بہت خوب صورت ہے بارش مگر یہ

707

صائمہ جبین مہکؔ
فلک پر ابھرتی گھنگھور گھٹائیں اور درختوں کے پتوں سے اٹکھیلیاں کرتی ہوائیں دلِ مضطرب کو لبھانے لگتی ہیں۔الماری میں رکھے قلم و قرطاس مع ایک گرماگرم چائے کی پیالی کے ساتھ میز کے نقش و نگار میں اضافہ کر دیتے ہیں اور کھڑکی کا پردہ ہٹا کرٹھنڈی ہوائوں کے جھونکوںکا مزہ لیتے ہوئے بھیگے ہوئے قلم کے ساتھ ہم جیسے شاعر جذبات کے نقوش مجسم کرنے لگتے ہیں۔ مگر ایک شعر کہیں غزل کے مصرعوں کے ساتھ لڑھک جاتا ہے جب چھت سے ٹپ ٹپ کرتا پانی کمرے میں رکھی چیزیں بھگونے لگتا ہے۔

بہت خوب صورت ہے بارش مگر یہ
غریبوں کی چھت کیوں گرانے لگی ہے

میں اس کالم میں کوئی شعری روداد بیان کرنے نہیں جا رہی۔ میرے قارئین خوب واقف ہیں کہ میرے شعری وجدان سے جو وطن کے ہر دکھ سکھ کا شریک ہے۔جہاں بارش مجھ جیسے کئی افراد کو لبھاتی ہے وہاں یہ ہی بارش بعض لوگوں کے لیے بے شمار مسائل لے کر آتی ہے۔
بارانِ رحمت کو میں مسئلہ ہر گزنہیں کہوں گی لیکن اس مملکت کے مقتدر طبقات سے ضرور گزارش کروں گی کہ عوام الناس کے ان مسائل کی طرف ضرورتوجہ دیںجہاں بارش ان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔ جنوری و فروری کی بارش جہاں کسانوں کی آنکھوں میں چمک لے کر آئی ہے وہاں روزانہ سفر کرنے والے مسافروں کے لیے بے شمار مسائل بھی لے کر آئی ہے۔بارش سردی کی ہو یا گرمی کی سفری مشکلات کا سامنا ہر حال میںکرنا پڑتا ہے۔بارش میں سفر کرنے کا اتفاق تو ہوش سنبھالنے کے بعد متواتر رہا ہے لیکن کبھی اس مسئلے کو اتنی شدت سے سوچا نہیں جتنا سوچ کر آج قلم اٹھایا اورکالم لکھنے بیٹھ گئی۔
لاہور سے واپسی میں بھیگے موسم کا ساتھ رہا۔ بارش سے متعلق موسیقی کا مزا لینے کے ساتھ تین چار نظمیں بھی تراش ڈالیں لیکن لاری اڈے کا منظر نہیں بھلایا جارہا۔جہاں کار سے اتر کر بس تک جانا محال تھا۔ گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں ، جگہ جگہ بارش کے پانی سے بھرے گڑھے اور سفری روداد سناتے ہوئے مسافروں کے چہرے میرے وجدان میں نہ جانے بارش کے کتنے موسموں کا احوال بیان کر گئے۔یہ دنیا مسافر خانہ ہے اور یہاں ہم سب مسافر ہیں یہ بات تو طے ہے کہ مقررہ مدت کا سفر طے کرنے کے بعد دو گز زمین کا ٹکڑا ہماری منزل ہے لیکن جیتے جی ان سانس لیتے ہوئے مسافروں کی بھی کوئی نہ کوئی منزل ہوتی ہے، کوئی اپنے پیاروں سے ملنے جا رہا ہے،کوئی خوشیوں میں شریک ہونے جا رہا اور کوئی روتا ہوا کسی پیارے کے دکھ میں شریک ہونے جا رہا ہے، دکھ سکھ کے موسم بارش دھوپ ، سردی گرمی تو نہیں دیکھتے اور ہر انسان کو ہر حال میں سفر کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ عوام کی سفری مشکلات کو آسان بنایا جائے۔
بہت سی ترامیم کے ساتھ کچھ نگاہِ کرم ادھر بھی کہ لاری اڈوں کو پختہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مناسب دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ٹرانسپورٹ کسی بھی ملک کی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے صرف بھاری مالیت کی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ نہ کیا جائے بلکہ لاری اڈوں کی حالت بھی بہتر بنائی جائے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے لاری اڈوں کو پختہ کیا جائے۔ عوام میں بھی یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ صفائی ستھرائی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے لاری اڈوں کو گندگی کا ڈھیر نہ بنایا جائے ، کالم لکھنے کا مقصد ان لاری اڈوں کو پختہ بنانا ہے وہاں عوام سے بھی اپیل کرنا ہے کہ مسافر خانوں اور لاری اڈوں پر بے جا گندگی پھیلانے سے بہتر ہے کہ کوڑا کرکٹ کو کوڑادانوں میں پھینکا جائے، اور اڈہ مالکان کی بھی ذمہ داری ہے کہ لاری اڈوں کی پختگی کے ساتھ ساتھ وہاں کی صفائی ستھرائی کا بھی مناسب انتظام ہو۔ ہمارے پیارے ہر روز سفر میں ہوتے ہیں، نوکری کے لیے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے بھی روزانہ سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے سڑکوں کو پختہ کرنے کے ساتھ ساتھ لاری اڈوں کی پختگی بھی نہایت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جو اڈے پختہ ہیں وہ گر دو غبار تلے دب کر دوبارہ مٹی ہو جاتے ہیں تو اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ان اڈوں کی مناسب صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال کا بھی انتظام کیا جائے ہمارے ملک میں بیشتر تعمیرات مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی کی جانب چلی جاتی ہیں۔میرا سب سے سوال ہے کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے لاری اڈوں کو نہ صرف پختہ ہونا چاہیے بلکہ ان کی مناسب دیکھ بھال بھی ہو؟ یہ ملک جہاں امراء کا ہے وہاں غریبوں کا بھی ہے۔ جہاں لوگ اپنی چمکتی دمکتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں وہاں ان غریب عوام کا بھی ضرور خیال رکھنا چاہیے جو ہر روز دھکے کھا کر گندگی میں سفر کرتے ہیں۔ذمے داران سے گزارش ہے کہ کچھ نظرِکرم ان مسائل کی طرف بھی کرتے ہوئے عوام کو صاف ستھر ا پاکستان مہیا کیا جائے۔

حصہ