چاند کی مٹی، اَیلکٹرون مائیکروسکوپ سے “خلائی مِٹّی کے نمونے”۔

820

قاضی مظہر الدین طارق
جب ؛ اسیپیس ڈاٹ کام،کی سینیئر لکھاری’جنابہ میغام بارتِلِس ‘نے چاند کی مٹّی پر تحقیق کرنے والے ’ناسا‘کے جناب ’رَیّان زیغلرسے ایک چُبتا ہواسوال کیا۔
’’چاند سے لائی ہوئی’ مِٹّی‘ کو زمین پر لائے ہوئے پچاس برس ہو گئے ہیں، آدھی صدی گذر چکی، تو پھرکیا وجہ کہ کچھ ’مواد‘کو کھولا نہیں گیا؟ ‘‘
’’اس وقت جو کا م ہم کررہے ہیں وہ ہر گز پُرانہ نہیں!‘‘وہ بڑے جذباتی انداز میں کہہ رہے تھے،’’چاند سے لائے گئے اِن نمونوںکو ، پچاس برس پہلے ہی سخت حفاظتی انتظامات کے تحت مُہر بند(سیِل) کر دیا تھا، تاکہ اگلی نسل نئی سہولتوں کی مدد سے ان پر بہتر تحقیق کر سکے۔‘‘
دو عظیم جنگوںکاتسلسل ، خلائی سر دجنگ کی شکل میں جاری تھا ،اب بفضلِ خدا یہ جنگ کم از کم خلائی تحقیقات میں سرد ہوتی جا رہی ۔
………………
عالمی معاہدہ(ٹریٹی)کہ عالمی پانیوں میں،قطبین پراور خلاء میں ؛کسی قوم کے لئے، نو گو ایریا بنایا جائے ، نہ رہنے دیا جائے ، (یہ اور بات ہے کہ عالمی قوانین جوکمزور اقوام کے لئے ہیں ، وہ طاقتور قوموں کے لئے نہیں!)مثلاً: ایٹمی طاقت کے معاملے کوہی لیجئے، بڑی طاقتیں ہر قسم ایٹمی ہتھیار ؛بنا سکتیں ہیں، جمع کر سکتی ہیں ،اورچلاسکتی ہیں،جبکہ کمزور اقوام، ہتھیار تو دور کی بات ہے ، پُرامن مقاصد کے لئے بھی یہ ایٹمی قوت حاصل نہیںکر سکتی ہیں۔
اس کی دوسری مثال ؛اقوامِ متحدہ نے ہر ملک کے لئے سمندری حدود مقرر کی تھیں ، کسی قوم کو، کسی اور کے سمندری حدود میں مُنہہ مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ افسوس کہ اس قائدے کی بھی طاقتور قوموں نے دھجیاں اُڑا دیں ہیں۔
………………
’ناسا‘ نے اچھا فیصلہ کر کے خلاء سے لائے گئے ان نمونوں کو علم و تحقیق کی دنیا تک رسائی دے دی ہے ۔
۲۱؍دسمبر۱۹۶۸ء؁کوپہلی دفعہ حضرتِ انسان کا زمین کی کشش ِ ثقل کو توڑنا اور چاند کے مدارداخل ہونا ،اس کی پشت دیکھنا، ایک بڑی تاریخی حقیقت ہے۔
’ناسا ‘کے تین خلا بازوں؛ جیمس لاوَل، ولیئم اَینڈرز اور فرَینک بورمَین، مشن ’اپولوہشتم‘ کے ذریعہ چاند کے مدار میں داخل ہوئے،اس کے چاروں طرف کا چکر لگایا،اس کی اُوجھل پُش کو دیکھا،پھر سب سے بڑی بات یہ کہ بحفاظت گھر کو لَوٹ آئے۔
………………
’’چاندکی مٹّی کا مطالعہ کرنا ، پچاس برس بعدآج بھی بڑا انوکھا ، قیمتی، چونکا دینے والا اور دلچسپیوں سے لبریز کام ہے،‘‘چاند کی مٹّی تحقیق کرنے والے ’ناسا‘کے جناب ’رَیّان زیغلر‘ کہتے ہیں، ’’روبوٹو ں کی مدد سے چاند پر جاکرتحقیق کرنے میں کئی ایک مشکلات ہیں، جبکہ چاندکی سطح سے زمین پر لائی گئی’مٹّی‘کے نمونوں کا ’لیباریٹریز‘ میںتجزیئے کرنا،اِنسان کے لئے نسبتاًآسان ہے، روبوٹس کے بجائے انسان خود اس مطالعہ سے بہتر نتائج حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
