نعیم الرحمن
(دوسری اور آخری حصہ)
حصہ مضامین کو ’’لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے انبار‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ 285 صفحات کے اس بھرپور حصے کے آغاز پر ڈاکٹر وزیر آغا کی تصویر دی گئی ہے۔ اس حصے میں مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر 21 وقیع مضامین شامل کیے گئے ہیں جن سے قارئین کی علمی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس حصے کے اہم ناموں میں بھارت کے مشہور ادیب، شاعر، دانش ور اور مدیر شمس الرحمن فاروقی، پاکستان کے بزرگ دانش ور فتح محمد ملک، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ابوالکلام قاسمی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر عقیق اللہ، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر امجد طفیل کے مضامین اپنی مثال آپ ہیں۔ ڈاکٹر عقیق اللہ نے شمس الرحمن فاروقی کے ناول پر ’’فکشن کی تنقید اورکئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کے زیر عنوان بہت اچھا مضمون تحریر کیا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیرکی حال ہی میں نظم خوانی اور افسانوں پر مبنی کئی کتب شائع ہوئی ہیں۔ انہوں نے خود کو منفرد افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی منوا لیا ہے۔ ناصر عباس نیر نے ’’داغؔ دہلوی، مابعد نو آبادیاتی تناظر‘‘ میں کلام ِ داغؔ کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس تحریر کی محرک طارق ہاشمی کی داغؔ پر مختصر کتاب بنی جس میں اپنے زمانے کے مقبول ترین شاعرکو نوآبادیاتی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس مقبول بیانیے کا محاکمہ کیا گیا ہے جس کے مطابق داغؔ دہلوی زبان، رندی اور رنڈی کے شاعر قرار دیے جاتے ہیں۔
سلمیٰ اعوان مقبول افسانہ نگار، ناول نگار اور سفرنامہ نگار ہیں لیکن ان دنوں وہ دنیا کے عظیم ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں کو اردو قارئین سے متعارف کرانے کا فریضہ بڑی خوبی سے انجام د ے رہی ہیں۔ ان کی کتاب ’’عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ بہترین کاوش ہے۔ سلمیٰ اعوان مختلف جرائد میں عالمی مفکرینِ ادب پر عمدہ مضامین تحریر کررہی ہیں۔ ’’لوح‘‘ میں انہوں نے ’’وسط ایشیا کا ایک عظیم شاعر، علی شیرنوائی‘‘ پر بہت عمدہ مضمون لکھا ہے۔ ادبی جریدے ’’نقاط‘‘ کے مدیر قاسم یعقوب کا مضمون ’’تاریخ کے سفر میں مابعد جدیدیت کا پڑائو‘‘ بھی بہت عمدہ تحریر ہے۔ سعدیہ ممتاز نے اردو کے ابتدائی دور کے شاعر ’’سراج اورنگ آبادی وحدت الوجودی شاعر‘‘ کے موضوع پر قلم فرسائی کی ہے۔
