دیوسائی: ایک دیومالائی سفر

441

شبیر ابن عادل
اسکردو میں اپنے قیام کے دوران بہت کچھ دیکھا ، جولائی کی گرمیاں تھیں وہاں پہنچنے کے بعد ایک عجیب بات محسوس کی ۔ وہ یہ کہ جب دھوپ میں ہوتے تو یوں لگتا کہ گویا جسم جھلس رہا ہو اور جب سایے میں آتے تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے تیز ائیر کنڈیشنڈ چل رہا ہو۔ وہاں کے قدرتی حسن کے کیا کہنے۔ اسکردو کے سب سے قریب سد پارہ جھیل ہے، جہاں اب سدپارہ ڈیم بن چکا ہے۔ وہاں کچورا اور اپر کچورا جھیلیں ہیں۔ وادی شگراور دیوسائی نیشنل پارک ہے اور بہت کچھ ہے۔
گلگت بلتستان میں ایک خاص قدرتی تحفہ خوبانی ہے، ہر طرف خوبانی کے بے شمار درخت ہیں۔ جہاں سے آپ خود توڑ کر خوبانی کھا سکتے ہیں یا آپ چائے پینے ، کھانا کھانے کسی ریستوران میں جائیں تو وہ پہلے ایک بڑے سے پیالے میںتازہ، میٹھی اور مزیدار خوبانیاں لاکر رکھ دے گا۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی لو گ گرمیوںمیں خوبانی کا جوس نکال کر اسے گزک کی شکل میں جما کر رکھ لیتے ہیں اور جب برفباری کا زمانہ آتا ہے اور کسی وقت روٹی نہیں ہوتی تو ایک ٹکڑا خوبانی کی گزک کا کھا تے ہیں اور برف کو پگھلا کر پانی پی لیتے ہیں۔ خوبانی کی تاثیر گرم ہے، اس لئے سردیوں میں مفید بھی ہے۔
اسکردو میں ایک صبح جعفر (ڈرائیور) جیپ لے کر آگیا اور ہم سے پوچھا کہ ناشتہ کرلیا ؟ ہم نے کہا کہ ہم تو تیار ہوکر تمہارے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ دو فرانسیسی سیاح بھی ہیں۔ جیپ بڑی تھی ، وہ اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ہم پچھلی پر۔ ان فرنچ نوجوانوں کے ساتھ سفر بہت اچھا رہا۔ ہم لوگ دیوسائی نیشنل پارک گئے۔ ہماری منزل دیوسائی ٹاپ یا پلین تھا۔ وہ اسکردو سے 62کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، مگر پیچیدہ اور خطرناک راستوں کی وجہ سے دیوسائی ٹاپ تک پہنچنے میں تین چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اسے دنیا کا بلند ترین میدان بھی کہا جاتا ہے۔
دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے تیرہ ہزار پانچ سو فٹ اونچائی پر واقع ہے اور تین ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی بلند ترین چوٹی شتونگ ہے، جو سولہ ہزار فٹ بلند ہے۔ نومبر سے مئی تک پورا علاقہ برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گزرتے ۔ یہی برف جب پگھلتی ہے تو دریائے سندھ کے پانی کا پانچ فیصد حصہ ہوتی ہے۔ بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔
دیوسائی کی خاص بات وہاں پائے جانے والے بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے اور یہ تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں۔
بلتستان میں بولی جانے والی زبان شینا میں دیوسائی کے معنی دیو کی سرزمین ہے ایک مقامی روایت کے مطابق دیو سایہ نامی ایک دیو کا یہ مسکن تھی ، اسی نسبت سے اسے دیوسائی کہتے ہیں۔
