افروز عنایت
صنوبر اور شاہ زیب کی شادی کا آج چوتھا دن تھا۔ وہ بیوی کو اُس کے والدین سے ملانے لایا تھا جہاں صنوبر کے والدین اور شادی شدہ بہنیں بھی موجود تھیں۔ صنوبر نے آپا کو اشارہ کیا (یوں لگ رہا تھا پہلے ہی سے کچھ طے تھا کہ کیا بولنا ہے)
آپا: شاہ زیب بھائی آپ کو ہماری بہن کیسی لگی؟
شاہ زیب: (ہنس کر) بری نہیں۔
آپا: بیوی کا شوہر پر یہ حق ہے کہ وہ اسے ہر طرح خوش رکھے۔ اللہ کرے آپ دونوں بھی ہمیشہ خوش رہیں… آپ اسے الگ گھر کب لے کر دیں گے؟
شاہ زیب: (حیران ہوکر) الگ گھر… کیا مطلب…؟
آپا: دیکھیں ناں، دینِ اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ شوہر سے الگ گھر کے لیے کہے۔
شاہ زیب: میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں، نہ اسے میرے والدین کے ساتھ کوئی تکلیف ہوگی، نہ میں اپنے والدین کو اس طرح اس عمر میں تنہا چھوڑ سکتا ہوں۔
٭٭٭
صغرا بیگم کے سات کڑیل جوان بیٹے ہیں، میاں نے محنت مشقت کرکے نہ صرف انہیں پالا پوسا، اچھی تعلیم دلوائی، بلکہ ان سب کی ملازمت کے لیے بھی تگ و دو کی، افسران کے آگے ہاتھ پیر جوڑے۔ آج وہ سب برسر روزگار اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ ساتوں کی بیویوں کا شوہروں سے یہ مطالبہ تھا کہ وہ الگ گھر میں رہیں گی۔ اس طرح بچوں نے الگ آشیانے بسا لیے اور بوڑھے ماں باپ کو الگ گھر میں نوکرانی کے حوالے کردیا۔ بیٹے وقتاً فوقتاً ماں باپ کا حال احوال پوچھتے رہتے ہیں۔ اب جب دونوں کی صحت جواب دے گئی ہے تو انہیں اپنوں کی ضرورت ہے۔ بیٹے وقت پر آتے ہیں… دوا دارو پلائی، حال احوال پوچھا اور چلے گئے۔ بیٹوں کو اپنے بوڑھے ماں باپ سے محبت بھی ہے، ان کے لیے پریشان ہیں، لیکن وہ بے بس ہیں، ان کی بیویاں کہتی ہیں کہ ان کی خدمت کرنا ہمارا فرض نہیں، اسی لیے کبھی کبھار آکر حال احوال لے جاتی ہیں۔
٭٭٭
صبیحہ: آپا کیا خرابی تھی اس رشتے میں، جو آپ نے انکار کردیا! تمام خوبیاں تو تھیں۔
آپا: سب سے بڑی خرابی تو مشترکہ خاندان تھا۔ ہاں اگر میری بیٹی کو الگ گھر لے کر دیں تو دوسری بات ہے۔ اب اس گھر میں اُس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی خدمت کرنے کے لیے تو میں اپنی لڑکی نہیں بیاہوں گی۔ ویسے بھی اسلام میں عورت پر ساس سسر کی خدمت فرض نہیں۔
٭٭٭
آج ہمارے معاشرے میں چاروں طرف یہ ’’وبا‘‘ گردش کرتی سنائی دیتی ہے کہ بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ شوہر سے الگ گھر کے لیے مطالبہ کرے، اور اس کے ماں باپ کی خدمت کرنا بہو کا فرض نہیں، شوہر زبردستی اپنی بیوی سے ماں باپ کی خدمت کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ اس ’’وبا‘‘ کا اثر اکثر و بیشتر لڑکیوں اور بہوئوں میں سرایت کررہا ہے۔
