سعودی ولی عہد کا دورہ ،پاکستان کے خوشحال دور کا آغاز!۔

321

محمد انور

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دو روزہ دورے پر پاکستان آئے ہوئے ہیں جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے اس وقت کنگ محمد بن سلمان اپنے دورے کی دوسرے دن کی مصروفیات میں مشغول ہونگے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دو روزہ دورے پر 16 فروری کو جب پاکستان پہنچے تو ان کے ہمراہ شاہی خاندان کے اہم افراد کے ساتھ ساتھ وزرا اور کاروباری شخصیات سمیت ایک بڑا وفد بھی موجود ہے۔ جن کی حفاظت کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکورٹی کے سخت اقدامات کیے ہوئے تھے۔
خانہ کعبہ کی مقدس سر زمین کے حکمراں کی ملک میں آمد یقینا سب کے لیے مسرت کا باعث ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں تبدیلی آرہی ہے۔پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نا تجربہ کار ہونے کے باوجود ملک کو بہتر رخ پر چلانے کے لیے سرگرم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔
سعودی شاہی مہمان اور ہر لحاظ سے بڑی شخصیات کی آمد ملک کے مستقبل کے حوالے سے اہم اور تاریخی ہے۔ حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے پاکستان کے خوشگوار ایام کی شروعات ہوجائے گی۔ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ریکارڈ سرمایہ کاری پیکج تیار کیا گیا ہے جس سے نہ صرف مالی مشکلات سے دوچار پاکستان کو مدد ملے گی بلکہ ساتھ ساتھ ” ارضی سیاست کو درپیش چیلنجز بھی حل ہونے لگیں گے۔
واضح رہے کہ متوقع سرمایہ کاری کے تحت بحیرہ عرب میں واقع اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل گوادر پورٹ پر 10ارب ڈالر کی آئل ریفائنری اورآئل کمپلیکس کی تعمیر ہے بھی شامل ہے یہ جگہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا بھی مرکزی مقام ہے۔
قوی امکان ہے کہ پاکستان کو شاہی مہمان کی میزبانی کے دوران سعودی عرب سے دس ارب ڈالر کی امداد بھی مل سکتی ہے۔اگر ایسا ہوگیا تو یہ بات ملک کے ساتھ عمران خان کی حکومت کے لیے غیر معمولی خوشی کا باعث ہوگی۔
یادرہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد گزشتہ سال ستمبر میں سعودی عرب کے دورے دوران ان کا استقبال بھی سعودیہ کی تاریخ میں کسی پاکستانی وزیراعظم کا پہلا شاندار استقبال تھا اور یہ عمران خان کا وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بحیثیت وزیراعظم کسی بھی ملک کا پہلا دورہ تھا۔ گمان ہے کہ عمران خان نے منت مانگی ہوگی کہ اگر وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو سب سے پہلے شکرانے کے طور پر عمرہ ادا کریں گے۔اسی دورے کے دوران انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ جس کی تکمیل ان دنوں ہورہی ہے۔
ملک میں سعودی ولی عہد کی آمد اور دو روز تک قیام کے نتیجے میں ملک کی سیاسی فضاء یکسر بدلنے کے ساتھ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے ہزیمت اٹھانے کے مساوی ہے کیونکہ’’ مختصر مدت حکومت ‘‘ کے دوران اس طرح کی کامیابی مذکورہ جماعتوں کے حصے میں نہیں آسکی تھی حالانکہ دونوں جماعتیں تین تین مرتبہ حکومت میں رہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کا دورہ اس بات کا اشارہ بھی دے رہا ہے کہ اسلامی ممالک میں قربتیں بڑھ رہیں ہیں جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے خوش آئند ہے۔
خیال ہے کہ سعودی عرب کے سربراہ کے دورے اور اس کے ثمرات کو تادیر پاکستانی یاد رکھیں گے بالکل اسی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سعوی عرب کے سابق سربراہ شاہ فیصل شہید کی آمد کو یاد رکھا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے بھٹو دور کے بعد اور مسلم لیگ نواز نے اپنے قیام کے بعد ملک کے مفاد میں عرب ممالک سے تعلقات کو اس طرح اہمیت ہی نہیں دی جس طرح یہ دونوں امریکا کو دیا کرتی تھیں۔
لیکن قدرت شان دیکھیں وہی امریکا آج پاکستان سے بہتر تعلقات کا خواہش مند بنا ہوا ہے حالانکہ وزیر اعظم عمران خان امریکا کے حوالے سے واضح طور یہ کہہ چکے ہیں کہ’’ وہ کبھی بھی کسی ایسے ملک کے ساتھ تعلق قائم رکھنا نہیں چاہیں گے جو پاکستان کو ’کرائے کے قاتل‘ کے طور پر استعمال کرے، ’’یعنی پیسوں کے عوض کسی اور کی جنگ لڑنا‘‘۔
موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید اپنی جگہ لیکن کم وقت میں وزیراعظم عمران خان کے عرب ممالک کو قریب لانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور دوروں سے یہ بات بھی آشکار ہورہی ہے کہ وہ ملک کو مالی بحران سے نکالنے کے ساتھ ’’ اسلامی سیکٹر ‘‘ کا دنیا پر غلبہ قائم کرنے کے لیے بھی ایک مثبت پروگرام اپنے ایجنڈے میں رکھتے ہیں۔ یورپی دنیا میں ترکی سے پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا بھی ان کی بہترین پالیسیوں میں سے ایک ہے۔
قوم کو یقین ہورہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں مختلف غیر معمولی اقدامات اور بہترین خارجہ پالیسی کے نتیجے میں دنیا بھر میں پاکستان کا نام نہ صرف بلند کرے گی بلکہ طاقت کے نشے میں مست امریکا کو بھی اس کی اپنی اصلیت دکھانے کے لیے اسے اسی طرح جواب دیتی رہے گی۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں کا قلعہ مانا جاتا ہے۔ لیکن اس حیثیت کو جب تسلیم کیا جاسکے گا جب تمام اسلامی ملک اس کی اہمیت اور حیثیت کا برملا اظہار کرکے اس کے ساتھ قربتیں بڑھاتے رہیں گے۔
سچ تو یہ ہی ہے کہ روشن اور خوشحال پاکستان کی شروعات ہوچکی ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف سخت کارروائیاں اور ان کے لیے کرپشن کے راستے بند کرنا بھی ملک کی ترقی کا راستہ ہوگی۔

حصہ