شریکِ مطالعہ

314

نعیم الرحمن

(گزشتہ سے پیوستہ)

کتاب میں شامل اے حمیدکا سوانحی ناول ’’ڈربے‘‘ ایک عجیب و غریب تحریر ہے۔ ہنستی مسکراتی اور ساتھ ساتھ انتہائی دل گداز بھی۔ دورانِ مطالعہ قاری کو ایک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اسے اے حمید اور ان کے اہلِ خانہ کے مسائل سے ایسی دل چسپی پیدا ہوجاتی ہے گویا وہ اس کے اپنے لوگ ہوں۔ یادوں کے اس مجموعے میں اے حمید ہمیں اس ماحول میں لے جاتے ہیں جس میں حالات کی ستم ظریفی کے سبب وہ ایک ایک پل جیے اور شاید مرے بھی۔ وہ خود دل گرفتہ نظر آتے ہیں، اور ان کا حساس قاری بھی ملول ہوجاتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ وہ اے حمیدکے دل نشین طرزِ تحریر سے لطف اندوز بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ ملک ہمیں آسانی سے نہیں ملا تھا، اس کے لیے لوگوں نے قربانیاں دی تھیں، ان لوگوں نے اپنا مستقبل ہمارے لیے قربان کردیا تھا کہ ہم اس ملک میں عزت سے جی سکیں۔ نئی نسل کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ اے حمید اس کتاب میں باتوں باتوں میں ہمیں بہت کچھ سکھا گئے ہیں۔ ڈاکٹر پرویز حیدر پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’اے حمید جب آخری بار امرتسر ریلوے اسٹیشن پر آئے اور پاکستان آنے کے لیے ریل پر سوار ہوئے، راستے کی مشکلات اور خوف وہراس، پھر پاکستان پہنچ کر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نامساعد حالات میں رہنا۔ رہائش، خوراک اور پھر بیماریوں کے پھیلنے کی وجہ سے دگرگوں حالات۔ صفائی ستھرائی کی مخدوش صورت حال میں پیٹ کی بیماریوں کا پھیلنا۔ اُن کے والد صاحب کا بھی انہی حالات میں انتقال کرجانا۔ اصل میں تقسیم کا موضوع ہی اتنا دردناک ہے کہ لاکھوں لوگوں کی تقدیرکا فیصلہ اس موقع پر ہوا۔ اے حمید صاحب نے بہت اچھی طرح اور تفصیل سے اپنے حالات کو لکھا ہے۔ یہ اُس وقت کے حالات کی بہترین یادگار دستاویز ہے۔ ’’ڈربے‘‘ کو اصولاً میٹرک کے کورس میں شامل کرنا چاہیے تاکہ سیکنڈری اسکول کے طالب علم ’’آزادی‘‘ کے عنوان سے اُسے پڑھیں اور اُن کے دل میں نقش ہوجائے کہ یہ مملکتِ خداداد کتنی مشکلات کے بعد حاصل ہوئی۔ یہ ناول پاکستان کے حکمرانوں کو بھی پڑھانا چاہیے جو نہ صرف بادشاہ، بلکہ شہنشاہ بننا چاہتے ہیں، جو ملک پر 38 ہزار ارب کا قرضہ چڑھا دیتے ہیں اور ہر پیدا ہونے والا بچہ لاکھوں کا مقروض پیدا ہوتا ہے۔ جو کھلے عام کرپشن کرکے کہتے ہیں کہ ہم نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی، اگر ہماری ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو ہم سیاست چھوڑ دیں گے۔ لیکن پھر بھی واضح طور پر ثابت ہے کہ وہ اربوں روپے ملک سے باہر لے گئے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کیمرون کی فیملی کا جب ’’پاناما کیس‘‘ میں نام آیا تو اُس نے اسمبلی میں اپنے انکم ٹیکس گوشوارے پیش کردیے۔ خیر سے ہمارے حکمران ہیں کہ وہ کئی دہائیوں حکومت کرکے اپنے بچوں کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرتے بلکہ اُن کو ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں۔‘‘
