صاحب نہایت محنتی اور آرگنائزڈ آدمی تھے، اپنے کاموں میں کم پر کمپرومائز نہیں کرتے تھے، جیسا سوچتے اپنے کام کو ویسا ہی پرفیکٹ کرنا چاہتے تھے، چاہے اس میں ان کو کتنی ہی محنت، پیسہ اور وقت لگانا پڑ جاتا۔ کنسٹرکشن کے کام میں سخت محنت اور کراچی کے سخت موسموںکے تھپیڑوں نے میرے والد کے اوپر بھی سخت اثرات ڈالے جو کہ کسی نہ کسی شکل میں ان کی زندگی کے مختلف ادوار میں سامنے آتے رہے۔ کم گو ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنا نقطۂ نظر نہ سمجھا پاتے، چاہے دل میں ان کے لیے کتنے ہی اچھے خیالات رکھتے ہوں۔
اپنی بہنوں کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ الحمدللہ چاروں بہنیں اپنے بھائی کی ہر لحاظ سے مدد کرنے اور خیال رکھنے کی گواہی دیتی ہیں۔ میرے ابو کی بڑی بہن جو کہ بے اولاد ہیں، ان کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ وہ آج تک ہر ملاقات پر ایسے روتی ہیں جیسے کوئی ماں اپنے بچے کے بچھڑنے پر بے چین اور بے قرار رہتی ہے۔ پھوپھو سے جب ملو، ابو کی جدائی کا غم تازہ ہوجاتا ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے ابو کے ایک مزدور کو جب ابو کے انتقال کی خبر ملی تو اس نے تعزیت کے لیے فون کیا، کہنے لگا ’’باجی! رئوف صاحب بہت اچھا آدمی تھا، ہم سب مزدوروں کی تنخواہ وقت پر دے دیتا تھا، جو خود دوپہر کے کھانے میں اپنے لیے لاتا وہی ہمارے لیے بھی لاتا تھا۔ بلیوں اور پرندوں کا کھانا بھی ضرور ساتھ لاتا۔ رئوف صاحب کی گاڑی کی آواز سنتے ہی بلیاں اور پرندے جمع ہوجاتے تھے۔‘‘ رب کریم یہ تمام گواہیاں میرے ابو کے حق میں قبول فرمائے۔
رب کریم نے ابو کو مال، فرماں بردار اولاد، صحت، طاقت الحمدللہ ہر نعمت سے نوازا تھا، اور وہ ہمیشہ اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں پر اپنے رب کے احسان مند بھی رہتے تھے۔ انتقال سے چند ماہ قبل دعائوں کو عربی میں یاد کرنے کی کوشش میں تھے۔ نمازیں طویل ہوگئی تھیں، زیادہ تر خاموش رہتے، جو کام پہلے وہ آسانی سے کرلیتے اب نہ کرپانے کا ملال اور بے بسی ان کے چہرے اور الفاظ سے جھلکتی تھی۔ وہ اس بات کو قبول نہ کرپائے کہ جب انسان بڑھاپے کے شکنے میں آجاتا ہے تو پھر دل چاہنے پر بھی بہت سارے کام خود نہیں کر پاتا، اس کے لیے اسے اپنے اردگرد کے لوگوں خصوصاً اوِلاد سے مدد لینی پڑتی ہے۔ مگر ان کی خودداری کو یہ گوارا نہ تھا۔
جب بھی والد صاحب کے گھر جاتی ہوں ان کے کپڑے، رائٹنگ ٹیبل، بستر وغیرہ دیکھ کر آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں کے سامنے 30 اپریل 2017ء کے واقعہ کی جھلکیاں آنے لگتی ہیں ۔ رب کریم میرے والد کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے، آمین۔