افشاں نوید
قسط نمبر 2۔
سیّدہ فاطمہ الزہرۃؓ کی آغوش میں پلنے والا یہ پھول جو ایک عالم کو معطر کرنے والا تھا کہ ننھی سیّدہ زینبؓ چھ برس کی عمر میں نانا رسول خداؐ کی گھنی چھائوں سے محروم ہوئیں اور ٹھیک چھ ماہ بعد ماں کی جدائی کا عظیم صدمہ سہنا پڑا۔ معصوم بہن بھائیوں نے ان صدمے کو کیسے سہا ہوگا۔ البتہ ’’باب العلم‘‘ خود معّلم تھے اس خاندان کے۔ حضرت امام حسنؓ و حسینؓ اور سیّدہ زینبؓ نے تاریخ کا جو باب رقم کیا ہے اس کی توقع اس سے کم درجے کے کسی کردار سے نہیں کی جاسکتی۔ تاریخ کا رُخ ایسی ہی عظیم ہستیاں بدلتی ہیں۔ عمارت معمار کے ہاتھوں کا پتا دیتی ہے۔ سیّدہ زینبؓ کے علم و فضل کی ایک جھلک ہمیں ان تقاریر میں ملے گی جو انہوں نے انتہائی غم و الم کے مختلف مواقع پر اپنے خاندان کے لہو سے ہولی کھیلنے والوں کے سامنے کیں۔
ازدواجی زندگی کا آغاز:
طبقات ابن سعدؒ میں روایت ہیں کہ سیدہ زینب بنتِ علیؓ جب سن بلوغ کو پہنچیں تو قبیلہ کندہ کے رئیس اشعت نے ان سے نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت علیؓ نے اپنی لخت جگر کے لیے یہ رشتہ قبول نہ کیا۔ اس کے بعد ان کے بھتیجے حضرت جعفر طیارؓ (جو جنگِ موتہ میں شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہوچکے تھے) ان کے فرزند عبداللہ اپنے چچا حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت علیؓ کی نظریں دیکھ رہی تھیں کہ نکاح کا خواہش مند وہ نوجوان ہے جس کی تربیت اس کے باپ کی شہادت کے بعد خود نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ اس تراشیدہ ہیرے سے بہتر اور کون ہو سکتا تھا جس کے ہاتھ میں وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ دیتے۔ اس وقت حضرت علیؓ بحیثیت چچا ان کے نگراں اور سرپرست تھے، وہ نوجوان سیرت و صورت میں قریش میں اعلیٰ مقام رکھتا تھا، اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار کے باعث نکاح کی تاریخ مقرر ہوئی۔ یہ سیدنا عمر فاروقؓ کا دور خلافت تھا۔ اس وقت سیدہ زینبؓ کی عمر بارہ یا تیرہ برس تھی۔ سادگی سے نکاح کے بعد خاندان کی خواتین انہیں عبداللہ بن جعفرؓ کے گھر پہنچا کر آگئیں۔ ان کے مہر کی رقم میں روایات میں اختلافات ہیں۔ کہیں 480 درہم اور کہیں چالیس ہزار درہم درج ہے۔ حضرت عبداللہؓ مستحکم مالی حیثیت کے مالک تھے۔ تجارت کرتے تھے، اگلے دن دعوت ولیمہ میں دوست ، احباب نے شرکت کی۔
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کے گھر میں لونڈیاں اور خادم تھے لیکن سیدہ زینبؓ شوہر کی خدمت کو اعزاز سمجھتے ہوئے ان کے کام اپنے ہاتھوں کرکے خوشی محسوس کرتیں۔ حضرت عبداللہ کی یہ شہادت رہتی دنیا تک تاریخ کی کتابوں میں حضرت زینبؓ کے کردار کی گواہی کے طور پر موجود رہے گی کہ ’’زینبؓ بہترین گھر والی ہے‘‘۔
دونوں میاں بیوی جو دوسخا میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے، ناممکن تھا کہ کوئی سائل ان کے در پر آئے اور خالی ہاتھ چلا جائے، کتنے ضرورت مند گھرانوں کا وہ سہارا تھے۔ ان کی دریا دلی دیکھتے ہوئے امام حسینؓ نے ایک بار سرزنش کی کہ غیر مستحق لوگوں کے ساتھ دریا دلی کا معاملہ نہ کیا کریں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ ’’اللہ نے مجھے دولت دی ہی اس لیے ہے کہ اس کے بندوں میں تقسیم کردوں‘‘۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دولت کی ریل پیل سیدہ زینبؓ کے مزاج پر اثر انداز نہ ہوسکی، وہ زندگی بھر صبر و قناعت، سادگی اور جفاکشی کا پیکر دکھائی دیں۔