دیوسائی تک پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے جاتا ہے اور دوسرا استور سے۔ استور سطح سمندر سے تین ہزار دوسو میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔ جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدائی گاؤں ہے جہاں سے ایک راستہ بوبن کی طرف جاتا ہے جو ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے یہ مختصر سا گاؤں جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں کیونکہ وہاں سے ایک راستہ کارگل کی جانب نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ سفر کے بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کی حدود شروع ہوتی ہے۔ وہاں ملکی سیاحوں سے معمولی اور غیر ملکی سیاحوں سے کئی سو روپے فیس وصول کی جاتی ہے اسے دیوسائی میں حیوانوں کی بقا کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر اسکردو سے دیوسائی کی طرف چلیں تو اسکردو سے کچھ دور دلفریب سدپارہ جھیل ہے ، اس کے شروع میں ڈیم کی تعمیر نے اسے کچھ مختلف بنا دیا ہے۔ اگرچہ مقامی لوگوں کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے اس کا فطری حسن متاثر ہوا ہے۔ سدپارہ جھیل سے آگے بڑھنے کے بعد دریائے شگر شروع ہوتا ہے۔ جو دوڑتا بل کھاتا سارے رستے بہتا رہتا ہے۔ کہیں ندی نالے کی صورت میں اور کہیں چوڑائی میں۔ گرمیوں میں اس کا بہاؤ تیز ہوتا ہے اور اس کا شور دلفریب۔ دیوسائی پلین سے ایک راستہ استور کی طرف چلا جاتا ہے۔
دیوسائی کو 1993میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا ، چنانچہ ہر نیشنل پارک کی طرح وہاںبھی شکارکرنے اوردرختوں کے کاٹنے حتیٰ کہ پھول تک توڑنے پر پابندی ہے تاکہ وہاں پائے جانے والے جانوروں اور نباتات خاص طور پر بھورے ریچھوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ دیوسائی میں صرف 30بھورے ریچھ باقی بچے ہیں ۔ کبھی وہاں سیکڑوں بھورے ریچھ گھوما کرتے تھے۔ مگر بے تحاشا اور اندھا دھند شکار نے ملک کے اس ہمہ خور جانور (یعنی گوشت اور سبزی خور) بھورے ریچھوں کو معدومیت سے دوچار کردیا ۔ یہ ریچھ سال کے چھ ماہ سردیوں میں نومبر سے اپریل تک غاروں میں سوتے ہیں اس دوران ان کے جسم کی چربی پگھل کر انہیں توانائی فراہم کرتی ہے جب پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے تو وہ اپنے غاروں سے نکلتے ہیں ۔ ریچھ کے علاوہ وہاں مار موٹ (خرگوش کی ایک نسل)، تبتی بھیڑیا، لال لومٹری، ہمالیائی آئی بیکس، اُڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والا عقاب اور فیلکن پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں تقریباً 150اقسام کی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جن میں سے محض دس تا پندرہ بوٹیاں مقامی لوگ مختلف بیماریوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
چیک پوسٹ سے آگے دیوسائی کا اصل حسن آشکار ہوتا ہے۔ سرسبز ڈھلوان اور پرکشش مناظر میں میں چرتے ہوئے یاک اور لمبے بال والے بکرے بہت اچھے لگتے ہیں۔ دیوسائی پلین ایک بہت بڑا میدان ہے، جہاں خوبصورت سبزہ زار اور ایک سادہ سا ریستوران ہے۔
دیوسائی کے وسیع میدان میں طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر جگہوں پر اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازووں کو سینے پر باندھے مارموٹ ہمارا استقبال کرتے محسوس ہوئے، مگر جیسے ہی جیپ ان کے نزدیک پہنچی، وہ اپنے بلوں میں جا گھسے۔ دیوسائی چاروں طرف سے چھوٹی چھوٹ برفپوش پہاڑیوں سے گھر ا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو اس کی چمک سے وہ سونے کے پہاڑ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن وہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ، ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن بارہ ہزار فٹ کی بلندی سے یہ چھوٹی نظر آتی ہیں۔
