برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

485

قسط نمبر176
(چوتھا حصہ)
ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے ساتھ ہی سندھ کے حوالے سے سندھ اسمبلی سے ایک بل منظور کروایا۔ یہ متنازع بل سندھ میں سندھی زبان کو سرکاری زبان بنانے کا تھا۔ اردو بولنے والے شہری علاقے اس بل کے منظور ہوجانے سے براہِ راست متاثر ہورہے تھے۔ اس اہم معاملے پر جماعت اسلامی نے بھرپور اسٹینڈ لیا اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ جماعت اسلامی کا مؤقف بہت واضح تھا کہ سرکاری زبان اردو ہی ہونی چاہیے، اور اس میں کسی قسم کی چھیڑچھاڑ ملکی وحدانیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ماضی میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کا بنیادی سبب زبان کی وجہ سے ہی پیدا ہوا تھا۔ جماعت اسلامی نے کانفرنسوں اور گفتگو کے ذریعے اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی۔ لیکن حکومتی حلقوں نے اس پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعصب اور منافرت کو پروان چڑھایا اور لسانی فسادات شروع کرا دیے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں ہنگامے شروع ہوئے جن میں 55 شہری ہلاک اور سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ ان فسادات کا زیادہ شکار سندھ کے شہری علاقے تھے جن میں اردو زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ ان ہنگاموں میں سیکڑوں دکانوں کو آگ لگا دی گئی اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا۔ اس اعتبار سے بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی سندھ کارڈ کا استعمال شروع کردیا، جس کے نتیجے میں اردو بولنے والے علاقوں میں بھی سندھیوں کے خلاف تعصب کی فضا نے جنم لیا اور کراچی، حیدرآباد، سکھر وغیرہ میں اردو زبان کی بنیاد پر تحریکیں شروع ہوئیں، جن میں زیادہ تر پاکستان مخالف اور بائیں بازو کے لوگ شامل تھے جن کا مقصد ان فسادات کے ذریعے صرف اور صرف باقی ماندہ پاکستان کو نقصان پہنچانا تھا۔ کراچی میں مشہور شاعر رئیس امروہوی، ترقی پسند رہنما مختار رضوی وغیرہ ان تحریکوں کے سرخیل بن کر سامنے آئے۔ ان خراب ترین اور نازک حالات میں بھی جماعت اسلامی نے تعصب اور لسانیت کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں اردو بولنے والے غیر محفوظ ہوتے جارہے تھے اور انھوں نے اپنی جان و مال بچانے کے لیے شہری علاقوں یعنی بڑے شہر کراچی کی جانب ہجرت شروع کی۔ کئی خاندان اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کراچی میں اپنے عزیزوں کے ہاں مقیم ہوگئے۔ ان میں سے کچھ خاندان حالات بہتر ہوجانے کے بعد واپس اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ گئے، مگر بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنھوں نے کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف لاڑکانہ شہر میں اردو بولنے والوں کی تعداد 40 ہزار کے قریب تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں وہاں کے لوگ شہروں میں گئے کہ بعد میں صرف پانچ ہزار آبادی اردو بولنے والوں کی باقی بچی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنے بڑے فسادات ہوئے ہوں گے!
اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے قائم مقام امیرجماعت اسلامی میاں طفیل محمد صاحب نے دو مرتبہ سندھ کے دیہی و شہری علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا اور عوامی اجتماعات و خصوصی ملاقاتوں کے ذریعے بھائی چارگی کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی۔ سندھ میں رہنے والوں (جن میں اردو اور سندھی زبان بولنے والے دونوں شامل تھے) کے مشترکہ جلسوں اور تقاریب سے خطاب کیا۔
جماعت اسلامی کی ان تمام تر کاوشوں اور بل کی جائز مخالفت کا خاطر خواہ اثر ہوا، اور صدر ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا مودودیؒ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ ستمبر کے مہینے میں مولانا مودودیؒ اور بھٹو لاہور کے گورنر ہاؤس میں ایک دوسرے سے ملے۔
اس ملاقات میں بھٹو نے مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’مولانا یہ تصادم کی پالیسی کب تک جاری رہے گی؟‘‘ مولانا مودودیؒ نے فرمایا ’’ہماری تو کسی سے تصادم کی پالیسی نہیں ہے۔ جب تک آپ کی جماعت اکثریت میں ہے اور برسر اقتدار ہے، ہم غیر جمہوری طریقے سے آپ کو ہٹانے کی کوشش نہیں کریں گے، لیکن حزبِ اختلاف کی حیثیت سے آپ کی پالیسیوں سے اختلاف کرنا ہمارا جمہوری حق ہے اور حکومت کی غلط پالیسیوں پر ہم تنقید بھی کریں گے اور ٹوکیں گے بھی! اگر حزبِ اقتدار اور حزبِ مخالف اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے درست کام کریں تو تصادم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ اسی ملاقات میں مولانا مودودیؒ نے بنگلہ دیش کے متعلق جماعت اسلامی کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے آئندہ آنے والے خطروں کی بھی نشاندہی کی۔
اس ملاقات کے بعد بھی جماعت اسلامی نے اپنے پالیسی بیان کی روح کے مطابق ہی کام کیا اور پُرامن جمہوری احتجاج اور اختلاف کو ریکارڈ کروایا۔ اس ضمن میں حزبِ مخالف کے چوٹی کے رہنماؤں کو ساتھ ملا کر بھٹو کی آمرانہ پالیسیوں کی کھلم کھلا مخالفت جاری رکھی۔
