برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

1944

قسط نمبر 182
(دسواں حصہ)
مولانا مودودی علیہ رحمہ نے اپنی مشہور تصنیف’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے ذریعے پورے ہندوستان کے علمی طبقے میں اپنا منفرد مقام بنایا۔ آپ کے ان مضامین کا (جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے) ایک خاص پس منظر تھا۔ یہ 1920ء کی بات ہے جب شدھی تحریک (مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک) شروع ہوئی تھی۔ ہندوؤں کی ’’شدھی‘‘ سے مراد تھی کہ جن لوگوں کے باپ دادا مسلمان ہوگئے تھے انہیں دوبارہ شدھی یعنی پاک کرکے ہندو بنایا جائے۔ اس تحریک کی وجہ ایک ہندو سوامی ’’شردھانند‘‘ تھا، اُس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اپنی کتاب میں آپؐ کی توہین کی تھی، جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اس ملعون گستاخ کو 23 دسمبر 1926ء کو عاشقِ رسول عبدالرشید نامی نوجوان نے دہلی کے ’’نیا بازار‘‘ میں واقع اُس کے گھر میں داخل ہوکر قتل کر ڈالا، جس سے اس تحریک کا خاتمہ ہوا۔
اس قتل پر پورے ہندوستان میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ہندو آپے سے باہر ہوچکے تھے، اعلانیہ یہ کہا جانے لگا کہ ’’اسلام تلوار اور تشدد‘‘ کا مذہب ہے۔
انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے دہلی کی جامع مسجد میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی مکمل تشریح و وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں اُن کا خاتمہ ہوسکے۔ سید مودودی کو خیال آیا کہ کیوں ناں میں ہی یہ کام کروں۔ چنانچہ آپ نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے مضامین لکھنا شروع کیے۔ اُس وقت سید مودودی کی عمر24 برس تھی۔ اس چھوٹی سی عمر میں ایسی معرکۃ الآرا کتاب آپ کا ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان کارنامہ تھا۔ اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے تبصرہ کیا کہ
’’اسلام کے نظریۂ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے، اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے‘‘۔
مولانا نے اسلا م کی ترویج اور غلبے کے لیے جس قلم کو اپنا ہتھیار بنایا تھا اسی بنیاد پر آپ نے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور درپیش مسائل پر بے شمار کتابیں لکھیں۔ اس کے ساتھ آپ ہندوستان کے سیاسی حالات اور مسلمانوں کی روز بروز ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کو بھی انتہائی قریب سے دیکھ رہے تھے۔ آپ نے اصلاحِ قوم کے مقصد سے 1932ء میں حیدرآباد سے اپنا رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کیا۔ مسلمانوں کی بھلائی کے لیے وہ جو کام کرنا چاہتے تھے ان کے ذہن میں اس کی ترتیب یہ تھی کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے ذہنوں سے مغربی قوموں کی نقالی اور مرعوبیت، یورپ کے خیالات اور ان کے طور طریقوں کا زور توڑا جائے، اور پھر ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر مسئلے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔
چنانچہ 1935ء میں آپ نے ’’پردہ‘‘ کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک معرکۃ الآرا کتاب لکھ کر اُن لوگوں کا منہ بند کردیا جو اسلامی پردے پر مغربی تہذیب سے مرعوب ہوکر طرح طرح کے اعتراض کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ’’تنقیحات‘‘ اور ’’تفہیمات‘‘ کے مضامین لکھے جن کے ذریعے آپ نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں مغربی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔
ممتاز کالم نگار حفیظ اللہ نیازی اپنے کالم ’’بیسویں صدی کا چراغ، صدیاں روشن کر گیا‘‘ میں انتہائی جامع انداز میں مولانا مودودی علیہ رحمہ کا ذکر کیا، وہ لکھتے ہیں:
’’عمر بن عبدالعزیزؒ اور مجدد الف ثانیؒ میں ایک مشابہت، امام غزالیؒ اور شاہ ولی اللہؒ دہلوی میں ایک مطابقت، مولانا رومیؒ اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ میں باہمی مسابقت، جبکہ امام ابن تیمیہؒ اور ابوالاعلیٰ مودودیؒ میں ایک مماثلت کوٹ کوٹ کر موجود ہے۔
بیسویں صدی علامہ محمد اقبالؒ اور سید مودودیؒ کے ناموں سے صدیوں گونجتی رہے گی۔ پیر و مرشد اور سیدی مرشدی ایسے زمانے میں آئے کہ مغربی فلسفے اور بے ہنگم نظریات پوری دنیا کو اپنے چنگل میں لے چکے تھے۔ اسلام کی شدبد رکھنے والے علماء کی اکثریت محدود علم، کمیونزم، کیپٹل ازم، لبرل ازم، نیشنلزم کے آگے ڈھیر ہوچکی تھی، جبکہ جدیدیت سے متاثر ادھورے عالم دین ڈارون کے نظریۂ تخلیق، ہیگل کے نظریۂ جدلیت، کارل مارکس کے کمیونزم سے لے کر جان لا ک کے لبرل ازم، نپولین اور ہٹلر کے نیشنل ازم کی توجیہات دینِ اسلام اور قرآن کے اندر تلاش کرنے میں مستغرق تھے۔ ایسے میں علامہ اقبال جیسے فلسفی اور سید مودودی جیسے محقق نے ہی تو بیسویں صدی کا منہ توڑ جوابی بیانیہ دیا۔
