انصرمحمودبابر
بچپن کی خواہش اس طرح اچانک پوری ہوجائے گی ،کبھی سوچاتک نہ تھا۔ہواکچھ یوں تھا کہ مری سے مظفرآباد جانے کا پروگرام اچانک بناتھا۔ان دنوں ہمارے ایک دوست ہوتے تھے وہاںجواچھے عہدے پر فائزتھے۔ 14 اگست ہونے کی وجہ سے اچھی خاصی گہماگہمی کا سماں تھا۔ کوسٹر میں بھی ملی نغمے گونج رہے تھے۔سڑک کے ایک طرف اونچی چوٹیوں والے مغرور پہاڑ تھے اور دوسری جانب انتہائی گہرائی میں بل کھاتا اور شور مچاتا ہوا دریائے جہلم۔ لوئر ٹوپہ سے تھوڑا آگے نکلیںتوآگے کوہالہ آتاہے۔یہ ایک پل ہے جس کے ایک طرف پنجاب ہے تو دوسری طرف آزادکشمیر۔ پل کے نیچے دریاکے اندر چارپائیاں اور میزکرسیاںرکھی گئی ہیںجن پر بیٹھ کرسیاح پکوڑے اور چائے کا لطف لیتے ہیںاور ساتھ ساتھ تصویرکشی بھی کی جاتی ہے۔آپ چاہیں تو سن باتھ کے مزے بھی لے سکتے ہیں اور اگر ذرا مزید خطرہ مول لے سکیں تودریاکے تندوتیزاوریخ ٹھنڈے پانی میں نہا بھی سکتے ہیں لیکن ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آخرالذکر سے گریز کیا جائے۔ بہرحال مزید آگے جائیں تو برسالہ کا مقام ہے۔ یہ ایک تفریح گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی اہمیت کی حامل جگہ بھی ہے۔تاریخی اس اعتبارسے کہ یہاں ایک کاٹیج ہے جسے قائد ِ اعظم ہٹ بھی کہتے ہیں۔مشہورہے کہ یہاں پر26 جون 1946کوقائدِ اعظم محمدعلی جناحؒ اورمحترمہ فاطمہ جناح ؒنے سری نگر سے راولپنڈی آتے ہوئے قیام کیاتھا۔اس سے آگے ہمارے مایہ ناز انجینئرز نے پہاڑوںکوکاٹ کاٹ کر ایک بہت بڑی ٹنل بنائی ہے ۔یہ بھی ایک قابل ِ دید منظرہے۔چھترکلاس بھی اسی راستے کا ایک اسٹاپ ہے جہاںپرکبھی سیاسی مخالفین کوزدوکوب کرنے کاعقوبت خانہ قائم کیاگیاتھا اوراب اس عمارت میں تھانہ قائم ہے۔(ہمارے تھانے بھی کسی عقوبت خانے سے کم نہیں)۔اس سے آگے مزید دلچسپ صورت ِ حال یہ ہے کہ یہاں دریا کے ایک طرف آزادکشمیر ہے اور دوسری جانب خیبرپختونخواہ کے بلند وبالا پہاڑی سلسلے ہیں۔
دولائی کے مقام پرنہایت بلند پہاڑسے گرتی ہوئی ایک آبشارہے جسے کشمیر آبشارکہتے ہیں۔یہ آبشارچونکہ ’’کے پی کے ‘‘میںواقع ہے اور آپ سفر کر رہے ہوتے ہیں آزادکشمیر میں ۔ اورسونے پہ سہاگہ یہ کہ اس مقام پردریاکوپارکرنے کے لئے کوئی پل تعمیرنہیںکیاگیا۔بلکہ ایک چئیر لفٹ ہے جوآپ کوجو اس آبشار میں بھیگنے کے لئے اس پار لے جاتی ہے۔یہ ایک انتہائی خوبصورت مقام ہے جہاں پر خواتین وحضرات کا ایک ہجوم ہوتاہے جوانتہائی بلندی سے گرتی ہوئی اس آبشارکے چھینٹے اڑاتے ہوئے شفاف پانی میں نہاتے ہوئے خوب اچھل کودکررہے ہوتے ہیں۔جیساکہ میں نے پہلے بھی عرض کیاہے کہ وادی نیلم میرے لئے کسی الف لیلوی داستاں سے کم نہ تھی اور جسے جاگتی آنکھوں سے وہاں جاکردیکھنا میرا بچپن کاخواب تھا۔اس لئے رات کو سوتے ہوئے بھی میراذہن نیلم کا خیالی خاکہ پردہ ء تصورپردکھاتارہا۔صبح اٹھ کر ڈٹ کر ناشتہ کیااورجانب ِ نیلم گامزن ہوگئے۔ اس دوران میرا جوش دیدنی تھا۔اب دریاکے اِس پارآزادکشمیرہے اور اُس پار مقبوضہ کشمیر۔ یہاںدوردرازکے علاقوں سے بہت زیادہ لوگ سیرکوآتے ہیں۔یوم ِ آزادی ہونے کی وجہ سے بھی رش زیادہ تھا۔بہرحال جلدہی ہماری باری آنے پر فوج کا ایک چاک و چوبند جوان آگے آیااورفراخ پیشانی ،چمکتی ذہین آنکھوںاور مسکراتے ہونٹوںکے ساتھ ہمیں سلام کیا۔ہمارا حال احوال پوچھا اوردوران ِ سیر اپنے بھرپور تعاون کایقین دلایااوراتنی دور سیرکو آنے پرہماراحوصلہ بڑھایااورشکریہ اداکرکے ہمیںآگے جانے کی اجازت دی۔نیلم جہلم پراجیکٹ بھی اسی علاقہ میں واقع ہے۔اٹھ مقام،کنڈل شاہی اورکٹن وغیرہ سے فارغ ہوکربہرحال ہم لوگ کیرن سیکٹرپہنچ گئے۔
