پرانا نظام۔۔۔۔ نیا پاکستان

502

زاہد عباس
یہ سر ٹیفکیٹ بھی کیا خوب ہے… دنیا میں آؤ تو پیدائش سر ٹیفکیٹ کی صورت میں دنیا میں آنے کی سند لو، اگر نہیں تو بے نامی کی زندگی گزارو۔ ذرا سا بڑے ہوجاؤ تو نادرا کا رجسٹریشن سر ٹیفکیٹ یعنی ’ب‘ فارم کا دردِ سر۔ اگر نہیں بنوایا تو تعلیمی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ جوان ہوتے ہی شناختی کارڈ کی صورت میں پاکستانی ہونے کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرو، بصورتِ دیگر تارکینِ وطن کہلاؤ۔ ڈومیسائل کے نام سے پنجابی، پختون، سندھی یا بلوچی ہونے کا ٹھپہ لگوا کر لسانیت کی صف میں کھڑے ہوجائو۔ کسی ادارے میں نوکری حاصل کرنے کی خاطر اپنا کیریکٹر سر ٹیفکیٹ اُن لوگو ں سے بنوائو جن کے کیریکٹر معاشرے میں پہلے ہی سوالیہ ہوں۔ غرضیکہ زندگی بھر کاغذ کے ایسے ہی ٹکڑوں کو جمع کرکرکے گھر والوں کے ذمے موت کا سر ٹیفکیٹ لگاکر دنیا سے کوچ کرجاؤ تاکہ آپ کے دنیا میں آنے اور جانے کی پرچیاں کھاتوں میں موجود رہیں۔
ویسے تو ضروری کام کے نام پر بنوائے جانے والے کاغذات کی ایک لمبی چوڑی فہرست انسانی زندگی سے جڑی ہوئی ہے، لیکن اس وقت میں اُن ریٹائرڈ سرکاری و نیم سرکاری ملازمین کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہیں عمر کے اس حصے میں جب اُن کے جسم میں اتنی بھی طاقت نہ ہو کہ وہ دو قدم چل سکیں، ضروری کاغذات کے نام پر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ نامکمل فائلوں کا بہانہ بناکرکس طرح ان ریٹائرڈ ملازمین سے فقط چند ہزار روپے لوٹنے کے لیے مختلف قوانین بتائے جاتے ہیں۔ ان ملازمین کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران بے حسی اور بے ضمیری کی تمام حدیں پھلانگتے جارہے ہیں۔ پنشنروں کو جس قدر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں نافذ قوانین نے انہیں دوسرے درجے کا شہری بنادیا ہے۔
سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت عموماً 25 سال ہوتی ہے، لیکن اکثر افراد اپنے معاشی مسائل کے باعث نوکری کے لیے عمر کی آخری حد یعنی 60 سال کی عمر کو پہنچنے تک نوکری جاری رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے موقع پر جو یکمشت رقم ملازمین کو ملتی ہے اس سے عام طور پر وہ بیٹیوں کی شادیاں یا گھر کی تعمیر جیسے عرصۂ دراز سے ادھورے رہ جانے والے امور انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں ریٹائر ہونے والے ملازمین کے پاس وہ معمولی رقم ہی بچتی ہے جو انہیں بعد از ریٹائرمنٹ سرکار ماہانہ پنشن کے نام پر جاری کرتی ہے۔ یہ پنشن بالعموم آخری بنیادی تنخواہ کے نصف کے برابر ہوتی ہے۔ بنیادی تنخواہ سے مراد وہ رقم ہے جس میں کسی قسم کے الاؤنس شامل نہیں ہوتے، اور وہ اصل تنخواہ کے نصف سے بھی کم ہوتی ہے، جو سرکار کے حکم نامے کے تحت کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے، جس کے باعث ریٹائرڈ سرکاری ملازمین آئے دن کسی نہ کسی حوالے سے مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان مسائل کی ابتدا پنشنر کے اپنے ہی محکمے سے ہوتی ہے جس کی نذر اُس نے اپنی زندگی کی درجنوں بہاریں کی ہوتی ہیں۔ پنشن پیپرز کی تیاری ایک جاں گسل عمل ہے۔ اس عمل کے دوران ریٹائر ہونے والے ملازمین کو اُن کے اپنے محکمے کے بابو حضرات سے لے کر اکاؤنٹ آفس تک کے کلرک جی بھر کر ذلیل کرتے ہیں۔ اگر وہ رشوت دینے کے ہنر سے ناواقف ہیں تو ان کی فائل ایک ہی کمرے میں ایک میز سے دوسری میز تک کا سفر مہینوں میں طے کرتی ہے۔ اپنے جائز کام پر آواز اٹھانے، احتجاج کرنے، یا شور مچانے کی صورت میں فائل میں موجود کاغذات پر طرح طرح کے اعتراضات لگاکر بار بار دفتر کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ ایسے ریٹائرڈ ملازمین کو زیادہ تر ایسی تاریخوں میں دفتر بلایا جاتا ہے جس دن ان کے کام سے متعلق اہلکار چھٹی پر ہو۔ یوں پنشنر بیچارہ مایوسی کا ایک اور دن گزار کر گھر لوٹ جاتا ہے۔ اگر کسی ملازم کی فائل مکمل ہو، یعنی تمام ضروری کاغذات جمع کروا دیے ہوں، تو کلرکوں کو رشوت نہ دینے کے باعث جمع شدہ کاغذات گم کردیے جاتے ہیں، اور ’’کاغذات نامکمل ہیں‘‘ کہہ کر کئی ماہ تک ذلیل کیا جاتا ہے۔ ان کلرکوں کے نزدیک ہر سوال کا جواب فقط نذرانہ ہی ہوتا ہے، یعنی فائل ہر میز پر بھاری نذرانے نچھاور کرنے کے بعد ہی کئی ماہ بعد آخری دستخط حاصل کرنے کی اہل ہوتی ہے، جبکہ مٹھائی کے نام پر ایک بھاری رقم کی ادائیگی کرنا ابھی باقی رہتا ہے۔ دورانِ سروس انتقال کرجانے والے ملازمین کی بیواؤں کا تو مت پوچھیے، انہیں اپنے خاوندوں کے جائز واجبات لینے کے لیے نہ جانے کتنے دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، انہیں دورانِ عدت ہی واجبات کے حصول کے لیے رائج کردہ اس فرسودہ نظام کی چکی تلے پسنا پڑتا ہے جس کی سختیاں ایک ریٹائرڈ ملازم اپنی زندگی میں بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اگر بھاگ دوڑ کرنے کے بعد کاغذات مکمل کر بھی لیے جائیں تو اس صورت میں بیواؤں کو ماہانہ پنشن کی جو رقم ملتی ہے وہ اتنی بھی نہیں ہوتی جس سے گھر چلانا تو دور کی بات، فقط بجلی کے بل کی ہی ادائیگی کی جاسکے۔ یعنی شوہر کی بنیادی تنخواہ کی نصف سے بھی آدھی پنشن 6سے7ہزار روپے ماہوار ملنے والی رقم سے گھر کی گاڑی کس طرح چلائی جاسکتی ہے! ظاہر ہے کسی ایک انسان کے دنیا سے چلے جانے کی صورت میں خاندان کے دوسرے افراد کی ضروریاتِ زندگی تو ختم نہیں ہوا کرتیں، اور پھر مہنگائی کے اس دور میں چھوٹے سے چھوٹے کنبے کو تعلیم، صحت، بجلی وگیس کے بلوں اور ماہانہ راشن کی مد میں 40 سے 50 ہزار روپے کی رقم درکار ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کی جانب سے پنشن کے نام سے دی جانے والی رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترداف ہے۔