سید مودودی نوجوانی سے لے کر پیرانہ سالی تک اَن تھک کام کرگئے۔110سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ اسلامی ریاست، سنت کی آئینی حیثیت، مغربی تہذیب اور فلسفوں کے تنقیدی جائزے، قانون، تصوف، معاشرت، عمرانیات، اقتصادیات، سیاسیات، اخلاقیات غرض قرآن و حدیث کا کون سا پہلو ہے جس پر باریک بینی سے عرق ریزی نہ کی ہو۔
اور علمی و تحقیقی محاذ پر تجدیدِ دین کا جو کام سر انجام دیا، آج تک چشمہ فیض یابی ہے۔ ابن تیمیہؒ کی تحریکِ احیائے دین کو دیکھیں، ارضی حقائق اور معاشرتی حالات مدنظر رکھیں اور پھر سید مودودیؒ کی تحریکِ تجدیدِ احیائے دین کو پرکھیں، منطبق پائیں گے۔ سید مودودیؒ نے دین کو درپیش جدید چیلنجز کو اپنا موضوع بنایا۔ قرآن و سنت کو عام فہم اور فصیح و بلیغ انداز میں پیش کیا جس سے اسکالر سے لے کر معمولی تعلیم یافتہ افراد تک سبھی مستفید ہوئے۔ صعوبتیں و تکلیفیں، قید و بند بلکہ پھانسی تک کی سزا، علماء و مشائخ کی دشمنی، مغرب سے متاثر اسلامی اسکالرز اور لبرلز کی طعن و تشنیع، سب کا سید مودودیؒ کے خلاف بھی ایک ہمہ گیر اشتراک و محاذ رہا۔‘‘ وہ آگے اسی مضمون میں لکھتے ہیں:
’’علامہ اقبالؒ کی شاعری اور استاد مودودیؒ کی نثر نے ادب برائے مقصد کو بام عروج دیا۔ سید مودودیؒ کی ہزاروں صفحات پر پھیلی تحریروں کو پڑھ جائیں، مجال ہے کہ کوئی ایک فقرہ، ایک لفظ کسی دوسرے کے مقابل میں کمزور نظر آئے۔ محسوس ہوتا ہے اتری ہوئی تحریریں ہیں۔
آپ نے 33 سال کی عمر میں لکھا، ایک کتابچہ’’شہادتِ حق‘‘۔ اس کتابچے کو دیگ کے چاول کا ایک دانہ ہی سمجھیں: ’’میں آپ کا سخت بدخواہ ہوں گا اگر ہر لاگ لپیٹ کے بغیر آپ کو صاف صاف نہ بتادوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ میرے علم میں آپ کا حال اور آپ کا مستقبل معلق ہے اس سوال پر کہ آپ اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت پہنچی ہے، جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور جس کے تعلق سے آپ خواہ چاہیں یا نہ چاہیں، بہرحال دنیا میں اسلام کے نمائندے قرار پاتے ہیں۔ اگر آپ اس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول اور عمل سے اس کی سچی شہادت دیں، اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے تو آپ دنیا میں سر بلند اور آخرت میں سرخرو ہوکر رہیں گے۔
خوف اور حزن، ذلت اور مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جو آپ پر چھائے ہوئے ہیں، چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے۔ آپ کی دعوتِ حق اور سیرتِ صالحہ دلوں اور دماغوں کو مسخر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی چلی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسا آپ کی امانت اور دیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ ائمہ کفر کی کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ اُن کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظریے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ اور وہ طاقتیں جو آج اُن کے کیمپ میں نظر آرہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی‘‘۔(ترجمان القرآن، 1936ء)‘‘
مولا نا مودودی علیہ رحمہ کی ہمہ گیر شخصیت اور تحریک و خدمات کے حوالے سے ڈاکٹر ابوذر اصلاحی اعظمی اپنی کتاب ’’علامہ ابوالاعلیٰ مودودی۔ حیات و خدمات‘‘ کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں:
’’افکارِ مودودی اور تحریکِ مودودی جن جن براعظموں میں پہنچی ہے وہاں ہزاروں لوگوں کو تشکیک، الحاد، اور کمیونزم کی آغوش سے نکال کر اسلام کی گود میں لے آئی ہے، جہاں تک اور کسی کی رسائی نہ ہوسکی ہے۔ اس پر ہم برجستہ کہتے ہیں کہ علامہ مودودی کا اقبال، شبلی، آزاد یا اس طرح کی کسی بھی شخصیت سے کوئی تقابل نہیں ہے۔ تقابل میں تھوڑی دیر کے لیے صرف علامہ ابن تیمیہ کچھ کچھ نظر آتے ہیں، مگر اُن کے پاس بھی اس طرح کی تصانیف نہیں ہیں جو ہر مسئلے کو حل کرکے انسانی زندگی کو کسی کنارے لگا سکیں، اور دوسرے سب سے بڑا ضعف جو ہے وہ یہ ہے کہ تحریکِ ابن تیمیہ انقلابِ زمانہ کا شکار ہوکر دم توڑ چکی ہے اور تحریکِ مودودی دنیا پر چھاتی جارہی ہے۔ ان تمام لحاظ سے سید مودودی ہمیں تمام لوگوں کی صفوں میں امام نظر آتے ہیں۔‘‘
حوالہ جات: اشراق ’’سید ابوالاعلیٰ مودودی کی زندگی کے مختصر حالات‘‘(28 دسمبر 2016ء)
مضمون: ’’بیسویں صدی کا چراغ، صدیاں روشن کر گیا‘‘۔ مضمون نگار: حفیظ اللہ نیازی
ڈاکٹر ابوذر اصلاحی اعظمی کی کتاب: ’’علامہ ابوالاعلیٰ مودودی۔ حیات و خدمات۔ مطبوعہ اریب پبلی کیشنز، دہلی
(جاری ہے)

حصہ