بحیثیت عالمہ:
37 ہجری میں اپنے عہد خلافت میں حضرت علیؓ نے کوفہ کو جائے مقام بنایا تو حضرت زینبؓ مع شوہر کے مدینہ منورہ سے کوفہ آگئیں۔ روایات میں ہے کہ جانفشانی سے درس و تدریس اور وعظ و ہدایت کے کام میں مشغول ہوگئیں۔ خواتین کے لیے مرجع خلائق قرار پائیں۔ خواتین قرآن و حدیث کے درس کے ساتھ ساتھ اپنے فقہی مسائل میں بھی ان کے علم سے سیراب ہوتیں۔ ان کے علم و فضل کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔
دورِ ابتلا کا آغاز:
سیدہ زینبؓ اپنے نانا اور والدین سے حاصل کیے ہوئے علم کی شمعیں روشن کررہی تھیں کہ 17 رمضان المبارک 40 ہجری میں مسجد کوفہ میں سجدہ ریز حضرت علیؓ کو دشمن دین عبدالرحمن بن ملجم نے قاتلانہ حملے میں شہید کردیا۔ حضرت زینبؓ غم سے نڈھال تھیں۔ انہیں یہ کیا معلوم نہ تھا کہ یہ تو دور ابتلاء کا آغاز ہے۔
خاتونِ کربلا:
روایات میں ہے کہ ذی الحج 60ہجری میں اس وقت درپیش حالات و واقعات کی روشنی میں سیدنا امام حسینؓ مکہ مکرمہ سے کوفہ کے لیے رخصت سفر باندھتے ہیں۔ اس کا محرک اہل کوفہ کی بار بار کی دعوت تھی۔ حضرت زینبؓ کو اس کی خبر ہوئی تو بے تاب ہوگئیں اور دو کم عمر فرزندوں کے ہمراہ اس مقدس سفر میں شامل ہوگئیں۔ شوہر عبداللہ بن جعفرؓ خود تو بوجوہ شریک نہ ہوسکے مگر حضرت زینبؓ کے جذبات کو دیکھتے ہوئے ان کو اور بچوں کو جانے کی اجازت دے دی۔ 10 محرم الحرام 61ھ اسلامی تاریخ کا کربناک دن۔ میدانِ کربلا اسلامی تاریخ کا چوراہا قرار پایا۔ حضرت زینبؓ کی آنکھوں کے سامنے ان کے خون کے رشتوں کے خون بہتے رہے، گردنیں تلواروں کے نیچے آتی رہیں، کن کن آستینوں کے خنجر بے نقاب ہوئے۔ سیدہ زینبؓ نے جس صبر کا مظاہرہ کیا تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
جو کچھ ہورہا تھا نگاہوں کے سامنے تھا۔ جو کچھ ہونے جارہا تھا اس کا نقشہ بھی نگاہوں سے اوجھل نہ تھا۔ شہادت سے قبل کی رات جب امام حسینؓ کی زبان پر چند درد ناک اشعار جاری ہوگئے تو حضرت زینبؓ فرط غم سے گویا ہوئیں کہ ’’اے کاش آج کا دن دیکھنے کے لیے میں زندہ نہ ہوتی۔ میرے نانا، ماں، باپ، بھائی حسنؓ داغ مفارقت دے گئے۔ اے بھائی اللہ کے بعد ہمارا سہارا آپ ہی ہیں آپ کے بنا ہم کیسے زندہ رہیں گے‘‘۔ جواب ملا ’’زینبؓ صبر کرو‘‘۔
بھائی کی آخری وصیت:
حضرت زینبؓ اس خواہش کا بے تابانہ اظہار کررہی ہیں کہ بہن کی زندگی بھی بھائی کو مل جائے۔ بھائی کے بجائے تلوار کی زد میں بہن آجائے۔ کیسے درد ناک ہوں گے وہ مناظر کیسی قیامت خیز گھڑیاں جب زینبؓ کے آنسوئوں کے سامنے جنت کے سردار سیدنا امام حسینؓ اپنے آنسو نہ روک سکے اور فرمایا ’’اے بہن صبر کرو۔ خدا سے تسکین حاصل کرو۔ خدا کی ذات کے سوا ساری کائنات کے لیے فنا ہے۔ ہمارے لیے ہمارے ناناؐ کی ذات اقدس نمونہ ہے۔ تم انہی کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کرنا۔ میری بہن۔ تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اگر میں راہ حق میں کام آجائوں تو میرے غم میں بین نہ کرنا‘‘۔
10 محرم الحرام کو جب چار سو ان کے پیاروں کے لاشے بکھرے پڑے تھے انہوں نے بھائی کی اس وصیت کی لاج رکھی اور عزم و حوصلہ کا پیکر بن گئیں۔
(جاری ہے)