توبہ

307

مریم شہزاد
کیا ہوگیا ہے احمد اور عفان، ہر وقت انگلیاں منہ میں ہوتی ہیں، کیوں ناخن دانتوں سے کترتے رہتے ہو، نانو نے دونوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نانو، میں ناخن تو نہیں کھاتا‘‘ احمد نے کہا ۔
’’ اور میں تو بس جو ناخن کی کھال پہ کچھ لگا ہوا تھا وہ ہٹا رہا تھا‘‘ عفان نے بھی کہا۔
’’اچھا آپ دونوں تو اچھے بچے ہو، وہ تو گندے بچے ہوتے ہیں جو ناخن کھاتے ہیں، چلو آج میں تم سب کو ایک ایسے بچے کی کہانی سناؤ گی جو ہر وقت ناخن منہ سے کاٹتا رہتا تھا،‘‘۔
’’اچھا بالکل نئی کہانی!!!‘‘
’’اس بچے کا نام کیا تھا‘‘۔
’’آپ کب سنائیں گی‘‘ بچوں نے سوال پوچھنا شروع کردیے۔
’’جب دوپہر کو آرام کے لئے لیٹیں گے تب سناؤں گی‘‘ نانو نے کہا۔
اور جب سب کاموں سے فارغ ہو کر کھانا کھا کر سب آرام کے لئے لیٹے تو بچے فوراً آگئے نانو نے ان کو کہانی سنانی شروع کی۔
’’ایک بچہ تھا، اس کا نام شانی تھا،۔۔۔‘‘۔
’’شانی تو اچھا بچہ ہوتا ہے تو آپ تو گندے بچے کی کہانی سنارہی تھی‘‘ احمد نانو کی بیچ میں بولا۔
’’ہاں تو وہ اچھا بچہ تھا مگر اس میں ایک گندی بات تھی کہ وہ ہر وقت اپنے ناخن منہ میں لیتا رہتا تھا سب اس کو بہت سمجھاتے کہ یہ گندی بات ہے، مگر وہ کسی کی بھی بات نہیں مانتا، کھیلتے ہوئے، پڑھتے ہوئے، کھانا کھاتے ہوئے ہر وقت اس کی انگلیاں اس کے منہ میں ہوتیں، سب ہی اس کی اس عادت سے پریشان تھے ایک دن وہ اپنے امی ابو کے ساتھ پارک گیا،۔۔۔۔‘‘
احمد پھر بول پڑا کونسے والے پارک، ہل پارک یا سامنے والے پارک؟
’’نانو نے کہا،‘‘ نہ ہل پارک نہ سامنے والے پارک بلکہ وہ زو zoo والے پارک گیا جہاں بہت سارے جانور بھی ہوتے ہیں۔
’’وہاں، میں بھی ایک دفعہ اسکول کے ساتھ گیا تھا،‘‘ یوسف نے کہا۔
’’اور میں امی ابو کے ساتھ، وہاں اتنا بڑا ہاتھی بھی تھا‘‘ علی بولا۔
’’اچھا کہانی تو سننے دو‘‘ عفان نے کہا اور پھر سے ناخن منہ میں لے لیا۔
نانو نے اس کو دیکھا تو اس نے جلدی سے ہاتھ نیچے کرلیا ’’ہاں تو میں کہ رہی تھی کہ ایک دن وہ زو گیا تو جانوروں کو شوق سے دیکھ رہا تھا اور حیران بھی ہو رہا تھا اور اپنی عادت سے مجبور ہو کر ناخن منہ سے دانتوں سے کاٹ رہا تھا جب وہ بولنے والے طوطے کے پنجرے کے پاس آئے تو طوطے نے شانی سے پوچھا ’’تم کیا کھا رہے ہو؟‘‘
شانی نے کہا ’’کچھ بھی نہیں‘‘
’’نہیں ابھی تمہارے منہ میں تمہارا ہاتھ تھا تو ضرورتم کچھ کھا رہے تھے‘‘ طوطے نے کہا۔
’’نہیں وہ تو میں اپنے دانتوں سے اپنا ناخن کاٹ رہا تھا‘‘ شانی نے کہا طوطا شانی سے بات کرتے کرتے بالکل اس کے پاس جالی پر آگیا۔
’’اچھا مجھے دکھاؤ‘‘ طوطے نے شانی کو ناخن دکھانے کو کہا شانی نے اپنی انگلی پنجرے کی جالی کے قریب کردی جس کا اس نے ابھی ابھی ناخن کھایا تھا طوطے نے جھٹ اس کی انگلی اپنے بڑے بڑے ناخنوں سے پکڑ لی، اور بولا۔
’’اچھا تو تمہاری انگلی بہت مزے کی ہوگی جب ہی تو تم اس کو کھا رہے تھے، میں بھی کھا کے دیکھو گا‘‘
’’ارے نہیں، چھوڑو، میری انگلی چھوڑو،‘‘ شانی نے اپنی انگلی پنجرے کی جالی سے نکالنے کی کوشش کی مگر طوطے نے اپنے ناخن زور سے اس کی انگلی پکڑ لی، شانی نے اور طاقت لگائی کہ اپنی انگلی چھڑالے مگر اس نے جو ناخن کترا ہوا تھا اس میں بھی اور تکلیف ہونے لگی اور پھر طوطا اپنے ناخن چبا رہا تھا تو اس میں سے خون بھی نکلنے لگا شانی زور زور سے رونے لگا اس کے امی ابو بھی بہت پریشان ہو رہے تھے کہ طوطا پوری کوشش کر رہا تھا کہ انگلی پہ کاٹ لے اچانک ابو کو ایک خیال آیا وہ پیچھے چاٹ والے کے پاس گئے اور اس سے ایک ہری مرچ لے کر آئے طوطے کو ہری مرچ دکھائی تو اس نے فوراً انگلی چھوڑ دی اور ہری مرچ کھانے آگیا کیونکہ اس کو وہ بہت پسند تھی شانی نے جلدی سے اپنی انگلی نکالی اس میں سے خون بہہ رہا تھا امی نے اس کو ٹشو سے صاف کرکے سنی پلاسٹ لگایا اور پھر وہ لوگ گھر آگئے شانی پورے راستے روتا رہا، پھر اس نے توبہ کرلی کہ اب ناخن نہیں کھائے گا اور جب بھی وہ ناخن منہ میں لینے لگتا ہے اس کو وہ تکلیف یاد آجاتی ہے اور وہ اپنا ہاتھ نیچے کرلیتا ہے‘‘۔
نانو نے کہانی ختم کی اور احمد اور عفان کو دیکھا جو کہانی غور سے سنتے ہوئے ناخن کتر رہے تھے۔
’’مگر نانو یہاں تو طوطا نہیں ہے‘‘ علی نے کہا تو نانو نے کہا۔
’’ہاں طوطا تو نہیں ہے مگر چڑیا، کوا، بلی اور جو یہ کتا باہر روڈ پر ہے کسی کا بھی دل چاہ سکتا ہے کہ احمد اور عفان کی انگلی چکھ کے دیکھ لے‘‘ احمد اور عفان نے جب یہ سنا تو جلدی سے اپنے ہاتھ پیچھے چھپا لیے اور علی اور یوسف زور زور سے ہنسنے لگے۔
بعد میں احمد اور عفان نے چپکے سے آکر نانو کو بتایا کہ اب وہ ناخن منہ میں نہیں لیں گے۔

حصہ