مہر الدین افضل
قرآن مجید میں انبیا اور اُن کی قوموں کے قصے اس لیے سنائے گئے ہیں، کہ جو لوگ دعوتِ دین اور اقامتِ دین کا کام کررہے ہیں انہیں معلوم ہوجائے کہ اُن سے پہلے، جِن لوگوں نے یہ خدمت انجام دی، انہیں کتنی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ حق کی راہ کبھی پھلواریوں سے نہیں گزری، بلکہ اِس راہ میں ہمیشہ کانٹے اور پتھر ہی پائے گئے ہیں… اور اللہ کے باغیوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ اِس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اللہ سے جیت جائیں گے، اور اس کی پکڑ سے بچ نکلیں گے۔ سورہ الاعراف میں اِس تاریخی بیان کی اِبتدا حضرت نوح علیہ السلام اور اُن کی قوم سے کی گئی ہے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی کے جِس صالح نظام ِ زندگی پر حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے، اُس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح علیہ السلام کے دَور میں رونما ہوا… اور اُس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کو مامور فرمایا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اُس سرزمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں۔ (عراق میں صابیہ کے نام سے ایک چھوٹا سا گروہ پایا جاتا ہے، جن کا ایک مستقل دین ہے… اُن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم حضرت نوح علیہ السلام کی کتاب، اور اُن کے دین پر عمل پیرا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں حضرت نوح علیہ السلام کی پوری کتاب ہمارے پاس موجود تھی، لیکن اِمتدادِ زمانہ کے سبب اَب وہ ناپید ہے… اُس کے مندرجات صرف چار پانچ سطروں میں ہمارے پاس موجود ہیں، جن میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔ ’’خطباتِ بہاولپور‘‘ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم) حضرت نوح علیہ السلام کے اِس قصے سے ملتی جلتی روایات یونان، مصر، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹریچر میں بھی ملتی ہیں اور اِس کے علاوہ برما، ملائشیا، جزائر شرق الہِند، آسٹریلیا، نیوگِنی اور امریکا و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات پرانے زمانے سے چلی آرہی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اُس زمانے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطۂ زمین میں رہتی تھی، اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اِسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے بھلا دیں… اور اصل واقعے پر ہر ایک نے اپنے اپنے خیال کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھادیا۔
انسانی گمراہی کا سبب بھی ایک اور انبیا کی دعوت بھی ایک:
نوح علیہ السلام کی قوم یہ نہیں کہتی تھی کہ کوئی اللہ نہیں ہے، اور یہ کہ اللہ کی عبادت نہیں کرنی چاہیے… ان کی اصل گمراہی شرک تھا۔ یعنی اُنہوں نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں اور عبادت کے حق میں شریک بنالیا تھا۔ پھر اس بنیادی گمراہی سے بے شمار خرابیاں اس قوم میں پیدا ہوگئیں۔ شرک کے نتیجے میں انسان کے اندر سب سے پہلی چیز غیر ذمہ داری پیدا ہوتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے جس کا دامن پکڑا ہوا ہے… جس کا سہارا تھاما ہوا ہے… وہ دنیا میں بھی اُس کو مشکلات سے بچائے گا اور آخرت میں بھی وہی سفارش کرے گا، اور اللہ تو ویسے بھی غفور و رحیم ہے… اس لیے گناہ اور بے راہ روی پر شیر اور دلیر ہوجاتا ہے۔ شرک سے پیدا ہونے والی دوسری بڑی خرابی جو زمین پر فساد، بدامنی اور دہشت گردی کا سبب بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک جھوٹے خدا کو ماننے سے سینکڑوں جھوٹے خدائوں کو ماننا پڑتا ہے… اور یہ جھوٹے خدا تمام مذہبی، سیاسی اور معاشی اقتدار کے مالک بن جاتے ہیں۔ ان جھوٹے اور خودساختہ خدائوں کی نمائندگی کرنے کے لیے ایک خاص طبقہ پیدا ہوجاتا ہے… اور اس طرح انسانوں میں اونچ اور نیچ، اور طبقات کی تقسیم ہوجاتی ہے… اور اجتماعی زندگی ظلم و فساد اور خوف و دہشت سے بھر جاتی ہے۔ ساتھ ہی اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ مشرکانہ ماحول میں تیسری بڑی خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ اپنے دائرے میں ہر شخص خدائی کرنے لگتا ہے۔ وہی شخص جو ابھی اپنے باس کے سامنے بھیگی بلّی بنا ہوا تھا، اپنی کرسی، مسند پر آکر اپنے ماتحتوں کا خدا بن جاتا ہے۔ اس طرح جس کی لاٹھی اُس کی بھینس… اور قبضہ سچا دعویٰ جھوٹا کا اصول پوری سوسائٹی میں جاری ہوجاتا ہے۔ صرف اللہ کی بندگی کے صالح نظام میں اللہ کا قانون چلتا ہے، اور کوئی بھی اس قانون سے آزاد نہیں ہوتا۔ جبکہ مشرکانہ نظام میں جھوٹے خودساختہ خدائوں کا قانون چلتا ہے اور کم زور کے سوا کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آج بھی جن معاشروں میں قانون کی عملداری ہے چاہے وہ مشرکانہ معاشرے ہوں، وہاں صورت حال بہتر ہے، کیونکہ انہوں نے خدائی قانون کے ایک بنیادی ضابطے کو مانا ہوا ہے… لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہیں رہتا۔ مشرکانہ سوسائٹی میں طبقات بن کر رہتے ہیں اور ان کی کشمکش معاشرے کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ آج ہر شہر کا خدا ہے۔ بعض بڑے شہروں میں مختلف علاقوں میں مختلف خدا ہیں… ملک کے مختلف علاقوں میں ہر MNA اپنے علاقے کا خدا اور سب سے بڑا غنڈہ اور بدمعاش ہے، پھر اس کے ساتھ چلنے والے اپنے اپنے علاقے میں اپنا حکم چلاتے اور غنڈہ گردی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک مراعات یافتہ طبقہ صحافیوں، مولویوں، وکیلوں، اور سرمایہ داروں کا ہے۔ اس بدمعاشیہ کے شکنجے میں عام آدمی جکڑا ہوا ہے جو اپنی خدائی جاکر اپنے گھر والوں پر یا پھر اپنے ہی نفس پر جھاڑتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس حالت کو بدلنے کے لیے ساڑھے نو سو سال تک پشت در پشت، انتہائی صبر و حکمت کے ساتھ کوشش کی، مگر عوام کو اُن لوگوں نے اپنے مکر کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ اصلاح کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ آخرکار انہوں نے خدا سے دعا کی کہ ان کافروں میں سے ایک کو بھی زمین پر نہ چھوڑ، کیونکہ اگر تُو نے ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور نمک حرام ہی پیدا ہوگا۔ یہ معاملہ جو حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان پیش آیا تھا بالکل اسی طرح کا معاملہ مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی قوم کے درمیان پیش آرہا تھا۔ جو پیغام حضرت نوح علیہ السلام کا تھا، وہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ جو شبہات قومِ نوحؑ نے سیدنا نوح علیہ السلام کی رسالت پر ظاہر کیے تھے، پھر اُن کے جواب میں جو باتیں حضرت نوح علیہ السلام کہتے تھے، بالکل وہی باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہتے تھے۔ آگے چل کر دوسرے انبیاء علیہم السلام اور اْن کی قوموں کے جو قصے مسلسل بیان ہورہے ہیں اُن میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ ہر نبی کی قوم کا رویہ ایک جیسا اور ہر نبی کی تقریر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سے ہوبہو مشابہ ہے۔ اس سے قرآن اپنے مخاطبوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان کی گمراہی ہر زمانے میں بنیادی طور پر ایک ہی طرح کی رہی ہے، اور خدا کے بھیجے ہوئے معلموں کی دعوت بھی ہر عہد اور ہر سرزمین میں یکساں رہی ہے، اور ٹھیک اسی طرح اُن لوگوں کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہوا ہے، اور ہوگا جنہوں نے انبیاء کی دعوت سے منہ موڑا اور اپنی گمراہی پر اصرار کیا۔ آج ہمارے لیے اس کا پیغام یہ ہے کہ ہم خوب اچھی طرح انبیا کی دعوت اور طریقہ کار کو سمجھ لیں، اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کو جان لیں، انبیا کے اپنی امت کے ساتھ خلوص و محبت کو محسوس کریں۔ عام انسانوں کے لیے اس میں صحیح اور غلط رہنمائوں میں فرق کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے… ان واقعات کو پڑھنے سے رہنمائی کا جو معیار سامنے آتا ہے ایک عام آدمی اچھی طرح صحیح اور غلط رہنما میں فرق کرسکتا ہے۔ قرآن مجید نے لوگوں کے سامنے ایک معیار رکھ دیا ہے کہ کسی لیڈر کو پرکھنا ہو تو اس کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لو۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل بتا رہا ہے کہ وہ راہِ راست پر ہیں۔ اور ان کی سعی و جہد کے پیچھے کسی ذاتی غرض کا بھی نام ونشان نہیں ہے۔ پھر کوئی معقول انسان ان کی بات کو رد آخر کس بنیاد پر کرے گا، سوائے اس کے کہ اس نے اپنی ہلاکت و بربادی کو منتخب کرلیا ہو۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وآخر دعوانا ان لحمدو للہ رب العالمین