سطح سمندر سے تقریباً 1620میٹرکی بلندی پرواقع یہ وادی واقعتا میرے خوابوں کی تعبیر سے بھی بڑھ کرحسین تھی۔اتنی حسین کہ میں اب بھی خود کوعالم ِ خواب میں محسوس کررہاتھا۔ منہ سے بے ساختہ سبحان اللہ کی تکرار جای تھی۔حسن کی تعریف کرتی ہر کتاب میں درج کہانیاں سچ ثابت ہورہی تھیں۔پہاڑوں کی بلندی اور عظمت کی ایک ایک بات جوڈرائیور نے کہی تھی،سچ تھی۔خداکی پناہ! ۔ پہاڑ اورپہاڑوں پہ اگے سرسبزدرخت اتنے اونچے بھی ہوسکتے ہیں؟۔تاحد ِ نگاہ پھیلے سبزے کی ایک ملائم چادرتھی جوچارسوپھیلی تھی۔ہمارے دوست نے دریاکے اُس پار واقع پہاڑوں پر انڈین آرمی کے مورچوں اور خاردار تاروں کی طرف اشارے سے بتایاتولاشعوری طورپرہمارے چہروں پہ سنجیدگی کی تہہ چڑھتی چلی گئی۔دریائے نیلم کاپاٹ کوئی خاص چوڑاتونہ تھالیکن مقبوضہ علاقہ ہونے کی وجہ سے اورپانی کے انتہائی ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے اسے پاٹنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔لیکن اگریہ سب آسان بھی ہوتاتوایسے مقبوضہ،غلام اور خستہ حال علاقے میں جاناشایدہی کوئی پسندکرتا۔
اچانک میری نظرایک پگنڈنڈی پرآہستہ روی سے چلتے دس بارہ سال کے چارپانچ لڑکوں پرپڑی۔ان کے لباس اور پشت پہ لٹکتے تھیلوں سے میں نے اندازہ لگایاکہ شاید یہ اسکول سے واپس آرہے ہیں۔درمیان میں فاصلہ ہی کتناتھا۔چندگزکادریا؟۔لیکن شاید یہ فاصلہ صدیوں کا فاصلہ تھا۔یہ فاصلہ نسلوں کا فاصلہ تھا۔یہ فاصلہ غلامی سے آزادی تک کافاصلہ تھا ۔وہ بچے میرے سامنے سے گزرتے چلے گئے۔انھوں نے آنکھ اٹھاکربھی ہماری طرف نہ دیکھاتھا۔ان بچوں کی چال کی پختگی ،چہروں کی سنجیدگی اورآنکھوں کی اداسی بھارتی ریاستی جبر،پسماندگی اوراحساس ِ محرومی کی کھلی کتاب جیسی تھی۔ان بچوں کی بوڑھوں جیسی بردباری اوربیمارولاوارث اجنبی جیسی لاچاری کے تاثر نے میرے دل ودماغ میں چنگاریاں سی بھر دیں۔اگرچہ اس سے آگے ہماراپروگرام شاردہ ،کیل اورتائو بٹ تک جانے کا تھا۔مگرغلامی کی چکی میں پستی اس تیسری نسل کے وجودپہ لکھے دردکے نوحے میرے پائوں کی زنجیر بن رہے تھے۔دوستوں نے کافی اصراربھی کیامگرمیری آنکھوں کی سرخی اورچہرے سے جھلکتے غضب کو دیکھ کرچپ ہورہے۔نیلم کے اس پارکی دکھ بھری خاموشی اوراداس ہوائوں کے مرثیے آج بھی میرے کانوں میںگونج رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیرکی بنجرہوتی زمین اورزخمی پرندوں والی غمگین فضائیںمجھے آج بھی بلاتی ہیں،رلاتی ہیں۔مگرمیں کیاکروں ؟۔ میںکیاکروں کہ میرے پیروں میں سرحد نامی زنجیر پڑی ہے۔مگرایک دن۔۔انشاء اللہ ایک دن میںضرورآئوںگا۔پیام ِ صبح کی نوید لے کر۔آزادی کا مژدہ جانفزالے کر۔نجات دہندہ بن کر۔میرے کشمیرمیں ضرور آئوںگا۔