’’سنگِ دوست‘‘ اے حمید کے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ 440 صفحات کی اس نایاب کتاب میں اردو ادب کی 30 عظیم شخصیات کے خاکے شامل ہیں جن میں آرزو لکھنوی، ایوب رومانی، ابراہیم جلیس، ابن انشا، احمد راہی، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، استاد امانت علی خان، انور جلال شمزہ، باری علیگ، چودھری نذیر احمد، ڈاکٹر شفیق الرحمن، ڈاکٹر عبادت بریلوی، راجا مہدی علی خان، ساحر لدھیانوی، ساغر صدیقی، سعادت حسن منٹو، سید وقار عظیم، سیف الدین سیف، صوفی غلام مصطفی تبسم، فیض احمد فیض، قتیل شفائی، قدرت اللہ شہاب، کلیم اختر، مسعود سلطان لکھیر، مولانا چراغ حسن حسرت، ناصر کاظمی، ن۔ م راشد اور نواز جیسے علمی و ادبی مشاہیر کے خاکے شامل ہیں۔ یہ کتاب عرصۂ دراز سے نایاب تھی، جو اَب ’’زندہ کتابیں‘‘ کے ذریعے ایک مرتبہ پھر دستیاب ہے۔
فاروق احمد ’’زندگی کی کتاب کے عنوان‘‘ سے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’اے حمید اس کائنات کی ٹوٹتی بکھرتی رومانیت میں نئے رنگ انڈیلتا رہتا ہے۔ کائنات میں پھیلی سلفر کی بُو کو موتیوں کے گجروں کی خوشبو سے بھر دیتا ہے۔ اے حمید کا لکھا ہمیں اس لیے بھاتاہے کہ وہ ہمیں زندگی کی جنم بھومی کی جھلک دکھاتا ہے۔ اے حمید نے تین سوجلدوں میں ’’موت کا تعاقب‘‘ لکھی، لیکن ’’سنگِ دوست‘‘ کی صورت اس نے ایک ہی جلد میں ’’زندگی کا تعاقب‘‘ لکھ ڈالی۔ سنگِ دوست زندگی کی کتاب ہے۔‘‘
اے حمید جس شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے اُس کے پرت پرت کھول کر رکھ دیتا ہے۔ کس دل آویزی سے وہ اپنے ممدوح کی پوری شخصیت کو مجسم، قاری کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ اردگرد کا ماحول بھی واضح ہوجاتا ہے۔ ایوب رومانی کے خاکے میں لکھتے ہیں: ’’ایوب رومانی ریڈیو اسٹیشن کی آخری نشانیوں میں سے ہے۔ میں جب ریڈیو اسٹیشن میں اس کے کمرے میں جاتا تھا تو محسوس ہوتا تھا کہ میں ریڈیو اسٹیشن میں ہوں۔ اسٹیشن ڈائریکٹر تک کے کمرے میں خالص کلرکوں جیسا دفترکا ماحول تھا اور وہاں بیٹھے مجھے محسوس ہوا کرتا تھا کہ میں کسی تھانے میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا ہوں۔ جب میں اُسے دیکھتا تو یقین آتا کہ میں ریڈیو اسٹیشن میں ہوں۔ وہی ریڈیو کے پرانے سنہری دور والی بے ساختگی، غیر منافقت، خوش فکری، خوش خیالی، خوش شکلی، کشادہ دلی اور اپنے عہدے کی ترقی اور تنخواہ کے گریڈوں سے بے نیازی۔ چائے کی خوشبو، سگریٹ کی مہک اور شعر و ادب کی باتیں، موسیقی کی باتیں، کلاسیکی موسیقی کے بڑے بڑے استادوں کی باتیں۔ اُس کے دفتر سے نکلتا تو منافقت، بے مروتی، بے حسی، دل آزاری، انسان دشمنی اور بد صورتی شروع ہوجاتی۔‘‘
