بلال شیخ
’’آئے ہائے! سب خراب کردیا بیڑا غرق ہو تیرا، چل بھاگ ادھر سے ہش ہش، لاڈو نے بلی پالی ہے اور نقصان میرا ہوتا ہے‘‘۔ صحن میں بچھی چادر پر اماں نے پاپڑ سوکھنے ڈالے تھے گھڑی بھر کے لیے باورچی خانے میں کیا گئیں پیچھے سے بلی نے کیٹ واک کرکے پاپڑوں کی بلے بلے کردی تھی اب پچھلے دس منٹ سے وہ سجو اور اس کی پیاری بلی کی ایسی کی تیسی کر رہی تھیں۔
سجو نے پہلے تو تکیہ اپنے کان پر رکھ کر کروٹ بدلی مگر اماں کی آواز مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے زیادہ اچھی تھی جو اس کے کمرے تک پہنچ رہی تھی۔نی، سجو دن چڑھ آیا اٹھ جا، جائی نا سسرال تینوں لگ پتہ جاوے۔ (ایسے طعنے اماں دن میں چار بار تو دیتی ہوں گی) سجو کو کچھ برا لگے نہ لگے سسرال کے نام پر آگ ضرور لگ جاتی تھی۔ جھٹ اٹھ بیٹھی چپل پاوں میں ڈالی اور گھسیٹتی باہر نکل آئی کیوں شور ڈالا ہوا ہے اماں تونے سویرے سویرے۔ ماں صدقے! خیر سے سورج چمک رہا ہے پتر سب چرند تے پرند کم تے لگ گئے بس تو ستی رہ پلنگ تے۔
اف اماں پتا ہے مینوں چرند پرند دا او کم تے لگ گئے ماسی جیراں کے گھر سب کام مک گئے ہوں گے، پروین چاچی کی بہو نے کھانا بھی پکا لیا ہوگا۔ اس کے چھ سات ننھے کاکے مٹی میں کھیل رہے ہوں گے۔ بے بے تندور پہ روٹیاں ڈال رہی ہوں گی، سب ویلے چنگے تے اک میں ہی جھلی آں۔سجو نے ہاتھ ہلا ہلا کر دن بھر کی روداد خود ہی نشر کردی اس سے پہلے کہ اماں یہ تفصیل اسے ہر روز کی طرح بتاتیں۔ ہا ہائے! نی سجیلہ کنی گز بھر زبان ہوگئی تیری شہر جاکے۔ اس نشریات کو پڑوس والی رانی بڑے مزے سے دیوار سے لگ کر دیکھ رہی تھی اس کے منہ سے ہنسی کا فوارہ جاری ہوگیا۔ سجو جو پہلے ہی غصے میں بھنی بیٹھی تھی اس کی ہنسی سن کر تو اور بھڑک گئی۔
تجھے اور کوئی کم نئیں، جب سے رانی کی بات پکی ہوئی تھی سجو کو تو وہ اور بھی بری لگنے لگی تھی۔ کالی بتھنی پکوڑی ناک والی رانی جس کا منگیتر سعودیہ میں الیکٹریشن تھا اور رانی ایسے فخر سے اس کے قصیدے پڑھتی جیسے وہ وہاں کا ولی عہد ہو۔ دل ہی دل میں رانی کو القابات سے نوازتی جمائیاں لیتی وہ اندر آگئی۔ماگھ کا مہینہ ختم پہ تھا سارے کسان اب مکئی کے لیے اپنی اپنی زمینیں تیار کر رہے تھے۔ مکئی ان کے لیے چاندی تھی اور کپاس اور گندم سونا مگر ان فصلوں میں جان توڑ محنت لگتی تھی اور پیسے اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ملتے تھے۔ سجو نے اپنی زندگی میں اماں ابا کو محنت کرتے ہی دیکھا تھا ابھی کچھ ہی سال تو ہوئے تھے جب رانی کے منگیتر نے ابا کو بھی سعودیہ بلا لیا تھا ابا پہلے شہر میں ڈرائیوری کرتا تھا۔
ابا کے دو ہی خواب تھے پکا گھر اور سجو کی پڑھائی وہ اسے ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا مگر سجو نے اتنی ہی محنت کی جتنی بمشکل پاس ہونے کے لیے چاہیے ہوتی ہے۔ لہذا میڈیکل کالج میں جانے کے بجائے سجو بی اے، بی ایڈ کرکے ڈاکٹر تو نہ بن سکی ٹیچر بن گئی۔ مگر زبان کی تلخی اور بڑھتی عمر نے مزاج میں تیزی بڑھا دی تھی جب کبھی چھٹیوں میں ہاسٹل سے گھر آتی تو کچھ دن اچھے گزرتے پھر ماں بیٹی کی دوستی کم کم ہی نظر آتی۔ کمرے میں جیسے واپس آئی اس کا فون بج اٹھا۔’’سلام ابا‘‘، چہرے پہ خوشی دوڑ گئی۔ جیندی رہ پتر کیسی ہے تو او ماں نال لڑائی تو نا نا ہوئی دوستی ہوگئی ہے نا پتر! (ابا کی عادت تھی جب بھی بولتے اپنی ہی بات کرتے دوسروں کی کم سنتے تھے) کدو، سجو نے مایوسی سے کہا۔ اماں صرف ڈانٹتی ہے ابا سجو نے منہ بنا کر کہا۔ نا پتر کدو نئیں کیندے، اے تو وہ سبزی جو ساڈے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دی پسندیدہ ہے پتر مذاق نا اڑائیں چل معافی مانگ شاباش میرا بچہ، سجو نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
ڈھیر ساری باتیں اور اماں کی شکایتیں لگا کر سجو کو تسلی ہو گئی تھی، ’’اچھا ابا میں دو دن بعد لاہور واپس جا رہی ہوں اپنا بہت خیال رکھنا‘‘۔ اس کی بھوک بھی چمک گئی تھی اس لیے کمرے سے باہر نکل آئی دھوپ پورے صحن میں پھیل گئی تھی باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے اماں کے کمرے سے گزری تو کھلی کھڑکی سے اسے اماں نظر آئیں جو ٹرنک کھولے کپڑے پلنگ پر رکھ رہیں تھیں۔ زرق برق ریشمی کپڑے رضائیاں اور جانے کیا کیا نم آنکھوں سے اماں ان کپڑوں کو رکھتی جا رہی تھیں شاید ان کا ارادہ ان جاتی سردیوں میں کپڑوں کو دھوپ لگانے کا تھا۔
سجو کی بھوک اچانک ختم ہوگئی یہ سارے کپڑے اماں تھوڑا تھوڑا کرکے جمع کر رہی تھیں کہ ادھر سجو کے جوڑ کا رشتہ ملے ادھر وہ اس کے ہاتھ پیلے کریں۔ مگر اس کے خاندان میں کب کسی لڑکی نے شہر جاکر پڑھائی کی تھی اور اب نوکری بھی کررہی تھی یہ تو ابا کاخواب تھا ورنہ اماں نے خوب شور مچایا تھا۔ برادری والوں نے الگ باتیں بنائی تھیں۔ سجو لاکھ ماں سے بدتمیزی سے بات کرتی مگر وہ ان کا دکھ سمجھتی تھی لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی یہ اسکول کامسئلہ تو تھا نہیں کہ وہ ڈانٹ کر سب سیدھا کردے۔ جو رشتے آتے وہ کبھی اسے پسند نہ آتے تو کبھی ابا کو انکار ہوتا۔ اسی ہاں نہ میں سجو کے بالوں میں چاندی اترنے لگی تھی اور اماں کے سر میں سفیدی۔
وہ پلٹنے لگی تو اماں کی بڑبڑاہٹ نے رکنے پرمجبور کردیا، ’’اک میں ہی رہ گئی ہوں باتیں سننے کو باقی سب اپنی اپنی دنیا وچ موجاں کرو۔ اب رانی کا بھائی بھی پسند نہیں آیا فریدے کو اماں نے ابا کانام لیا، کیا ہوگیا جو وہ مکینک ہے گاڑیوں کا سارا کام آتا ہے۔ لاکھوں نہیں تے ہزاروں تو کماندا ہے۔ سجو کی عمر نکل جائے گی تو کون پوچھے گا اس کی عمر ساری لڑکیاں ویاہ گئیں کاکے والی ہوگئیں۔ ہائے میرے ربا‘‘۔ اماں کا شکوہ جاری تھا۔ سجو وہاں سے آگے بڑھ گئی۔دو دن بعد اس نے جانا تھا سوچ کی رفتار بڑھا کر اس نے سب کچھ سوچا بچپن سے اب تک ماں سے اونچا ہی بولا تھا نخرے دکھا دکھا کے ہر کام کروائے تھے اور ویسے بھی اس کے کون سے اونچے خواب تھے جس کے پورے نہ ہونے سے اسے تکلیف ہوتی ساری زندگی ماں کو دکھ دیا تھا اس کوخوشی دے دوں تو کیا برا ہوگا؟
اور اس کے منع کرنے پر کل کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ بچیوں کو تعلیم دلوانے سے ڈریں کہ وہ بڑی ہوکر والدین کے مناسب فیصلوں کا انکار کرتی ہیں پڑھ لکھ کر ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ سجو نے سوچتے ہوئے دل کوبھی مطمئن پایا اور ابا تو ویسے بھی سجو کی رضامندی چاہتا ہے۔ سجو نے فیصلہ رانی کے بھائی کے حق میں دے دیا تھا اور وہ اماں کے کمرے کی جانب چل دی تھی۔