پورے دیوسائی میں بلندی کے باعث ایک بھی درخت نہیں ہے اس لئے پرندے اپنا گھونسلا زمین پر ہی بناتے ہیں ۔ کچھ ہی دیر میں دیوسائی کا بلند ترین مقام چھچھور پاس آتا ہے چھچھور پاس کی بلندی سے نیچے نظر دوڑائیں تو گھاس کا ایک وسیع میدان نظر آئے گا جس کے درمیان سے خوبصورت دریا بل کھاتا ہوا گزر رہا ہے اور میدان کے آخر میں سرسبز ڈھلوان اور اس کے برفپوش چوٹیاں۔ اس خوبصورت منظر اور میدان کی وسعت اور یہ سب نظارے دیکھ کر حیرت سے سیاحوں کے منہ کھلے رہ جاتے ہیں۔ یہ مناظر اللہ ربّ العزت کی نعمتیں ہیں۔ یہ ایک بہترین کیمپ سائیٹ بھی ہے۔
یہاں سے سفر اترائی کا ہے ، اترائی کے دوران ہی دور کچھ نیلاہٹ نظر آتی ہے یہ دیوسائی کی واحد جھیل شیوسرہے، یہ دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں شامل ہے اور اس کی بلندی بارہ ہزار 677 فٹ ہے۔ اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سطح ہمیشہ یکساں رہتی ہے اس میں پانی کہیںسے خارج نہیں ہوتا ہے، اسے لوگ اندھی جھیل بھی کہتے ہیں۔ اس جھیل میں مزیدار ٹراؤٹ اور اسنو کارپ مچھلیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ اس کا ساحل ایک کیمپ سائیٹ ہے ۔ اسکردو کے باشندے بڑی تعداد میں وہاں پکنک منانے جاتے ہیں۔ جھیل کا پانی یخ بستہ اور اس قدر شفاف ہے کہ اس کے نیچے موجود رنگین پتھر اورتیرتی ہوئی مچھلیاںصاف نظر آتی ہیں۔جھیل کا پانی جب کناروں سے ٹکراتا ہے تو جلترنگ کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز اور منظر سے سیاح اتنے مسحور ہوتے ہیں کہ ان کا دل اس منظر کو چھوڑ کر آگے جانے سے انکار کردیتا ہے۔ اسلام آباد سے گلگت جانے والی فلائیٹ سے بھی یہ جھیل نظر آتی ہے مسافروں اور پائلٹوں کے مطابق یہ جھیل اپنی شفافیت کی وجہ سے فضا سے بعض زاویوں سے بالکل خالی نظر آتی ہے ۔
شیوسر جھیل سے کچھ فاصلے پر دریائے کالا پانی بہہ رہا ہے، دریا کی تہہ میں کالے پتھروں کی وجہ سے اسے کالاپانی کہتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر جیپ کے مسافر دعا کرتے ہیں کہ دریاعبور کرتے ہوئے کہیں ان کی جیپ بند نہ ہوجائے ورنہ اس یخ بستہ پانی میں اتر کر جیپ کو دھکا لگانے کے تصور ہی سے ان کی رگوں کا خون جمنے لگتا ہے۔ عموماً کچھ جدوجہد اور ڈرائیور کی مہارت اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے جیپ دریا سے نکل ہی جاتی ہے ۔ ہماری اگلی منزل بڑا پانی تھی جو دیوسائی کا سب سے بڑا دریا ہے، یہی اس کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔ یہاں دیوسائی کا واحد پل بھی ہے۔ یہ پل لوہے کے تاروں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہہوا ہے۔ ہر سال برفباری کے دوران یہ پل ٹوٹ جاتا ہے جسے دوبارہ بنادیا جاتا ہے۔ پل عبور کرتے ہی ہمیں ایک بورڈ نظر آیا ۔ جس پر یہ الفاظ درج تھے: ” ہمالین وائلڈ لائف پروجیکٹ، دیوسائی نیشنل پارک، ممنوعہ علاقہ۔ یہاں بھور ریچھوں پر تحقیق ہورہی ہے ”۔ ساتھ ہی ان کے کیمپ بھی لگے ہیں۔ جہاں وائلڈ لائف کے نمائندوں سے ہماری ملاقات ہوئی، وہ بڑے خو ش اخلاق لوگ تھے اور ان سے دیوسائی میں جنگلی حیات خاص طور پر نایاب بھورے ریچھوں کے بارے میں بہت سی معلومات ہوئیں۔ ان لوگوں نے سیاحوں کے لئے ایک ٹوائلٹ بھی بنایا ہے ساتھ ہی چشمہ کا ٹھنڈا پانی بہتا ہے۔ انہی سہولتوں کی وجہ سے سب سے زیادہ کیمپنگ اسی مقام پر ہوتی ہے۔