ذرا اے حمید کا یہ انداز ملاحظہ کریں: ’’ریڈیو پاکستان لاہور کے درختوں کو پروگراموں کی حاجت نہیں ہے، وگرنہ وہ کھڑے کھڑے سوکھ جاتے۔ یہ انسانوں کا ہی حوصلہ ہے کہ ملامتیں سہہ کر بھی زندہ ہیں، آگ میں بھی نہیں جلتے اور اپنے سینوں کے اندر شعرو ادب اور موسیقی کے سُروں کے پھولوں کو سمیٹے رکھتے ہیں۔ لاہور ریڈیو کے صحرائے اعظم میں جب کوئی فنکار پیاس سے نڈھال ہوکر اپنی جلتی ہوئی شاخوں کو پھیلائے ایوب رومانی کے کمرے میں داخل ہوتا تو آگ بجھ جاتی ہے اور شاخیں پھر سے ہری بھری ہوجاتی ہیں، اور خشک پیاسے ہونٹوں پر ٹھنڈی شبنم کے قطرے گرنے لگتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایوب رومانی کا کمرہ فنکاروں کے لیے خاص طور پر صحرائے اعظم میں ایک نخلستان کی مانند ہے جہاں کھجورکے جھنڈوں میں ٹھنڈی چھاؤں میں ٹھنڈے میٹھے پانی کاچشمہ بہتا ہے۔ ایک بار استاد برکت علی خان کلکتے گئے۔ واپسی پر ایوب رومانی کی بیوی کے لیے کشمیری شال لیتے آئے۔ اُنہوں نے شال اُن کی میز پر رکھ دی۔ ایوب رومانی نے پوچھا کہ اس کا ہدیہ کیا پیش کروں؟ خان صاحب باقاعدہ رونے لگے اور بولے: میں تو تمہیں بیٹا سمجھ کر یہ شال لایا تھا، تم تو افسر نکلے۔ اتنی بات پر ایوب رومانی پر رقت طاری ہوگئی، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ رقت میں نے ریڈیوکے کسی بھی افسر میں نہیں دیکھی کہ جو واقعی موسیقی کو جانتا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رقت، یہ گداز خدا کی دین ہے‘ وہ جسے چاہے دے دیتا ہے، جسے چاہے نہیں دیتا۔‘‘
ایک خوب صورت خاکے میں ایوب رومانی کی شخصیت کے تمام جوہر، تمام پرت قاری کے سامنے ایسے عیاں کیے کہ وہ بھی اس انجانے فرد کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ خاکہ نگاری میں یہ کمال بہت کم ادیبوں کو میسر ہے۔
سنگ ِ دوست میں آپ بیتی کا رنگ بہت غالب ہے۔ ابراہیم جلیس کے خاکے میں اے حمید لکھتے ہیں: ’’ہم اخباروں میں لکھتے۔ ہماری کتابیں یکے بعد دیگرے چھپ رہی تھیں۔ مشاعرے ہوتے، معرکے ہوتے، ادبی انجمنوں کے ہنگامہ خیز اجلاس ہوتے، بحثیں ہوتیں، کہیں سیاست چلتی، کہیں ادب چلتا، مذاکرے ہوتے، مناظرے ہوتے۔ ایک ہنگامہ تھا۔ ایک جشن تھا۔ کوئی کسی جگہ نوکر نہیں تھا، کوئی کسی کا غلام نہیں تھا، کسی پر کسی کا حکم نہیں چلتا تھا۔ ہر کوئی آزاد تھا، بات کہنے میں خودمختار تھا۔ جیب خالی بھی ہوتی، جیب بھر بھی جاتی۔ بہترین سگریٹ پیتے، بہترین کپڑے پہنتے، بہترین چائے پیتے اور کافی پیتے، بہترین باتیں کرتے۔ شہر لاہور کی سڑکوں، گلی کوچوں میں آوارہ پھرتے اور راتوں کو گھروں میں بیٹھ کر کہانیاں بھی لکھتے، طویل نظمیں اور مسلسل غزلیں بھی کہتے۔ سورج ہمارے سامنے صبح کو طلوع ہوتا۔ چاند ہمیں سڑکوں پر آوارہ پھرتے دیکھ کر غروب ہوتا۔ ایک خواب تھا وہ عہد! رنگ ،خوشبو، حرکت، خیال اور زندگی سے بھرپور خواب!‘‘
