آمنہ زینب
آج دوپہر آفس میں ایک اہم میٹنگ تھی۔ میں تیار ہوکر تقریبا ساڑھے گیا رہ بجے گھر سے نکال رہا تھا تو ایک پرانے دوست کی کال موصول ہوئی۔ سلام دعا کے بعد اس نے بتایا کہ وہ پاکستان آیا ہوا ہے اور مجھ سے ملنے کا خواہشمند ہے۔ اس کی بات سن کر میں نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی،میٹنگ شروع ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ آدھے گھنٹے میں میرے گھر کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں آجائے وہیں ملاقات ہوجائے گی۔
میں نے اپنے ضروری کاغذات لیے اورگھر سے نکل پڑا۔ میرا ارادہ زید سے ملاقات کے بعد آفس جانے کا تھا۔ زید میرے پہنچنے سے کچھ دیر پہلے ہی ریسٹورنٹ پہنچ چکا تھا۔طویل عرصے بعد دیرینہ دوست سے ملاقات اور باتوں کے دوران وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہ ہوا۔گئے دنوں کا ذکر کرنے بیٹھے تو ہم نے بولنے میں خواتین کو بھی مات دے دی۔ جب اچانک نظر گھڑی پر گئی تو گھڑی ڈھائی بجارہی تھی۔دوبارہ ملنے کے عہد پراسے خدا حافظ کہا اور آفس کی راہ لی اور اپنی بے دھیانی پر خود کو جی بھر کر کوسا۔
آفس جلدی پہنچنے کے لیے شارٹ کٹ راستے کا انتخاب کیا،ابھی کچھ ہی دورگیا تھا کہ گاڑی ایک بازار میں جا پہنچی ۔ جہاں خواتین اپنا محبوب ترین مشغلہ سرانجام دینے میں مصروف تھیں۔ہر اسٹال اور تقریبا ہر دکان پر ہی خواتین کا ایسا جم غفیر موجود تھا جیسے یہاں اشیائے خورد نوش مفت تقسیم کی جارہی ہوں۔اسٹال اور ٹھیلے والوں نے ویسے ہی روڈ کو گھیر رکھا تھا اور رہی سہی کسر خواتین کے اس ہجوم نے پوری کردی تھی۔میں نے نہایت کوفت بھرے انداز میں ہارن دیامجھے میٹنگ سے قبل آفس پہنچ کر مینجر صاحب سے چنداہم نکات پر بات چیت کرنی تھی۔
میں نے گھڑی دیکھی ساڑھے تین ہونے والے تھے۔ میں نے ایک بار پھر ہارن دیا لیکن خریداری میں مصروف خواتین ٹس سے مس نہ ہوئیں۔اب کی بار میں نے مستقل ہارن دیا تو چند خواتین نے میری اس گستاخی پر مجھے غصے سے دیکھا اور اگلے ہی لمحے دکان دار کی جانب متوجہ ہوگئیں۔کچھ دیر یہی سلسلہ جاری رہا لیکن وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئیں۔مجھے اکثر حیرت ہوتی تھی بازاروں میں لاتعداد خواتین کو دیکھ کرلیکن آج وہ حیرت غم و غصے میں بدل گئی تھی۔
گلی اتنی تنگ تھی کہ میں چاہ کر بھی وہاں سے گاڑی نہیں نکال سکتا تھا۔ میں نے گاڑی ریورس کی اور مناسب جگہ دیکھ کر پارک کی۔ وہاں سے اتر کر ٹیکسی لی اور جیسے تیسے کرکے آفس پہنچا۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہواکے میٹنگ آدھے گھنٹے قبل ختم ہوچکی ہے ۔باس کے غیظ و غضب کا شکار ہونے کے بعد نہایت خراب موڈ کے ساتھ گھر کی راہ لی۔گھر میںداخل ہوتے ہی بیگم سے پانی مانگا۔ ابھی پانی پینے لگا ہی تھا کہ بیگم نے کہا ،’’یاد ہے نا آپ کو،آج شاپنگ کرنے جانا تھا‘‘ ۔