…………………
’جناب زَیان زیغرلر‘ (گذشتہ آٹھ برس سے) اِن خلائی نمونوں کی ’حفاظت اور تحقیق اِدارے کے ذمہ دار ہیں۔
…………………
زمین پر چلنے پھر نے والے، بجا طور پر محسوس کرتے ہیں کہ زمین ساکن ہے اور ہم ایک ساکن زمین پر ساکن کھڑے ہیں۔
…………………
پرانے زمانے کے لوگوںنے جب؛ سورج،چاند ، ستاروں ، دُمدار تاروںاورسیّاروں(پلینٹس)کومشرق سے نکلتے اور سر پر سے گزر کر مغرب میں غروب ہو تا دیکھا، توبجا طورپر یہ سمجھا کہ یہ سب زمین کے اطراف گھوم رہے ہیں۔
مگر وہ ایک مُشکل میں پڑ گئے،جب انہوں نے دیکھاکہ کچھ ستارے آگے پیچھے بھی جاتے ہیںاورکچھ مغرب سے واپس مشرق کی طرف جارہے ہیں ،اگر یہ سب زمین کے چاروں طرف گھوم رہے ہیں،تو اِن سب کو ہمیشہ مشرق سے نکل مغرب کی طرف جانا چاہئے تھا ، مگر جب غور کرنے والوں نے دیکھاکہ کچھ ستارے ایسے بھی ہیں،جو کبھی مشرق کبھی مغرب کی طرف جا رہے ہیں،تو انہوں نے اس کی عجیب و غریب تاویلیں کیں اور ان کا نام ’پلَینِٹس‘(یعنی آوارہ گرد)رکھا ۔
ہم کو معلوم ہے زمین کی رفتار مریخ کی رفتار سے تیز ہے اور وہ جب مریخ سے آگے نکلنے لگتی ہے تو ہم کو محسو س ہوتا وہ ہم سے پیچھے جارہی ہے بالکل ایسے جیسے؛ ہم جب ریل میںلیٹے ہوئے صرف دوسری ٹرین کو دیکھتے ہیں،اگرچہ ہماری گاڑی تیزچل رہی ہے اور دوسری آہستہ چل رہی ہے ہم کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ گاڑی پیچھے کی طرف جارہی ہے ۔ اگر ہم اپنی ٹرین سے باہر دیکھیں،توجو چیز ہم سے جتنا قریب ہوگی وہ ہمارے سامنے سے اُتنی ہی تیزی سے گزر جاتی ہے،جتنا دور ہوگی اتنا ہی آہستہ ہمارے ساتھ چلتی ہوئی محسوس ہوگی۔ یہ ’پیرالِکس ‘ کی ایک اور سادہ مثال ہے،اس کے ذریعہ ہم ستاروں کا فاصلہ معلوم کر تے،پہلی جنوری کو ایک ستارے کا زاویہ معلوم کیا جاتا ہے،پھر اسی ستارے کا پہلی جولائی کو زاویہ معلوم کیا جاتا ہے،یہ ایک مثلث بنا ، اس کاحساب و کتاب سے ہم اس ستارے کی ہم سے دوری ناپنے ہیں۔
زمین ، مریخ اور دیگر سیّاروں کے مداروںکا مطالعہ بھی ایسا ہی دلچسپ ہے،مثلاً؛زمین کی رفتار مریخ سے تیز ہوتی ہے،جب زمین مریخ (مارس ) سے آگے جانے لگتی ہے تو مریخ ہم کو پیچھے جا تا محسوس ہوتا ہے۔اسی طرح مریخ سے آگے مدار والے سیارے (پلینٹس)بھی ایسے ہی آگے پیچھے جاتے ہوئے ہوئے محسوس ہو تے محسوس ہوتے ہیں۔
………………
زمین صرف اپنے محور پرہی نہیں گھومتی ، یہ سورج کے گرد اپنے مدار میں بھی چکّر لگا رہی ہے، اس طرح یہ تقریباًتین سو پیسٹ۳۶۵ دن چھہ گھنٹوں میں سورج کے گرد اپنا ایک چکّر مکمل کرتی ہے،پھر سورج اپنے نظام کے ساتھ کہکشاں کے مرکز کے گرد تقریاًپانچ لاکھ سال میں ایک چکر لگاتا ہے، پھر کہکشاں بھی محوری گردش کے علاوہ کسی نامعلوم مرکز کے چاروں طرف مدار میں گھوم رہی ہے۔
زمین کی اِس’ پھرکی‘ کی رفتاراِس کے خطِ اِستوا (ایکویٹر) پر سب سے تیز ہوتی ہے اور قطبَین (پو لز) پر نہ ہونے کے برابر ہے۔
زمین، اپنے محور کے سوا بھی سورج کے چاروںطرف مدار میں بھی گردش کررہی ہے،پھر سورج اپنے نظام سمیت کہکشاں کے مرکز سے بندھا ہوااِس کے اَطراف دوڑ لگا رہا ہے ، پھرہماری کہکشاں بھی(اب تک)نہ معلوم کسی مرکز کے اطراف مدار میں بھاگ رہی ہے۔اس کی رفتار تو ہم معلوم کرنے سے عاجز ہیں،مگر ہم نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ ہماری’کہکشاں‘اورقریب ترین گیلکسی اَینڈرو میڈا ستر۷۰میل ’فی سکینڈ‘ کی زبردست رفتار سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں، مگر ڈریئے نہیں ! یہ دونوں ایک دوسرے سے اتنی دور ہیںکہ اس زبردست رفتار کے باوجود اس ملاپ میں جو وقت درکار ہے تو اتنا زیادہ ہے کہ اُس وقت تک ، ہمارا سورج ہم سمیت فنا کے گھاٹ اُتر چکا ہوگا۔
مطلب صاف ظاہرہے کہ کائنات کی ہرشئے گردش میں ہے ،کسی کو کوئی سکون نہیں !
………………
’ناسا‘ کا کہنا ہے ، زمین بالفرض اپنے محور پر گھومنابند کردے تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے، پھر ہم سمیت ہر چیز؛پانی،مٹّی،پتھر،جانور اوردرخت خلاء میں گم ہوجائیںگے۔مگراِن کا مزید کہنا ہے کہ اس کا اِمکان تقریاًصفر ہے۔
…………………
اگر کسی اور وجہ سے ایسا ہو بھی گیا، تو زمین کا اپنے محور پر سب سے چھوٹاچکر ۳۶۵ دنوں میں ہوگا،یعنی دن ایک سال کے برابر ہوگا ، پھر زمین کایہ چکر سورج کے ساتھ ’سِنکرونائیز‘ ہو جائے گا،اس کا مطلب یہ کہ زمین بھی ایسی ہوجائے گی ، جیسے چاند زمین کی طرف یک رُخا ہے،اس کو ٹائیڈل لَوک بھی کہتے ہیں ، یعنی زمین بھی سورج کے ساتھ’سِنکرونائیز‘ ہو جائے گی۔
اس ’سِنکرونائیزیشن‘ کی بنا پر زمین کا ایک رُخ سورج کی طرف اور دوسرا دوسری طرف مستقل ہوجائے گا یعنی ایک رُخ ٹھنڈا اور دوسرا مستقل گرم ہوجائے گا۔جس کے نتیجے میں ہم سمیت ہر چیز؛ پانی، مٹّی، پتھر، جانور اوردرخت، خلاء میں گم ہوجائیں گے۔
’ناسا‘نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ اگر ایک سکنڈ کے لئے بھی یہ گردش ، اگر اچانک رُک جائے گی، توزمین پرکوئی شئے ٹِک نہ سکے گی۔اگر یہی تبدیلی بتدریج ّآہستہ آہستہ ہوگی تو خیال ہے کہ ہم بھی دھیرے دھیرے اِن تبدلیوں کے عادی ہوتے جائیں گے۔
آگے جواللہ ربّ العزیز الرّحیم کی مرضی ہو گی ، وہ اِن شاء اللہ ضرور پوری ہوکر رہے گی،کیوں کہ وہی تنہا مالکِ ’یوم الدین ‘ ہے،اِس کے سوا اُس کے فیصلوں پرکوئی بات بھی نہ کر سکے گا!