دینِ اسلام میں عورت کو جس عزت و مقام سے نوازا گیا ہے اس کی کہیں اور مثال نظر نہیں آتی۔ چاہے عورت کا کوئی بھی روپ ہو… ماں ہو، بیٹی ہو، بہن ہو یا بیوی… اس کی عزت و تکریم اور اسے اس کا صحیح حق دینا مرد پر فرض ہے، لیکن کسی ایک کے لیے دوسرے کے ساتھ ناانصافی یا اس کی حق تلفی کرنا جائز نہیں۔ دینِ اسلام ضابطۂ حیات ہے، معاشرتی زندگی کے استحکام کے لیے دینِ اسلام نے جو تاکید و تعلیم فرمائی ہے، اس کی کہیں مثال نظر نہیں آتی۔ حقوق العباد کی تعظیم و تقلید قرآن و حدیث سے ظاہر ہے۔ معاشرے کو مستحکم رکھنے کے لیے بندے کے ساتھ جُڑے تمام رشتوں کو اُن کا حق دینا بندے کا فرض ہے، لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ کسی دوسرے کی حق تلفی یا اس کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ وہ ماں باپ جنہوں نے تکلیفیں برداشت کرکے بیٹے کو پروان چڑھایا، اسے تعلیم سے آراستہ کرکے معاشرے کا معزز شخص بنایا، ایک عورت کے آتے ہی اُن کے حقوق کو کس طرح پامال کیا جا سکتا ہے! ہاں یہ ضروری امر ہے کہ مرد اپنی زوجہ کو سسرال میں عزت و تکریم دے اور اس کے حقوق کی پاسداری کا خیال رکھے، یعنی اس کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی اور ظلم نہ ہونے دے۔ گھر کے ایک حصے یا کمرے کو اس کے لیے مختص کرے جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق آرام کے وقت آرام کرے۔ اگر ان حقوق کے ملنے کے باوجود عورت الگ گھر کا مطالبہ کرے تو یہ ناانصافی ہے۔ یہ نہ صرف ماں باپ کے اوپر بلکہ اس مرد پر بھی ظلم ہے، کیونکہ ایسا مرد دو حصوں میں بٹ کر پس جاتا ہے۔ ہر مرد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ پورا کرسکے۔ اگر بے چارہ کر بھی لیتا ہے یعنی مطالبہ مان بھی لیتا ہے تو بھی اس کی جان دو گھروں میں اٹکی رہتی ہے، وہ بڑھاپے کی عمر میں والدین سے غافل رہ کر اپنی آخرت برباد نہیں کرنا چاہتا۔ ایک پائوں بیوی کے گھر تو دوسرا پائوں ماں باپ کے گھر… اس طرح اُس بے چارے کا سکون برباد ہوجاتا ہے جیسا کہ اوپر دیے گئے حقیقی واقعہ سے واضح ہے۔ لہٰذا بیوی کو ساس سسر کا نہ سہی اگر شوہر کا ذرا بھی خیال ہے تو وہ اسے اتنی بڑی آزمائش میں نہیں ڈالے گی۔ ایسی (الگ گھر کی خواہش رکھنے والی) بیوی کے لیے شوہر پیسہ بنانے کی مشین بن کر رہ جاتا ہے۔ دو گھروں کو چلانا اتنا آسان کام نہیں۔ ذہنی و جسمانی محنت و مشقت سے ایسے مرد خود جلد ہی بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے خواتین کو پُرسکون حالات میں ایسے مطالبے سے گریز کرنا چاہیے۔
دوسری جو ’’وبا‘‘ سرایت کررہی ہے وہ یہ ہے کہ بہوئوں کی ذمہ داری ساس سسر کی خدمت کرنا نہیں ہے۔ کیا شادی سے پہلے وہ اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتی آئیں؟ ان کے دل میں اپنے والدین کی محبت نہ تھی؟ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ شوہر کے ماں باپ سے بے رخی برتیں! پڑوس میں اگر کوئی تنہا بوڑھی عورت رہتی ہو تو تمام پڑوسیوں کا فرض ہے کہ اس کا خیال رکھیں، تو کیا ایک چھت کے نیچے، برابر کے کمرے میں رہنے والے بوڑھے ساس سسر کا خیال رکھنا بہو کا فرض نہیں بنتا کہ ان کے کھانے پینے اور دوا دارو کا خیال رکھے، دو منٹ بیٹھ کر ان کا حال احوال لے اور ان کی دلجوئی کرے! یہ چند لمحے جو وہ اُن کے ساتھ گزارے گی اس سے نہ صرف وہ انہیں خوشی دے گی بلکہ رب کی رضا بھی حاصل کرے گی۔ شوہر کے والدین بھی اس کے لیے والدین کے برابر ہیں، ان کے دلوں سے نکلتی دعائیں بھی اس کی زندگی میں کام آئیں گی، اور اس کا یہ حُسنِ سلوک اس کے لیے آگے کی راہیں کھول دے گا، یعنی اس کی اولاد بھی اپنے ماں باپ کے نقشِ قدم پر ہی چلے گی۔ فیس بک پر کسی نے ایک ’’کلپ‘‘ بھیجا کہ ایک آٹھ نو سالہ بچہ اپنے باپ کے ساتھ ’’اولڈ ہوم‘‘ میں دادا سے ملنے گیا، وہاں اس نے دیکھا کہ پنکھا نہیں لگا اور گرمی بہت ہے۔ اس نے باپ سے کہا کہ آپ ایک پنکھا اس کمرے میں لگوا دیں۔ باپ خوش ہوا کہ اس کا بیٹا بڑا جینیس ہے کہ اس نے پنکھے کی کمی نوٹ کی۔ بڑے فخر سے بیٹے سے کہا کہ اچھی بات ہے لیکن تم یہ کس لیے کہہ رہے ہو؟ بیٹے نے جواب دیا ’’اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جب آپ بوڑھے ہوکر اس اولڈ ہوم میں رہنے آئیں تو آپ کو گرمی نہ لگے‘‘۔ بچے کا یہ جملہ تلوار کا ایک گھائو تھا جو باپ کے دل میں لگا، اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اس بوڑھے باپ کو گھر لے آیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ابھی اولڈ ہوم کی وبا اتنی زیادہ نہیں پھیلی۔
٭٭٭
مائوں کو اپنی بیٹیوں کی تربیت میں یہ بات ذہن نشین کروانی چاہیے کہ جس گھر میں جا رہی ہو وہاں کے ماں باپ بھی تمہارے لیے والدین کا درجہ رکھتے ہیں، اُن سے اُن کی خوشیاں نہ چھیننا۔ کیونکہ وہ ماں بھی تو ایک عورت ہے جو اپنی اولاد کی محبت میں تمہیں حصہ دار بنارہی ہے۔ اس لیے بہو کو بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ وہ بھی شوہر کی محبت میں اس کے والدین کا حصہ برقرار رہنے دے۔ اگر مائیں ڈنکے کی چوٹ پر ایسے رشتے کا مطالبہ کریں گی کہ لڑکا الگ تھلگ ہماری بیٹی کو رکھے، اور ہماری بیٹی ملازمت بھی برقرار رکھے گی، گھر کے کام کاج نہیں کرے گی، تو ایسی مائوں کی بیٹیاں کیسے بڑے کنبے کے ساتھ نباہ کرنے کی اہل ثابت ہوں گی یا گھر داری انجام دے پائیں گی! ہم میں سے اکثر کو یاد ہوگا کہ ہماری مائیں رخصتی کرتے ہوئے تاکید کرتی تھیں کہ اب وہی تمہارا گھر ہے، وہاں کی خوشی و غم تمہارا ہے۔ میری والدہ اکثر ہم بہنوں کو دعا دیتیں کہ سدا سسرال میں کچن کی مالک بنو، تو اُس وقت ہم ہنستے تھے کہ کیا باورچن بننا ہے ہمیں! یعنی کچن سنبھالنا عورت کے لیے سعادت سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی سمجھ دار مائیں بیٹیوں کو ایسی ہی مثبت نصیحتوں کے سہارے گھر سے رخصت کرتی ہیں۔
ایک چھت تلے رہنے والے مشترکہ خاندان میں مسئلے مسائل کم، فائدے زیادہ ہیں۔ خصوصاً نئی آنے والی اولاد کی تعلیم و تربیت بزرگوں کے سائے میں ہونے سے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون رہتا ہے، مثلاً ماں اگر ایک بچے کی اسکول میٹنگ کی وجہ سے یا طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے مصروف ہوگی تو ایسے موقع پر ساس اور نندیں ہی کام آئیں گی اور دوسرے بچوں کا خیال رکھیں گی۔