دیوسائی میں کیمپنگ کے حوالے سے یہ بات یاد رکھیں کہ وہاں کچھ میسر نہیں ، مکمل تیاری کے ساتھ جائیں۔ ٹن پیک کھانے، کچا راشن ، لکڑی کا چولہا معہ ایندھن، مضبوط واٹر پروف خیمے، لالٹین اور ٹارچ معہ اضافی بیٹریاں رکھیں۔ یہاں بڑی تعداد میں مچھر بھی ہوتے ہیں، ان سے بچنے کے لئے کوئی دوا یا لوشن لے کر جائیں۔ وہاں کا موسم گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، ابھی سخت ترین دھوپ چہرے کو جھلسا رہی ہوگی تو اگلے لمحے بارش یاپھر برفباری بھیی ہوسکتی ہے۔ جی ہاں، وہاں گرمیوں میں بھی برفباری ہوتی ہے۔ رات بہت سرد ہوتی ہے ، اس لئے خصوصی گرم لباس لے کر جائیں۔ رات کو خیموں میں بادل آجاتے ہیں اور انہیں گیلا کرتے ہیں۔ وہاں رات کا منظر نہایت حسین اور دلفریب ہوتا ہے کیونکہ آسمان پر رات کو ستاروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ دن بھر قریبی گاؤں کے چرواہے اپنی بکریاں اور یاک چراتے نظر آتے ہیں۔
صدیوں سے جہلم کے گجر ہر سال جب دیوسائی کی برف پگھلتی ہے تو مظفر آباد کیل اور منی مرگ کے راستے یہاں اپنے مویشی لے کر آتے ہیں ۔ یہاں اتنے رنگ کے اور اتنی تعدادمیں پھول ہیں کہ آپ سارا دن انہیں دیکھنے میں گزار سکتے ہیں ۔ اگر آپ کو مچھلی کے شکار کا شوق ہے اور آپ کے پاس سامان بھی ہے تو یہاں ٹراؤٹ مچھلی کے شکار کے وسیع مواقع ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ٹراؤٹ سے زیادہ مزیدار مچھلی نہیں کھائی ۔ ٹراؤٹ سوات میں بھی دستیاب ہے۔ اگر آپ ریچھوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمالین وائلڈ لائف والوں کی خدمات حاصل کریں ۔ غرض دو دن گزارنے کے لئے یہاں دلچسپی کابہت سا سامان موجود ہے۔
یہاں سے سفر آگے جاری رکھیں تو صرف نصف گھنٹے کے سفر کے بعد شتونگ کیمپ سائیٹ آئے گی جو شتونگ نالے کے ساتھ ہے۔ یہاں بھی جیپ دو دریاؤں سے بمشکل گزرتی ہے۔ مقامی لوگوں نے قیام و طعام کے لئے کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔ وہاں سے محض پندرہ منٹ کے بعد دیوسائی کا آخری کونا یعنی المالک مارپاس آتا ہے وہاں بھی سیاحوں کے قیام و طعام کے لئے کیمپ ہیں اور ساتھ ہی وائلڈ لائف چیک پوسٹ بھی ہے۔ اسی مقام سے ایک ذیلی ٹریک برجی لا ٹاپ تک جاتا ہے۔ برجی لا کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں سے قراقرم سلسلے کی چھ چوٹیاں یعنی کے ٹو، براڈپیک، گیشر برم 1، گیشر برم 2، گیشربرم 4اور مشربرم نظر آتی ہیں ۔ ایک مقام پر اتنی بلند چوٹیاں دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتیں، یہ اعزاز صرف ہمارے وطن عزیز کو حاصل ہے۔
یہاں سے اترائی کا سفر شروع ہوتا ہے اور مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد جھیل سدپارہ سے گزرتے ہوئے اسکردو شہر آجاتا ہے جہاں زندگی کی چہل پہل اور بازاروں کی رونق دیکھ کر ہم نے خود کو اجنبی محسوس کیا اور ہماری نظریں بار بار سدپارہ جھیل سے پرے بلندیوں کی جانب اٹھتی رہیں اور میں سوچتا رہا کہ کیا ہم واقعی پریوں کے اُس دیس میں گئے تھے اور دنیا کے بلندترین میدان میں بھورے ریچھوں کے درمیان، مسحور کردینے والی خوشبوؤں اور دل موہ لینے والے رنگ برنگے پھولوںکے جھرمٹ میں اور رات کو آسمان کے حسین مناظر۔ اور پرکشش مقامات میں واقعی میں تھا یا وہ محض خواب تھا۔

حصہ