وردہ جاوید
زارا ایک ضدی اور خودسر بچی تھی۔ وہ تیسری جماعت کی طالبہ تھی اور اس کی ایک عادت بہت بری تھی وہ اپنی غلطی نہیں مانتی تھی۔ اس کے والدین اس کی اس عادت سے پریشان تھے لیکن وہ اس کی یہ بری عادت چھڑانے میں ناکام رہے۔ ایک روز زارا اسکول سے گھر لوٹی تو بہت غصے میں تھی۔ امی جانی کے پوچھنے پر اس نے بتایا کے اس کی استانی نے اسے ہوم ورک نہ کرنے پر سزا دی۔ امی جانی نے جب اس سے ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو وہ مزید ناراض ہوگئی۔
“آپ کو مجھ سے بالکل بھی محبت نہیں ہے۔ میں اتنا سارا کام کرکرکے تھک جاتی ہوں ، میرے ہاتھوں میں درد ہونے لگتا ہے۔” وہ رونے لگی اور روتے روتے سو گئی۔ رات میں ابو جب گھر آئیں تو زارا اٹھ چکی تھی۔ کھانے کے بعد وہ ابو کے پاس گئی اور اس نے ابو کو صبح کا واقعہ سنایا اور ضد کی کے آپ استانی کو ڈانٹیں۔ ابو زارا کی بات پر حیران رہ گئے۔
“لیکن بیٹا استاد تو ہمیں ہماری بھلائی کے لیے ڈانٹتا ہے۔” ابو نے اسے پیار سے سمجھایا
“ابو ساری غلطی مس عرشی کی ہے ، انہوں نے مجھے سزا دی ہے انہیں بھی سزا ملنی چاہیے،۔” زارا اب بہت بدتمیزی پر اتررہی تھی۔ ابو کو یہ بات سمجھ آگئی تھی کے کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں ڈانٹنے یا مارنے سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا انہوں نے زارا کو اپنی گود میں بٹھایا اور پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولے۔
“آج میں اپنی بیٹی کو ایک کہانی سناؤں گا۔”
کہانی کا نام سن کر زارا خوش ہوگئی۔ ابو نے سنانا شروع کیا۔
“ایک دفعہ سکندر اعظم اپنے استاد ارسطو کے ساتھ ایک جنگل سے گزررہے تھے راستے میں ایک ندی کو پار کرنا تھا۔استاد ارسطو نے کہا کے ندی کو پہلے میں پار کروں گا کیونکہ میں استاد ہوں لیکن سکندر نے ضد پکڑلی کے پہلے وہ ندی پار کرے گا آخر کار اس کی ضد کے آگے مجبور ہوکر استاد ارسطو نے اسے ندی پارکرنے کی اجازت دے دی ، جب سکندر ندی پار کرچکا تو اس نے اپنے استاد کو کہا کے آپ اس راستے سے آجائیں یہ محفوظ راستہ ہے۔ ارسطو اس راستے پر سے ندی پار پہنچا تو اس نے سکندر سے کہا، :”تم نے میری بات نہ مان کر آج میرا مان توڑ دیا۔” اس پر سکندر بولا۔
“استاد محترم میں آپکے مان کو توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے بس اس خیال کے تحت ندی پار میں پہل کی کے اگر کوئی دشواری پیش آتی تو سکندر کوئی ارسطو تیار نہیں کرسکتا لیکن ارسطو کئی سکندر تیار کرسکتا ہے۔ سکندر یہ بات جانتا تھا جو طالب علم استاد کا ادب و احترام کرنا جانتا ہے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔”ابو نے اپنی کہانی ختم کی تو زارا بہت شرمندہ تھی
“ابو سکندر کتنا اچھا ہے نہ اس نے اپنے استاد کے لیے اپنی جان بھی خطرے میں ڈال لی اور میں کتنی بری ہوں۔” وہ اپنا منہ دونوں ہاتھوں میں چھپاکر رونے لگی تب ابو نے پیار سے اس کا ہاتھ چہرے پر سے ہٹایا اور بولے۔
“میری پیاری بیٹی۔ سب سے اچھا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنی غلطی کو مان لے۔”زارا ابو کی بات سن کر اب مطمئن ہوچکی تھی اور اس نے عہد کیا کے وہ اب کبھی بدتمیزی نہیں کرے گی اور اپنی غلطی کو ماننے کی کوشش کرے گی۔