زاہد عباس
’’یار میں کل رات بڑی مشکل سے بچا ہوں۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’رات تقریباً دو بجے کا وقت ہوگا، جب میں ساکرو سے نکلا تو کچھ لوگوں نے مجھے روک لیا۔ وہ شکل سے انتہائی خطرناک دکھائی دے رہے تھے، اندھیرے کی وجہ سے اُن کے چہرے پہچاننا مشکل ہورہا تھا، وہ لوگ اسلحہ سے لیس تھے اورموٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر آئے تھے۔ دور دور تک کھیت ہونے کی وجہ سے سارا علاقہ ہی سنسان تھا، بس چند لوگ اپنی فصلوں کو پانی دینے میں مصروف تھے۔ یقین کرو میری تو سانسیں ہی رک گئیں۔‘‘
’’کیا کہہ رہے تھے وہ لوگ؟‘‘
’’کہنا کیا تھا، وہی پیسے کا چکر۔ اصل میں اُس وقت میرے پاس پانچ لاکھ روپے تھے۔ مجھے لگتا ہے پکی مخبری تھی۔ وہ بار بار اسی رقم کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ہونا کیا تھا، کسی کے باپ میں اتنی طاقت ہے جو تیرے بھائی سے ایک روپیہ بھی چھین لے! ابے میں اُس نسل میں سے ہوں جس کا ایک ایک بچہ دس دس پر بھاری ہے۔ ہمارا خاندان تو ’’اکھاڑے والے‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ میرے چاچا کو کون نہیں جانتا! وہ ’’تین منٹ‘‘ کے نام سے مشہور تھے، بڑے سے بڑے پہلوان کو تین منٹ میں مٹی چٹا دیتے تھے۔ میرے دادا کے بارے میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ یہ سب خون کا اثر ہے۔ میرے ابو کو تو سارا محلہ ہی جانتا ہے۔ انہوں نے شیدے کی ٹانگ کیسے توڑی تھی سب جانتے ہیں، اور رمضانوں کو چوک پر بٹھا کر…‘‘
’’او بھائی، کل تیرے ساتھ جو ہوا وہ سنا۔‘‘
’’وہی تو بتا رہا ہوں۔ پچھلے دنوں اپنی موٹر سائیکل پر دس ہزار روپے لگائے تھے، ایک نمبر مال لگایا تھا، ایسی دوڑتی ہے کہ مت پوچھو۔ چینا استاد سے کام کروایا تھا۔ یار واقعی کمال کا مستری ہے، شاہراہوں پر گاڑیاں دوڑاتے رائیڈر بھی اس سے ہی کام کرواتے ہیں۔‘‘
’’کہاں کی بات کہاں لے جا رہا ہے… اپنی موٹر سائیکل کی تعریفیں کرتا رہے گا، یا کچھ بتائے گا؟‘‘
’’جو ہوا وہی تو بتارہا ہوں، اتنی جلدی کیا ہے! سُن، اُن میں سے ایک بندہ جوں ہی میرے قریب آیا، میں نے ہلکا سا ہی ایکسیلیٹر دیا اور یہ جا وہ جا… مجھے پکڑنا تو دور کی بات، گاڑی کا دھواں بھی نہ چھونے دیا۔‘‘
’’کیا باتیں ہورہی ہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں، اشتیاق کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی سن رہا ہوں، کل ساکرو میں ڈاکوئوں نے گھیر لیا تھا، بڑی مشکل سے جان بخشی ہوئی ہے، شکر ہے غریب لٹنے سے بچ گیا۔‘‘
’’اس کا ساکرو میں کیا کام! اور پھر جس کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہ ہو اُس کے ساتھ ڈکیتی جیسا واقعہ ہوجانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کل تو سارا دن یہ میرے ساتھ تھا، پھر یہ واقعہ کب ہوا؟ مجھے تو حیرت ہے کہ تجھ جیسا عقل مند آدمی اِس کی باتیں سن رہا ہے! یہ جہاں بھی کھڑا ہوتا ہے ایسی ہی پھینکتا ہے، وہی اپنے باپ کے قصے، شیدے کی ٹانگ توڑنے کی جھوٹی کہانی ہی سناتا ہے۔ سارا محلہ جانتا ہے کہ شیدے کی ٹانگ سائیکل سے گر کر ٹوٹی تھی، اب تو لوگ انہیں مودی کا رشتے دار کہتے ہیں۔‘‘
’’مودی کا رشتے دار؟ یار ایسا نہ کہو، اب اتنی بھی زیادتی نہ کرو۔‘‘