’’یاد آتے ہیں زمانے کیا کیا‘‘ کے تحت خودنوشت کے آغاز میں ’’شہاب نامہ‘‘ کے خالق قدرت اللہ شہاب کی تصویر دی گئی ہے، اور اکادمی ادبیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی خودنوشت کا ایک باب ’’ذوالفقار علی بھٹو‘‘ شامل ہے۔ اس باب میں بگھیو صاحب نے 4 اپریل 1979ء کی ڈائری میں لکھے بھٹوکی پھانسی کے دن کے پرانے اوراق پڑھ کر اپنی یادیں تازہ کی ہیں۔ اس باب کو پڑھ کر قارئین کو ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی آپ بیتی کا انتظار رہے گا۔
غزلیہ شاعری کے انتخاب کو ’’غزل شاعری ہے، عشق ہے، کیا ہے‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ 60 صفحات پر محیط اس حصے میں 52 شعرا کی 128 غزلیں شامل ہیں، جن میں سے بیشتر مدیرِ لوح کے حسنِ انتخاب کی دلیل ہیں جن میں انور شعور، امجد اسلام امجد، توصیف تبسم، سلیم کوثر، صابر ظفر، خالد شریف، اجمل سراج اور عباس تابش جیسے مستند شعرا کے دوش بدوش علینہ عترت، ریحانہ روحی، اقبال پیرزادہ، رضیہ سبحان، طاہر شیرازی، سیمان اور واحد غالبی جیسے ابھرتے اور نوآموز شعرا کا کلام بھی شامل ہے۔ آغاز میں رنگین تصویر فیض احمد فیض کی ہے۔ چند منتخب اشعار:
کھولتے کب زبان ہم از خود
آخر اس نے کیا کرم از خود
دل کو اشکوں سے پالتی ہے آنکھ
نہیں بھرتا یہ جام جم از خود
(انورشعور)
کچھ وضاحت نہ التجا کیجیے
سچ کہا ہے تو حوصلہ کیجیے
ہم نے مانا کہ معتبر ہے دماغ
دل نہ مانے اگر تو کیا کیجیے
(امجداسلام امجد)
کہیں پہ سرو، کہیں پر گلاب خوابیدہ
اس آب و گل میں ہے کیا اضطراب خوابیدہ
اسے چھوؤں تو میرے ہاتھ جگمگاتے ہیں
ہے اس بدن میں کوئی ماہتاب خوابیدہ
(سرمدصہبائی)
بچوں کی طرح وقت بِتانے میں لگے ہیں
دیوار پہ ہم پھول بنانے میں لگے ہیں
دھونے سے بھی جاتی نہیں اس ہاتھ کی خوشبو
ہم ہاتھ چھڑا کر بھی چھڑانے میں لگے ہیں
(عباس تابش)
’’نہیں منت کش تاب ِ شنیدن داستاں میری‘‘ کے زیرعنوان امتیاز علی تاج کی رنگین تصویر اور مستنصر حسین تارڑ اور محمد الیاس کے ناولوں کے باب بھی قاری کی توجہ کھینچتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’منطق الطیر، جدید‘‘ پر ’’بہاؤ‘‘ کی طرح تادیر بحث ہوگی۔ ان دونوں ناولوں کے لیے مصنف نے بہت ریسرچ اور تگ ودو کی ہے۔
افسانہ و ناول نگار محمد الیاس کا چھٹا ناول ’’حبس‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ محمد الیاس منفرد ناول نگار ہیں۔ ان کے کردار نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، یا بڑے خاندانوں سے وابستہ ہونے کے باوجود انسانوں کے درمیان طبقاتی تفریق پر یقین نہیں رکھتے۔ مذہبی اجارہ داری کے بھی وہ سخت خلاف ہیں اور اس پر کھل کر لکھتے ہیں۔ ’’پریت نہ جانے‘‘ کے نام سے محمد الیاس کے ناول کے دو باب انتہائی دل چسپ ہیں اور ناول نگار کے اسلوب کی بہ خوبی عکاسی کرتے ہیں۔
تراجم کو ’قرطاس پہ جہانِ دگر بھی ہیں‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جس پر انیس ناگی کی تصویر ہے۔ صدف مرزا نے ’’آئس لینڈک ساگا میں عورت کا کردار‘‘ پر قلم اٹھایا ہے۔ صدف مرزا نے پیاٹیفڈرپ کی نظموں کے تراجم بھی بہت عمدگی سے کیے ہیں۔ ’’ماحولیات اور مابعد نو آبادیات‘‘ راب نکسن کے مضمون کا عنوان ہے جس کا ترجمہ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی نے کیا ہے۔