کیا رومانوی اسلوبِ تحریر ہے، ناسٹلجیاکا مفہوم سمجھ آجاتا ہے۔ ابن انشا اے حمیدکے دوست تھے۔ لکھتے ہیں کہ ’’میں اور ابن انشاء اکثر اندرون شہر کی سیر کا پروگرام بناتے۔ اس پروگرام کو ہم نے ’’مشن ٹو بغداد‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ وہ لاہور کی گلیوں کو بغداد کی گلیاں کہا کرتا تھا۔ اُسے شہر کی نیم تاریک گلیاں بہت پسند تھیں، اور سچ تو یہ ہے کہ اُن دنوں یہ گلیاں واقعی پُراسرار ہوا کرتی تھیں۔ ہم لوہاری دروازے یا اکبری دروازے سے شہر کے اندر داخل ہوتے اور منزل کا پتا پوچھے بغیر یونہی کسی گلی میں مڑ جاتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ آگے جاکر گلی بند ہوگئی یا کسی مکان میں داخل ہوگئی اور ہمیں شرمسار ہوکر واپس مڑنا پڑا۔ ابن انشاء نے کئی بار مجھے ٹوکا بھی کہ باز آجاؤ۔ یہ گلی تو کسی مکان کے آنگن میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک بار وہی ہوا جس کی طرف ابن انشاء نے اشارہ کیا تھا، یعنی ایک مقام پر گلی ایک مکان کی ڈیوڑھی بن گئی۔ گویا اب ہم گلی میں نہیں بلکہ ایک مکان کی ڈیوڑھی میں کھڑے تھے۔ ایک عورت نے کواڑ کی اوٹ سے پوچھا ’’اِدھر کیا لینے آئے ہو تم؟‘‘ میں نے اوپر نیچے دیکھتے ہوئے کہا ’’بہن یہاں محمد حسین بجلی والے کا مکان تھا‘‘۔ جواب ملا ’’یہاں کوئی محمد حسین بجلی والا نہیں رہتا۔ یہ تو اللہ دتہ جراح کا گھر ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ اللہ دتہ ہم دونوں کی جراحت کرتا، ہم دونوں سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ نکلے۔‘‘
اے حمید کی تحریر میں شگفتگی کی زیریں لہر قاری کا لطف دوبالا کردیتی ہے۔ بعض خاکوں کا آغاز ہی چونکا دیتا ہے۔ اخلاق احمد دہلوی کا خاکہ یوں شروع ہوتا ہے: ’’اخلاق احمد دہلوی سے لاہور ہوٹل کے چوک میں ملاقات ہوئی تو سائیکل سے اتر پڑے، سولہ ہیٹ اُتارکر سائیکل کے آگے ٹوکری میں رکھا اور بولے ’’بھئی حمید صاحب! کل آپ کے گھر ہماری دعوت ہے، میں اور میری بیگم شام سات بجے پہنچ جائیں گے۔‘‘ میں نے کہا ’’بڑی خوشی کی بات ہے، ہم انتظار کریں گے۔‘‘ ہم فلیمنگ روڈ پر رہتے تھے۔ اخلاق صاحب نے لاہور ہوٹل سے ذرا آگے پیپل والی گلی کے اندر ایک مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ دوسرے دن ہم کھانا پکا کر اخلاق صاحب کا انتظارکرنے لگے۔ ٹھیک وقت پر ہم نے کھڑکی سے سر نکال کر دیکھا۔ اخلاق احمد دہلوی اپنی بیگم اور بیٹے عینی کے ہمراہ گلی میں چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے گٹھری اٹھا رکھی تھی، دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں بگلے کا سگریٹ سلگ رہا تھا۔ گٹھری میں کھانے کی دیگچی تھی، یعنی اخلاق صاحب اپنی اُس دعوت کا اپنا کھانا گھر سے پکا کر ساتھ لائے تھے، جو ہمارے ہاں ہورہی تھی۔‘‘ اخلاق احمد دہلوی نے اپنا آپ کبھی ظاہر نہیں کیا مگر ان کی اس مسکراہٹ نے انہیں بے نقاب کررکھا ہے۔ یہ مسکراہٹ اُن کے چہرے پر بڑی مشکل سے دکھائی دیتی ہے۔ مسکراہٹ موجود ہوتی ہے مگر اس کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کے اوپر ہتھیلی کا چھجا بنانا پڑتا ہے۔ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے، جیسے کوئی عید کے چاند کو مغربی اُفق پر تلاش کررہا ہو۔ اس مسکراہٹ میں نہ خوشی ہے، نہ غم ہے۔ اب میں اسے کیونکر بیان کروں! ان کے ہونٹوں کے کنارے چھپی ہوئی مسکراہٹ نما کسی شے کوکاغذ پر منتقل کیے بغیر میں ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکوں گا۔ ہماری نسل کے لوگوں نے پاکستان بننے سے پہلے ہندو سنیاسی ضرور دیکھے ہوں گے۔ یہ لوگ سادھو جوگی نہیں، ان سے بلند لوگ ہوتے تھے۔ میں نے پہلی بار سنیاسی کو بڑے شوق سے دیکھا تھا۔ اُس کے جسم پر ایک لنگوٹ کے سوا کچھ نہ تھا، سر کے بال منڈے ہوئے تھے۔ ماتھے پر تلک لگاتا۔ یہ لوگ نہ تو کسی دروازے پر جاکر بھیک مانگتے تھے، نہ کسی سے بات کرتے تھے۔ اُن کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ سنیاسی کے پاس سونا بنانے کا نسخہ ہوتا ہے۔ ان کے سونا بنانے کی کئی داستانیں بھی مشہور تھیں۔ میرے دادا جان نے اپنی آنکھوں سے سنیاسی کو سونا بناتے دیکھا تھا، مگر اُنہوں نے کسی ایسے سنیاسی کو نہیں دیکھا تھا کہ جس نے اپنے رہنے کے لیے کوئی حویلی یا کوٹھی بنوائی ہو۔ نوکر چاکر، موٹرکار رکھی ہوئی ہو اور ٹھاٹھ سے زندگی بسر کررہا ہو۔ دادا جان ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ جب انسان پر سونے کی حقیقت کھل جاتی ہے تو وہ سونے سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ سنیاسی ہوجاتا ہے۔ تب اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے اور یہ مسکراہٹ ساری دنیا کا سونا دے کر ملتی ہے۔ یہ خدا ہی جانتاہے کہ اخلاق احمد دہلوی کے پاس سونا بنانے کا نسخہ ہے یا نہیں؟ لیکن انہوںنے وہ مسکراہٹ ضرور حاصل کرلی ہے جو ساری دنیا کا سونا دے کر ملتی ہے۔
سنگِ دوست میں ہر خاکہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ ہر شخصیت اپنی پوری دل آویزی اور اے حمید کے قلم کے سحر سے مزین قاری کے ذہن پرنقش ہوجاتی ہے۔ ضخیم کتاب کے ختم ہونے کا علم ہی نہیںہوتا۔

حصہ