اور اپنے حق میں وکالت بھی نہ کرسکے گا!
لَّایَتَکَلِّمُوْنَ اِلّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ! ! !

آواز اور روشنی کی مدد سے دماغ کی صفائی

بوسٹن: ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ روشنی اور آواز سے تحریک دینے سے دماغ سے وہ فاسد مواد خارج ہوجاتا ہے جو الزائیمر کی وجہ بنتا ہے۔ اسی عمل سے دماغی افعال کو درست کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
ہم ایک عرصے سے جانتے ہیں کہ جیسے جیسے دماغ میں بی ٹا ایمائی لوئڈ نامی مادہ جمع ہوتا ہے تو وہ ایک اور زہریلے پروٹین ٹاؤ سے مل کر اعصابی سرگرمیوں کو مزید متاثر کرتا ہے، اور یوں الزائیمر جیسی بیماری سر اٹھانے لگتی ہے۔ اب حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ الزائیمر کے شکار مریضوں کی دماغی لہروں میں بھی بے قاعدگی اور خرابی پائی جاتی ہے۔ دماغی خلیات یا نیورونز خاص طرح کی برقی تھرتھراہٹ خارج کرتے ہیں جنہیں دماغی امواج یا brain waves کہا جاتا ہے۔
اس سے قبل تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ الزائیمر کے مریضوں میں سب سے بلند

 فری کوئنسی والی ’گیما‘ دماغی لہروں میں واضح خلل آتا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں کیمبرج اور ایم آئی ٹی کے ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ بعض اقسام کی لائٹ تھراپی یا روشنی سے علاج کے بعد الزائیمر کے شکار چوہوں میں گیما لہریں دوبارہ بحال کی جاسکتی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ دماغ میں بیماری کی وجہ بننے والے بی ٹا ایمائی لوئڈ میں کمی واقع ہورہی ہے۔
اب اسی ٹیم نے بتایا ہے کہ روشنی اور آواز کی مدد سے بعض مریضوں میں دماغی بہتری پیدا کی جاسکتی ہے جس کی تفصیلات جرنل سیل میں شائع ہوئی ہیں۔ ایم آئی ٹی کے پروفیسر لائی ہوائی سائی اور ان کے ساتھیوں نے الزائیمر والے چوہوں کو روزانہ 40 ہرٹز کی روشنی میں ایک گھنٹے تک رکھا۔ اس سے چوہوں میں دماغ کا دشمن بی ٹا ایمائی لوئڈ کم ہوا اور ساتھ ہی زہریلے ٹاؤ پروٹٰین کی مقدار بھی کم ہوئی۔
اس کے بعد چوہوں کو مسلسل سات روز تک 40 ہرٹز کی آواز ایک گھنٹے تک سنائی گئی تو اس کے بھی اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اس سے نہ صرف دماغ میں آوازوں کے گوشے بلکہ یادداشت کے ایک اہم مرکز ’ہیپوکیمپس‘ سے بھی مضر کیمیکل اور پروٹین میں کمی دیکھی گئی۔ اسی کے ساتھ دماغ میں خون کا بہاؤ بھی بہت بہتر ہوا جو ایک اضافی فائدہ ہے۔
اس کے بعد ماہرین نے آواز اور روشنی دونوں کو ملاکر مزید ایک ہفتے تک استعمال کیا تو امائی لوئڈ میں مزید کمی دیکھی گئی۔ جس کے مزید فوائد دیکھے گئے ہیں۔ یہ طریقہ انسانوں کے لیے بہت محفوظ اور مؤثر ثابت ہوسکتا ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی انسانوں پر اس کی آزمائش شروع کی جائے گی۔

حصہ