’’ان کے درمیان جھوٹ کا رشتہ ہے جو بلاتفریق ہوا کرتا ہے۔ تم ہی بتائو کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ یہ یہاں گپیں ہانک رہا ہے اور مودی بھارت میں یہی فرائض انجام دے رہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں یہ دونوں بھارتی میڈیا پر تجزیہ نگار بن جائیں، جو کمی رہ گئی ہے وہ پوری ہوجائے گی۔ سن نہیں رہے بھارتی میڈیا اور مودی کس قدر جھوٹی خبریں اڑا رہے ہیں، افواہوں کا ایک بازار گرم کررکھا ہے: پاکستان انڈیا میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے، اسی کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان پر بموں کی برسات کردی گئی ہے۔ پاکستانی حدود میں گھس کر 350 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے اور ایف سولہ طیارہ مار گرانے جیسے دعوے کیے جارہے ہیں۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ ایک نیا جھوٹ بولا جارہا ہے۔ کون کہتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے! اگر کسی نے نہیں دیکھے تو مودی کی شکل میں چلتا پھرتا تندرست اور ہٹا کٹا دیکھ لے۔ جبکہ اس کے برعکس صورتِ حال کے مطابق بھارتی طیاروں نے پاکستان کے علاقے میں داخل ہوکر ایک ویران جگہ اسرائیلی ساختہ بم گرائے۔ برطانوی صحافی رابرٹ فسک کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلم مخالف اتحادی ہیں، بھارت اسرائیلی ہتھیاروں کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جو بم گرائے گئے وہ اسرائیلی ساختہ تھے۔ رابرٹ فسک نے بھارتی دعوے کا منہ چڑاتے ہوئے لکھا کہ بھارت نے جن تین سو سے چار سو دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا، وہ پتھر اور درخت ثابت ہوئے۔
رابرٹ فسک نے انکشاف کیا ہے کہ جو ہتھیار فلسطین اور شام میں استعمال ہورہے ہیں، وہی بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل برما کو بھی ہتھیار فراہم کرتا ہے جہاں مسلمانوں پر زمین تنگ کی گئی ہے۔ بھارت کے 45 کمانڈوز کو اسرائیل میں ٹریننگ دی جاتی ہے۔ بھارت اسرائیل کو صرف اس لیے پسند کرتا ہے کیونکہ وہ مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔
جبکہ دوسری جانب چین نے سہ ملکی وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھارت کی تمام کاوشوں پر پانی پھیرتے ہوئے پاکستان کی حمایت کردی ہے۔ بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق بھارت کو ایک اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب چین نے تمام تر بھارتی حربوں کے باوجود پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے پاک وطن کو امن پسند ملک قرار دیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے روس، چین اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کی مخالفت کی ہے، پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ملک رہا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور صورتِ حال کو مزید کشیدہ ہونے سے روکنے کی یقین دہانیوں کا خیرمقدم کرتے ہیں، چین خطے میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
بھارتی جھوٹوں کی جانب سے بولے جانے والے جھوٹ کے قدم یہاں نہیں رکتے، بلکہ اُس وقت مزید آگے بڑھتے ہیں جب بھارتی فوجی آفیسرز کا سرِعام بولا جانے والا ایک اور جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔ پریس کانفرنس میں دکھائے گئے میزائل کے ٹکڑوں کی حقیقت سامنے آگئی۔ صحافیوں کو دکھائے جانے والے میزائل پرFA8675-05-c-0070 درج ہے، یہ امریکا کا مخصوص سیریز نمبر ہے، یہ اسلحہ 2009ء میں تائیوان کو 23 کروڑ 80 لاکھ ڈالر میں فروخت کیا گیا تھا۔ بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹ پکڑا گیا۔ اپنا جھوٹا دعویٰ سچ ثابت کرنے کے لیے ہندوستانی نیوز چینل نے پاک فضائیہ کے حاضر سروس پائلٹ کی ہلاکت کی جھوٹی خبر نشر کردی۔
آئیے بھارتی دعووں کے بعد بین الاقوامی نشریاتی اداروں میں آنے والی خبروں کی اصل حقیقت کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