دورانِ احتجاج حزبِ مخالف کے متعدد کارکنان اور رہنمائوں کو گرفتار کیا جاتا رہا اور انہیں بہیمانہ تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا، جس پر مولانا نے بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ انتقام اور غصے کی پالیسی کو ترک کریں اور گرفتار شدگان کی فوری رہائی کا حکم جاری کریں۔
اس کے ایک سال بعد قادیانیوں نے بھی اپنے کل پرزے نکالنے شروع کیے۔ اس حوالے سے اگر بھٹو کا ذکر نہ ہو تو زیادتی ہوگی۔ قادیانیوں کے خلاف بھٹو کے تاریخی فیصلے کو عالم اسلام میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ 29 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ جو اسٹڈی ٹور کے سلسلے میں شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے گئے تھے، واپسی کی ٹرین پر سوار ہوئے۔ یہ طلبہ ایک بوگی میں سوار تھے، جب ٹرین ربوہ ریلوے اسٹیشن پر کچھ دیر کے لیے رکی تو ان طلبہ پر قادیانی لڑکوں نے باقاعدہ سریوں اور چاقوئوں سے حملہ کیا، جس سے تمام لڑکے لہولہان ہوگئے۔ زخمی طلبہ کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے 22 مئی کو پشاور جاتے ہوئے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی لٹریچر لینے سے صاف انکار کردیا تھا اور ختمِ نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ قادیانی پہلے سے انتظار میں تھے کہ جب یہ گروپ واپس آئے گا اور ٹرین ربوہ اسٹیشن پر ٹھیرے گی تب ان سے حساب کتاب برابر کریں گے۔ اس طرح واپسی پر ان کی گاڑی باضابطہ روک کر طلبہ پر ظلم و تشدد کا ہر نیا طریقہ آزمایا گیا جس سے 30 طلبہ شدید زخمی ہوئے۔ زخمی طلبہ کی ٹرین جس جس اسٹیشن پر رکتی تھی، اشتعال پیدا ہوتا جاتا۔ اس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردعمل ہوا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ہڑتالوں اور پُرجوش مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا یہ مطالبہ ایک عوامی مطالبہ بن کر سامنے آیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ہر مسلمان مرد و عورت کا یہ مطالبہ بن گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پہلے ہی ایک کتابچہ لکھ چکے تھے جس میں مسئلہ قادیانیت کو آسان ترین انداز میں بیان کردیا گیا تھا۔ اسی کتابچے کی بنیاد پر ایوب خان کے دور میں قادیانی لابی کے ایماء پر مولانا مودودیؒ کو سزائے موت بھی سنائی جا چکی تھی، جس کی تفصیل ہم پچھلی اقساط میں لکھ چکے ہیں۔
جماعت اسلامی نے تمام علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے متحد ہوکر جدوجہد پر آمادہ کیا۔ اس سے پیشتر ذوالفقار علی بھٹو 13 جون 1974ء کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے تھے:
’’جو شخص ختمِ نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ ربوہ کے واقعہ سے تعلق رکھنے والے سارے مسئلے کو جولائی کے پہلے ہفتے میں قومی اسمبلی کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ حکمران جماعت کے ارکان پر پارٹی کی طرف سے کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا جائے گا اور انھیں آزادی ہوگی کہ وہ کم و بیش 90 سال پرانے اس اہم اور نازک مسئلے کو عوام کی اکثریت کی خواہشات، ایمان اور عقیدے کی رُو سے مستقل طور پر حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ختمِ نبوت کا مسئلہ ہرگز متنازع نہیں۔ فیصلہ تو ہوچکا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ جو شخص ختمِ نبوت کا قائل نہیں ہے، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اب اسے ایک ضابطے کے تحت لانا باقی ہے۔‘‘
بھٹو نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ عام انتخابات میں قادیانیوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے تھے، لیکن انھوں نے ہمیں خرید تو نہیں لیا۔ ووٹ تو ہمیں دوسرے فرقوں نے بھی دیے، مگر ہم ان کے محتاج تو نہیں۔ میں صرف اللہ کا محتاج ہوں اور پاکستان اور اس کے عوام سے وفاداری میرا ایمان ہے۔ میں وہی کروں گا جو میرا ضمیر کہے گا۔ میں مسلمان ہوں۔ مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ کلمہ کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور کلمہ کے ساتھ مروں گا۔ ختمِ نبوت پر میرا ایمانِ کامل ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں نے ملک کو جو دستور دیا ہے، اس میں ختمِ نبوت کی اتنی ٹھوس ضمانت نہ دی گئی ہوتی۔ 1956ء اور 1962ء کے آئین میں ایسی کوئی ضمانت کیوں نہیں دی گئی، حالانکہ یہ مسئلہ 90 سال پرانا ہے۔ یہ شرف مجھ گناہ گار کو حاصل ہوا ہے کہ ہم نے اپنے دستور میں صدرِ مملکت اور وزیراعظم کے لیے ختمِ نبوت پر کامل ایمان کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔ ہم نے یہ ضمانت اس لیے دی ہے کہ ہمارے ایمان کی رو سے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے آخری رسول ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے ملک کو نیا عوامی دستور دیا اور ان شاء اللہ عوام کے تعاون سے قادیانیوں کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردوں گا۔ یہ اعزاز بھی مجھے ہی حاصل ہوگا اور یومِ حساب، خدا کے سامنے اس کام کے باعث سرخرو ہوں گا۔‘‘
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے ایک قرارداد پیش کردی۔
(جاری ہے)

حصہ