سنڈے میگزین: اپنی تعلیمی کامیابیوں کے بارے میں بتائیں؟
مژدہ سبحان: اللہ کا شکر ہے کہ میں نے ہمیشہ ہی نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ میٹرک پشاور بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی‘ ایف ایس سی میں پہلی پوزیشن لی‘ انٹری ٹیسٹ میں فرسٹ پوزیشن لی‘ میڈیکل کے چار سال میں اوّل درجے میں رہی اور پانچویں سال میں پہلی پوزیشن لی۔ مجھے اور گھر والوں کو اندازہ تھا کہ میرے گولڈ میڈل ہیں لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنے زیادہ ہوں گے۔
سنڈے میگزین: آپ کا اسکول اور اسکول کے اساتذہ کیسے تھے‘ آپ پر ان کی کوئی خاص توجہ تھی؟
مژدہ سبحان: میرا اسکول نیم سرکاری اسکول کی طرح تھا‘ کوئی اعلیٰ درجے کے اسکول کے طرح نہیںتھا‘ نہ ایسا تھا کہ اساتذہ کی کوئی خاص توجہ میری طرف تھی‘ ہاں ایسا تو ہوتا ہی ہے کہ اچھے نتائج لانے والے بچوں کی طرف اساتذہ کی نظر ہوتی ہے۔
سنڈے میگزین: آپ کے خیال میں استاد کی کون سی خوبی طالب علموں کو آگے بڑھانے کا سبب بنتی ہے؟
مژدہ سبحان: استاد کو نرم مزاج اور شفیق ہونا چاہیے تاکہ طالب علم آسانی کے ساتھ ان سے بات کرسکے‘ اپنے مسائل بیان کرے‘ اپنی مشکلات کے حل کے لیے بات چیت کرے‘ طالب علم استاد سے خوف نہ کھائے کہ غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ ہوگی۔ گھبرائے نہیں‘ غلطی کس سے نہیں ہوتی؟ استاد غلطی کو درست کرنے کے لیے ٹھیک رہنمائی کرے نہ کہ طالب علم اپنی غلطی استاد کو بتاتے ہوئے ہی ڈرے اور بجائے استاد کے کہیں اور راہ نمائی کے لیے رجوع کرے۔
سنڈے میگزین: اپنے خاندان کے بارے میں بتائیں؟
مژدہ سبحان: میرے والدین کاتعلق جماعت اسلامی سے ہے‘ ہم تین بہن اور تین بھائی ہیں‘ میری دونوں بڑی بہنیں ڈاکٹر ہیں‘ ایک بھائی ڈاکٹر‘ ایک انجینئر اور ایک چھوٹا بھائی اے لیول کر رہا ہے۔ والد ڈاکٹر ہیں اور والدہ لیکچرار ہیں۔ میرے والدین نے کبھی بھی پڑھائی کے بارے میں دبائو نہیں ڈالا نہ ہی فرسٹ پوزیشن یا ٹاپ کرنے کے لیے خاص طور سے کچھ کہا کہ آپ نے ضرور کرنا ہے۔
سنڈے میگزین: اتنی زبردست کامیابی کے لیے آپ نے کتنی اور کیسے محنت کی؟ آج کے طالب علم کو آپ کیا مشورہ دیتی ہیں؟
مژدہ سبحان: میں نے اپنے پورے تعلیم کے دوران کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی سوائے انٹری ٹیسٹ کے لیے ایک ماہ ٹیوشن پڑھی ہے۔ میں باقاعدگی سے پڑھتی تھی روز کا کام روز کرتی تھی‘ متعلقہ کتابوں سے بھی مدد لیتی تھی۔ عموماً طالب علم بہت سارا کام آخر کے لیے چھوڑ دیتے ہیں جس سے ٹینشن بھی ہوتی ہے اور کمزوری بھی رہ جاتی ہے۔ ابتداء سے سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے آج کے طالب علم کو محنت اور مستقل مزاجی سے کام لینا چاہیے۔
سنڈے میگزین: کیا آپ موجودہ تعلیمی نظام سے مطمئن ہیں؟ تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے آپ کوئی مشورہ دینا چاہیں گی؟