امریکی اخبار کے مطابق اگر پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو اس صورت میں بھارت اپنے فوجیوں کو صرف 10 دن تک ہی اسلحہ اور بارود فراہم کرسکتا ہے، جبکہ بھارتی فوج کے 68 فیصد آلات اتنے پرانے ہیں کہ انہیں پرانا اور ناقابلِ استعمال قرار دیا جا چکا ہے۔ امریکی اخبار نے مزید لکھا ہے کہ بھارت اپنی فوج کے لیے جتنا بھی بجٹ مختص کرتا ہے یہ اہم نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ بجٹ خرچ کیسے کیا جاتا ہے۔ فوج کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ 12 لاکھ فوجیوں کی تنخواہ اور پنشن کی مد میں چلا جاتا ہے۔ اور نئے آلات خریدنے کے لیے صرف 14 ملین ڈالر ہی بچتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی ائیرفورس کی جانب سے بھارتی فضائیہ کو دیے جانے والے منہ توڑ جواب کے بعد جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کی دھوم مچ گئی ہے۔ بھارتی فضائیہ کے مگ 21 کو گرانے والے پاکستانی طیارے کی خریداری میں کئی ممالک نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اسی سلسلے میں 10 ممالک کی ائیرکرافٹ انڈسٹری پاکستان اور چین کے اشتراک سے تیار کیے جانے والے کم قیمت اور جدید جے ایف 17 تھنڈر جنگی طیارے کو خریدنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے، اور ان ممالک کی جانب سے جے ایف 17 تھنڈر جنگی طیاروں کی خریداری کے لیے پاکستان سے فوری رابطہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی میانمر اور نائیجیریا پاکستان سے جے ایف 17 تھنڈر جنگی طیارے خرید چکے ہیں۔ جبکہ آذربائیجان، مصر، ملائشیا اور دیگر ممالک بھی جے ایف 17 تھنڈر ہی خریدنا چاہتے ہیں۔
یہی سچ ہے اور یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے بھارت کی جانب سے لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کے جواب میں تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا، جبکہ بھارتی جنونی میڈیا کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا نے پیشہ ورانہ اور انتہائی ذمہ دار صحافت کی، جبکہ مسلح افواج نے عملی طور پر بھارت کی جانب سے کی جانے والی بزدلانہ کارروائیوں کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ دشمن کو ایسا سبق سکھایا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان نے ہمیشہ ترقی اور امن کی بات کی، لیکن بھارتی رویہ منفی ہی رہا۔ بھارت نے جو بھی کیا، اس پر الٹا اُسے ہی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ پاکستانی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والی آبدوز کی مثال ہی لے لیجیے، دنیا جانتی ہے کہ آبدوزوں کو سرچ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس محاذ پر پاکستانی سرحدوں کے محافظوں کی جانب سے بھارتی آبدوز کا پتا چلانا بڑی کامیابی ہے۔ بھارت نے ہمیشہ خطے کا امن خراب کرنے کی کوشش کی، خاص طور پر پاکستان کو میلی آنکھ سے ہی دیکھا۔ کون نہیں جانتا کہ پاک بھارت کشیدگی کی بنیادی وجہ بھارت کے آنے والے الیکشن ہیں۔ مودی سرکار انتخابات میں کامیابی کے لیے آگ سے کھیل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کی پالیسیوں کے باعث بھارت کی شکست شروع ہوچکی ہے، جس سے سب سے زیادہ نقصان خود بھارت کو ہی پہنچ رہا ہے۔ بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرکے تمام مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ اس صورتِ حال میں اقوام عالم کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کو تسلیم کریں، اور خطے کا امن تباہ کرنے کی سازش میں ملوث بھارت کے خلاف کارروائی کریں۔‘‘