پنشنروں کی مشکلات اورکاغذی گورکھ دھندہ یہیں ختم نہیں ہوتا، بلکہ بینکوں اور ڈاک خانوں کی جانب سے ہر ماہ پنشن وصولی کے نام پر بھروائے جانے والے فارموں کی صورت مستقل بنیادوں پر چلتا ہی رہتا ہے، جہاں پنشن کاؤنٹر پر بیٹھے شخص کی جانب سے ایک زندہ انسان سے اُس کی اپنی موجودگی میں لائف سرٹیفکیٹ یعنی کسی بھی گریڈ سترہ کے سرکاری افسر سے تصدیق شدہ اپنے زندہ ہونے کا دستاویزی ثبوت اور پنشن فارم جیسے کاغذات طلب کرکے نہ صرف ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیا جاتا ہے بلکہ لمبی قطاروں میں کھڑا کرکے انہیں رسوا بھی کیا جاتا ہے۔
اس بات سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے کہ جس کے پاس بھی اختیارات ہوں وہ انہیں لوگوں کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے ہی استعمال کرتا ہے، اور جب معاملہ رقم کا ہو تو ہر اُس شخص کی گردن میں سریا آجاتا ہے جس کی ذمہ داری پیسے کے لین دین کی ہو، وہ سرکار کے مال کو بھی اپنی ملکیت سمجھنے لگتا ہے۔ کسی چھوٹے سے کارخانے میں منشی کے کردار کو ہی دیکھ لیجیے، غریب مزدور کو مزدوری دیتے ہوئے اُس کی حالت کسی بڑے تاجر سے کم نہیں ہوتی، وہ غریبوں کو اُن کی جائز مزدوری بھی احسان جتاکر دیتا ہے، گویا وہ تقسیم کی جانے والی رقم کا مالک ہو۔ شاید یہ فطرتی عمل ہے کہ نوٹوں کے سامنے بیٹھ کر چند ہزار ماہانہ کا ملازم بھی خود کو سیٹھ سمجھنے لگتا ہے۔ یہی صورت حال آپ کو تقریباً ہر دوسرے محکمے میں دیکھنے کو ملے گی، یعنی ادارے کا اکاؤنٹنٹ اپنے محکمے کے سیکریٹری سے بھی بڑا افسر نظر آئے گا، جبکہ حقیقت میں وہ خود بھی ایک ملازم ہی ہوتا ہے، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس کی نوکری کھاتے بنانا اور ہر شخص کو اُس کی طے شدہ اجرت کے مطابق رقم ادا کرنا ہے۔ معاشرے میں موجود ایسے اشخاص کے رویّے دیکھ کر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے ایسے کئی کردار آپ کو معاشرے کے ہر طبقے میں ملیں گے۔ ’’مرتاکیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق اپنے جائز چند ہزار روپوں کی خاطر پنشنر اپنی ہتک عزت برداشت کرتے اس دنیائے فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔
اب جبکہ حکومتی دعووں کے مطابق نیا پاکستان وجود میں آچکا ہے جس میں کرپشن، لوٹ مار اور اقربا پروری کے خلاف کام ہورہا ہے، اور عوام کی سہولت کے بہترین منصوبوں پر کام کرنے جیسے دعوے کیے جارہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ریٹائرڈ ملازمین کی بھی دادرسی کرے، اور ایسے تمام قوانین ختم کرے جو غریبوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ اس کے لیے ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس سے ون ونڈو کے تحت پنشن سمیت تمام واجبات کا حصول ممکن ہو۔ تمام محکموں میں سن کوٹہ بحال کیا جائے۔ ایسے اور ان جیسے اقدامات کرنے سے ہی سرکاری و نیم سرکاری ملازمین کی پریشانیوں کا سدباب کیا جاسکتا ہے، بصورتِ دیگر نئے پاکستان کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

حصہ