مژدہ سبحان: میں تعلیمی نظام سے مطمئن نہیں ہوں‘ ہمیں مخلوط نظامِ تعلیم کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا‘ ہم اپنے کورس کی کتابیں مغرب سے ڈائریکٹ لے کر آتے ہیں حالانکہ ہمارا کلچر‘ ہماری تہذیب بالکل مختلف ہے‘ ہمیں ان کو اچھی طرح دیکھ کر ان میں تبدیلی کرنی چاہیے تاکہ وہ ہماری تہذیب اور ثقافت کے مطابق ہو جائیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو جائیں‘ اسی طرح میڈیکل میں جو فقہی باتیں ہیں انہیں طالب علموں کو پڑھانا چاہیے۔
سنڈے میگزین: آپ نے مکمل تعلیم پردہ اور نقاب میں حاصل کی اور اتنی زبردست کامیابی حاصل کی اس سلسلے میں آپ کو کیامشکلات پیش آئیں؟
مژدہ سبحان: مخلوط تعلیم کی وجہ سے مشکلات تو ہوئیں لیکن پردے اور نقاب کی وجہ سے کوئی مشکل نہیں ہوئی‘ یہاں پشاور میں بہت زیادہ لڑکیاں پردے اور نقاب میں تعلیم حاصل کرتی ہیں‘ یہ یہاں کا کلچر ہے۔
سنڈے میگزین: مستقبل کے لیے آپ کی کیا منصوبہ بندی ہے؟
مژدہ سبحان: میرا ریڈیالوجی میں اسپیشلائزیشن کرنے کا ارادہ ہے۔
سنڈے میگزین: سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں؟ اپنی دلچسپیوں اور مشاغل کے بارے میں بتائیں؟
مژدہ سبحان: سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو بہت زیادہ وقت نہیں دینا چاہیے‘ تھوڑا بہت استعمال کرنا ٹھیک ہے‘ میں فیس بک پر کچھ وقت دیتی ہوں‘ اس کے علاوہ اچھے ناول پڑھنے کا شوق ہے‘ سلائی سیکھنے کا بھی شوق ہے‘ گھر کو ترتیب دینے اور سجانے کا بھی بہت شوق ہے۔
سنڈے میگزین: مژدہ سبحان آپ کے لیے بہت دعائیں‘ اپنا قیمتی وقت دینے کا بہت شکریہ۔
بچوں پر کبھی تعلیمی میدان میں پوزیشن لینے کیلیے زور نہیں ڈالا، والدہ مژدہ سبحان
مژدہ سبحان کی والدہ کا نام شاندانہ سبحان ہے‘ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے پاکستان اسٹیڈیز میں ماسٹر کیا ہے‘ وہ لیکچرار بھی ہیں‘ ان سے مژدہ کے بارے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ مژدہ میری تیسری بیٹی ہے‘ اس سے بڑی دو بیٹیاں ہیں اس کے بعد میرے جڑواں بیٹھے پیدا ہوئے‘ اس وقت مژدہ ڈیڑھ سال کی تھی لہٰذا توجہ بٹنے سے وہ بہت ضدی ہو گئی اس کا مقابلہ اپنی بڑی بہنوں اور چھوٹے بھائیوں سے چلتا رہتا تھا۔ وہ وقت میرے لیے بہت مصروفیت کا تھا۔ پشاور شہر میں ہمارا گھر تھا‘ میرا سسرال اور میکہ‘ جو گائوں میں تھا‘ وہاں سے مہمان بہت زیادہ آتے تھے‘ میرے بچے چھوٹے تھے میں سروس بھی کرتی تھی۔ پھر بالآخر یہ مشکل مرحلہ طے ہو ہی گیا۔ مژدہ بہت چھوٹی تھی اس کی ضد کو ختم کرنے کے لیے ہم نے اس پر بہت زیادہ توجہ دینی شروع کردی‘ اس کے والد بھی اس سلسلے میں مژدہ پر توجہ دیتے تھے کہ اس کی ضد ختم ہو جائے۔
ذرا ہوش سنبھالا تو مژدہ بہت اچھی اور سمجھ دار بچی بن گئی۔ مذہب کی طرف اس کا بہت رجحان تھا‘ چھوٹی سی تھی بڑا سا دوپٹہ لے کر جائے نماز پر بیٹھ جاتی تھی۔ تعلیمی میدان میں شروع سے بہت اچھی تھی اس کی بہنیں بھی بہت اچھی تھیں‘ انہوں نے بھی گولڈ میڈل لیا۔ بھائی بھی ٹھیک تھے لیکن یقین جانیں میں نے بچوں کو کبھی تعلیمی میدان میں ٹاپ کرنے یا پوزیشن لینے کے لیے زور نہیں دیا میں انہیں کہتی تھی عزت سے پاس ہو جائو بس اور یہ جو ٹاپ کرنے یا پوزیشن لینے کی حرص ہوتی ہے نا تو اس سے بندہ ناشکرا ہو جاتا ہے۔ دوسروں سے جیلس ہو جاتا ہے۔ باپ کی طرف سے بھی کوئی دبائو نہیں تھا۔مژدہ اپنے پورے تعلیمی سلسلے میں صرف ایک دفعہ سیکنڈ آئی شاید تیسری یا چوتھی جماعت میں اس کے علاوہ اس نے کبھی اوّل پوزیشن نہیں چھوڑی۔ تعلیم کے سلسلے میں‘ میں نے صرف ابتدا میں حروف کی شناخت کے لیے اس کی کچھ مدد کی پھر وہ خود ہی پڑھتی تھی۔ کبھی بھی اس نے ٹیوشن نہیں پڑھی۔ ابھی میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ میں اس نے صرف ایک ماہ اکیڈمی جوائن کی تھی جس میں بھی وہ اوّل آئی تھی۔
میں نے تعلیم کے لیے اسے کبھی زور نہیں دیا البتہ نماز کے لیے اور اللہ سے تعلق جوڑنے اور مضبوط کرنے کے لیے بار بار کہا۔ چھوٹی تھی تو میں کہتی تھی کہ ٹھیک ہے ایک نماز پڑھ لو۔ چھوٹی والی جیسی مغرب یا عصر کی نماز پڑھ لو۔ ساتھ وضو اور پاکی کے طریقے سکھائی تھی۔
خیبر اسپتال کی کی طرف سے ہمیں ایک فلیٹ ملا ہوا تھا کیوں کہ سبحان وہاں کام کرتے تھے۔ عصر میں بچے نیچے کھیل رہے ہوتے تھے میں باورچی خانے کی کھڑکی سے انہیں آواز دیتی کہ عصر کا وقت جارہا ہے۔ بچے اوپر آجاتے اور نماز ادا کرتے حالانکہ دوسرے بچے کھیل رہے ہوتے۔
میں بچوں کو یہ ضرور کہتی تھی کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ انہیں سمجھاتی تھی کہ نمبر دینا‘ عزت دینا‘ خوشی دینا‘ کبھی آگے رکھنا اور کبھی پیچھے کر دینا یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ اللہ کے فرائض کی ادائیگی آپ کو لازمی کرنی ہے۔ میرے بچے ماشاء اللہ ایسے ہیں کہ اگر پیپر مس ہو رہا ہے تو ہو لیکن نماز مس نہ ہو۔ اب اس ہفتے مژدہ کی شادی ہے تو اس کو اس سلسلے میں فکر ہے کہ نماز کا دھیان رکھنا ہے کہہ رہی تھی کہ میں باوضو ہو کر پارلر جائوں گی اور وہاں نماز پڑھ لوں گی۔
بچوں کا اللہ سے محبت اور تعلق کو مضبوط کرنا ایک مسلمان ماں کے فرائض میں سے ہے۔ اپنے بچوں کو اللہ سے محبت کرنا سکھانا چاہیے اور اللہ سے محبت کرنے کے لیے لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں سمجھانا چاہیے۔ دنیا کی جتنی اہمیت ہے اسے اتنا ہی اہمیت دینا چاہیے اور آخرت کی جتنی اہمیت ہے اسے اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے۔ ایسا کرنے سے اللہ ہرگز ہمیں نہیں چھوڑے گا‘ وہ یقینا اپنے بندوں سے محبت کرنے والا اور پشت پناہی کرنے والا ہے۔
آج کی ماں سے میں کہوں گی کہ وہ اپنے بچوں کے بچپن کو خراب نہ کریں ان کو کھیلنے کودنے دیں‘ قرآن اور اللہ سے تعلق کے لیے ان کو پیار اور محبت کے ساتھ آمادہ کریں۔ بچوں کو توجہ دیں‘ اپنی سوشل لائف کو مختصر کر دیں بازاروں اور فنکشن کو بچوں کے لیے چھوڑ دیں یہ نہ سوچیں کہ لوگ کیا کہیں گے یہ سوچیں کہ اللہ سے ملاقات کے وقت اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ بچے آپ کے پاس اللہ کی امانت ہیں وہ آپ سے محبت اور توجہ چاہتے ہیں۔نمائش اور دکھاوا خرچا بھی کراتا ہے اور بے سکون بھی کرتا ہے ۔ صرف اللہ کی ناراضی اور اللہ کی خوشنودی کی پروا کریں اللہ آپ کا ساتھ کبھی نہیںچھوڑے گا‘ ان شاء اللہ۔
شاندانہ آپ کا بہت شکریہ‘ اللہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب کرے‘ آمین۔