میں نے اپنی والدہ محترمہ کو دادا کے سامنے ایک بہو نہیں بلکہ بیٹی کے روپ میں ہی دیکھا۔ دادا اپنے اصولوں کے معاملے میں بڑے سخت تھے۔ عورتوں کی بے جا آزادی، فلمیں دیکھنا، بازاروں میں آزادی سے گھومنا، یا گھر میں زور سے ہنسنا یا تیز آواز میں ٹی وی دیکھنا انہیں سخت ناپسند تھا۔ والدہ اُن کی خواہش کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالے رکھتیں۔ اور ہماری تعلیم و تربیت میں اسی چیز نے تقویت پہنچائی۔ دادا کے کھانے پینے کا نہ صرف خوب خیال رکھتیں بلکہ بہو بیٹیوں کو بھی یہی تاکید فرماتیں، اسی لیے دادا ہم سب سے خوش تھے۔ دادا کے آخری وقت تو والدہ نے دادا کا خاص خیال رکھنے کی ہم سب کو تاکید فرمائی۔ ان کی زندگی کے آخری تین دن ہم سب بہن بھائیوں کی ٹیم باری باری دن رات ان کے ساتھ لگی رہی۔ آج بھی اس قسم کی بہوئیں ناپید نہیں۔ یہ بچیاں پھولوں جیسی ہوتی ہیں، ان کی صحیح تربیت ہوتو اپنی خوشبو سے گھر کو معطر کر سکتی ہیں اور سسرال کو بھی مہکا سکتی ہیں۔
معذرت کے ساتھ کہ اکثر بیٹوں کی مائیں چاروں طرف یہ دیکھ کر فکرمند ہوجاتی ہیں کہ کہیں آنے والی بہو ہمارے بیٹے کو ہم سے جدا تو نہیں کردے گی۔ میری اپنی بیٹی کے سسرال والے رشتہ کرتے وقت اس خدشے میں مبتلا تھے کہ کہیں یہ اتنی پڑھی لکھی برسرروزگار لڑکی ہمارے بیٹے کو ہم سے جدا تو نہیں کردے گی، جس کا انہوں نے اظہار بھی کیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ اس گھرانے کی تمام لڑکیاں سسرال والوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے نباہ کررہی ہیں تو رشتہ طے ہوا، اور ماشاء اللہ آٹھ برسوں سے بچی سسرال میں ساتھ رہ رہی ہے، اور اسے سب سے بڑی خوشی اس بات پر ہوتی ہے کہ اس کے بچوں کو ددھیال کا پیار مل رہا ہے جو اُن کا حق ہے، اور دادا دادی کا حق بنتا ہے کہ ان کی یہ اولاد ان کی نظروں کے سامنے رہے۔ خدا تمام بچیوں کو یہ سمجھ اور عقل عطا کرے کہ مل جل کر رہیں، خوشیاں نہ صرف حاصل کریں بلکہ بانٹیں بھی (آمین)۔ کوشش ہونی چاہیے کہ مائیں بچیوں کے لیے ’’چھڑے چھاڑ‘‘ لڑکوں کے رشتے تلاش کرنے کے بجائے انہیں مل جل کر رہنے کا ڈھنگ سکھائیں۔ خدانخواستہ اگر حالات انتہائی گمبھیر ہوں اور لڑکی کا سسرال میں گزارا مشکل ہوجائے یا کنبہ بڑھنے کی وجہ سے سسرال والے خود ان کے لیے علیحدہ گھر کا انتظام کریں یا کہیں تو وہ الگ بات ہے۔ لیکن الگ ہونے کی صورت میں بھی ان بوڑھوں سے ناتا نہ توڑیں۔ بقول علمائے کرام: بیوی تو دوسری مل سکتی ہے مگر ماں باپ نہیں۔ گرچہ یہ جملہ بہت سخت نوعیت کا ہے۔ رب کریم نہ صرف بچیوں کو اچھے سسرال نصیب فرمائے، بلکہ سسرالیوں کو بھی نیک بہوئیں نصیب فرمائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر ایک اپنے فرائض اور حقوق سے واقف ہو، اور انہیں ادا کرنے کی توفیق بھی حاصل ہو۔ اسی طرح گھر جنت نظیر بن سکتا ہے۔