طنز و مزاح کے مختصر حصے کو لوح میں ’’یہی تو ٹوٹے دلوں کا علاج ہے‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس پر فکاہیہ شاعر انور مسعود کی رنگین تصویر اپنی چھب دکھا رہی ہے۔ معروف مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی ’’بھائی، ٹینشن نہیں لینے کا‘‘ کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ ڈاکٹر عزیز رحمن نے ’’غزل پر خیالی تنقید‘‘ کی ہے۔
انجینئر، موسیقار، گلوکار ڈاکٹر امجد پرویز نے حالیہ برسوں میں برصغیرکے عظیم موسیقاروں اور گلوکاروں پر دو شاندار کتب ’’میلوڈی میکرز‘‘ اور ’’میلوڈی سنگرز‘ پیش کی ہیں جو موسیقی پرعمدہ کتابیں ہیں۔ اس قسم کا کام اردو میں بہت کم ہوا ہے۔ فلم و موسیقی کے شعبے میں ڈاکٹر امجد پرویز کا ’’ایم اشرف، لولی ووڈ کا ایک مقبول موسیقار‘‘ ان کی کتاب میلوڈی میکرز سے لیا گیا عمدہ مضمون ہے، جس میں ایم اشرف کے فن سے قارئین کو روشناس کرایا گیا ہے۔ محمد عارف نے ’’معمر نوجوان‘‘ محبوب ظفر کا عمدہ خاکہ تحریر کیا ہے۔
آخر میں سرمد صہبائی کی کافیاں اور علی محمد فرشی کے ماہیے ہیں۔ سرمد صہبائی منفرد شاعر اور ڈراما نگار ہیں۔ اُن کا بچپن میں دیکھا ڈراما ’’بچوں کا باغ‘‘ اب تک نہیں بھولا۔ ماہیے پر جرمنی میں مقیم ادیب و شاعرحیدر قریشی نے بہت کام کیا ہے۔ ان کی ماہیے پر دو کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ علی محمد فرشی صاحب ان دنوں فیس بک پر بہت متحرک ہیں۔ ان کے ماہیے کمال کے ہیں۔
سب دیکھے بھالے ہیں
خوشحالی فقط اُن کی
جوڈنڈے والے ہیں
یا
مہکا پھول جوانی کا
نور سے ناری نکلی تو
ٹوٹا خواب گیانی کا
کیا خوب صورت ماہیے ہیں جن کے سامنے اردو ثلاثی اور جاپانی صنف ہائیکو نہیں جچتی۔ ممتاز احمد شیخ ایک ادبی جن ہیں جنہوں نے چھ ماہ کی مختصر مدت میں اتنا ضخیم اور بھرپور ادبی گل دستہ ادب کے دیوانوں کی خدمت میں پیش کردیا۔ اللہ سے دُعا ہے کہ ’’لوح‘‘ ہمیشہ قائم ودائم رہے۔
غزلیں
نعیم الدین نعیم
کوئی ہے انتہا میری خوشی کی
تمنا ہو گئی پوری کسی کی
سفر شاید مکمل ہو گیا ہے
لگی نائو کنارے زندگی کی
کشش رکھی ہے قدرت نے بلا کی
قدر کرتا ہوں اُن کی سادگی کی
کبھی ان کا بھی کوئی حال پوچھے
بنے تصویر بیٹھے بے بسی کی
نہیں یہ بات تو اچھی نہیں ہے
برائی کر رہے ہو کیوں کسی کی
اندھیرے میں بھٹکتے ہیں مسافر
کمی شاید ہے علم و آگہی کی
ہمارا دل یہ کس نے توڑ ڈالا
ہمارے ساتھ کس نے دل لگی کی
بھلا کس نے چراغوں کو بجھا کر
اندھیری رات میں ہے خود کشی کی
اتر جائے گا تُو دل سے ہمارے
محبت میں اگر تُو نے کمی کی
بظاہر تو نظر آتا ہے مومن
خدا سے زندگی بھر کافری کی
کیا ہی کیا نعیمؔ اور زندگی بھر
کسی سے عشق یا شاعری کی
ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر