یاسمین خواجہ صدیقی
مشفق خواجہ کا اصل نام عبدالحٔی خواجہ ہے اور قلمی نام مشفق خواجہ ہے۔ ۱۹دسمبر۱۹۳۵ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ کشمیری النّسل ہیں۔ ان کے آباؤاجداد نے کشمیر سے لاہور کی جانب ہجرت کی اور پھر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کے خاندان کا علم و ادب سے گہرا تعلق تھا اور اس خاندان نے بڑی علمی و ادبی شخصیات پیدا کیں۔ ان کے دادا خواجہ کریم بخش اور ان کے بھائی لاہور کی ادبی سرگرمیوں کو نا صرف منعقد کروایا کرتے تھے بلکہ اس کے فروغ کے لئے فعال کردار بھی ادا کرتے رہے۔ ان کا خاندان اپنے وقت کا مشہور خاندان تھا لاہور میں ہر شخص جو علمی ذوق و شوق رکھتا تھا ان کے خاندان سے بخوبی واقف تھا۔ حکیم احمد شجاع نے اپنی آپ بیتی‘‘خون بہا’’ میں مشفق خواجہ کے آباؤاجداد اور ان کے معاصرین کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ ہر شام ان کے گھر پر بیٹھک ہوا کرتی تھی جس میں ارباب علم و ادب اور اس زمانے کے مشاہیر دور دور سے شرکت کرنے کی غرض سے آیا کرتے جن میں سرعبدالقادر، سرمحمداقبالؔ، سرشہاب الدین، خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش ، خلیفہ نظام الدین، شیخ گلاب دین، مولوی محمدحسن ، مفتی عبداللہ ٹونکی اور سید شاہ محمد وکیل وغیرہ شامل تھے۔ مشفق خواجہ کے دادا اور ان کے بھائی خاص طور پر نوجوان شعراء اور ادیبوں کی تربیت میں گہری دلچسپی لیتے اور ان کی اصلاح کرتے۔
(شاہنواز فاروقی، تحقیقی)
خواجہ صاحب کے دادا کو ادب سے بہت لگاؤ تھا وہ اپنے خاندان کے بچوں بشمول خواجہ صاحب کو گلستان، بوستان، مثنوی، میر حسن اور دیوانِ حافظ سے اشعار سنایا کرتے تھے۔ بچپن ہی سے ان کے گھر میں ‘‘تعلیم و تربیت’’، ‘‘ہدایت ’’اور ‘‘پھول ’’جیسے بچوں کے معیاری رسائل آیا کرتے تھے۔جنہوں نے ان کے لکھنے پڑھنے کے شوق کو جلا بخشی۔ بچپن ہی سے مطالعے کے شوقین تھے۔ اور اپنے والد کی لائبریری سے استفادہ کیا کرتے تھے۔مشفق خواجہ نے بچپن لاہور میں گزارا وہ بارہ برس کی عمر میں کراچی آگئے اور ۱۹۵۲ء میں میٹرک پاس کیا۔ ۱۹۵۶ء میں جامعہ کراچی سے آنرز اور ایم ۔ اے اردو کی سند لی۔ ان کی قلمی زندگی کا آغاز کہانی لکھنے سے ہوا۔ انہوں نے پہلی کہانی لکھنے کے عوض دو روپے معاوضہ حاصل کیا اور یہ کہانی ان کے قلمکار بننے کا باعث بنی جس کے بعد انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں اور ادبی شخصیات کے لطیفے بھی لکھ کر چھپوائے۔ چونکہ خواجہ صاحب ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس وجہ سے ان کا تعلق اس وقت کے ہر بڑے شاعر، ادیب اور صحافی، افسانہ نگار سے تھا لیکن ابنِ انشاء سے ان کا تعلق جہانگیر روڈ پر قیام کے دوران ہوا ، وہ ان کے ہم محلہ تھے اور یہ تعلق بعد میں گہری دوستی میں بدل گیا۔ ابنِ انشاء ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے مشفق خواجہ کو بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ملوایا اور وہ اس طرح انجمن ترقی اردو کے رسالے ‘‘قومی زبان’’ کے ۱۹۸۷ء میں مدیر مقرر ہوئے اور پھر جلد ہی سہ ماہی اردو کا ایڈیٹر بھی بنادیا گیا۔ یہ دونوں رسالے تقریباً ۲۰ برسوں تک مشفق خواجہ کی ادارت میں شائع ہوئے اور ان رسالوں کا تحقیقی و تنقیدی معیار بلند ہوتا گیا۔ مشفق خواجہ کا بڑا کارنامہ اپنے رشتے کے دادااور‘‘سرگزشتِ الفاظ’’ کے مصنف مولوی احمددین کی کتاب (جواقبال کے فکر و فن پر اردو کی پہلی کتاب تھی جو کہ مختلف وجوہ کی بناء پر منظر عام پر نہیں آسکی) کے حذف کردہ نسخے کو جمع کرکہ اور اس میں مصنف کی حالات ِ زندگی اور علمی کاموں کی تفصیلات کے ساتھ اسے ۱۹۷۹ء میں شائع کروانا تھا۔ غالب اور صغیر بلگرامی کے نام سے کتاب ۱۹۸۱ء میں کراچی سے شائع کروائی۔ اس کے علاوہ ‘‘کلیات یگانہ’’، ‘‘جائزہ مخطوطات’’ان کی تحقیقی اور وسعت مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خواجہ صاحب کا پہلا کالم ۲۵مئی ۱۹۷۰ء کو جسارت میں شائع ہوا اور یہ سلسلہ ۱۲/اپریل ۱۹۷۱ء تک یعنی دس ماہ جاری رہا۔ پھر جب صلاح الدین صاحب ایڈیٹر ہوئے تو انہوں نے صلاح الدین صاحب کو دوبارہ کالم لکھنے پر آمادہ کیا اور مختلف وقفوں سے وہ ۲۳دسمبر۱۹۸۳ء تک ‘‘جسارت ’’سے وابستہ رہے۔ محمدصلاح الدین نے ۱۹۸۴ء میں ‘‘تکبیر’’ کا اجراء کیا تو خواجہ صاحب ‘‘تکبیر’’ سے وابستہ ہوگئے اور ۱۹۹۰ء تک ‘‘تکبیر’’ میں کالم نگاری کی۔ مشفق خواجہ روزنامہ ‘‘جسارت’’ کراچی میں ‘‘اندیشہ شہر’’کے عنوان سے اور غریبِ شہر کے قلمی نام سے فکاہیہ کالم لکھتے رہے۔ ہفت روزہ ‘‘تکبیر’’ کے اجراء کے بعد مشفق خواجہ ‘‘سخن در سخن’’کے عنوان سے ادبی کالم لکھنے لگے یہ سلسلہ مارچ ۱۹۹۷ء تک جاری رہا۔ جس میں وہ ادباء اور شعراء کی تحقیقات کو موضوع بناتے تھے۔ ان کے کالموں میں مزاح سے زیادہ طنز کا احساس ملتا ہے۔
ڈاکٹرظفرعالم ظفری نے مشفق خواجہ کی کالم نگاری پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے۔’’‘‘سخن در سخن’’ ایک ایسا کالم ہے جس میں تجزیہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی اس میں تحقیقی جو ہر بھی ہیں اور بہترین تنقید بھی اس میں حقائق بھی ہیں اور نکتہ نظر بھی۔ اس میں تلخ نوائی بھی ہے اور سچائیوں کا اظہار بھی۔ سب سے بڑھ کر طنز و ظرافت اس کالم کی روح ہے۔
(کوکب عبدالغفار)
مشفق خواجہ کے کالم دنیا دار صوفی کتاب ‘‘خامہ بگوش کے قلم سے’’ ان کی شوخی کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔
اشفاق احمد کو اگر انیس ناگی کی شاعری سمجھ میں نہ آئے تو اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ ایک کی سخن گوئی اور دوسرے کی سخن فہمی ‘‘عالمِ بالا’’ سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن انیس ناگی کی ایک سیدھی بات جس میں کوئی ابہام ہے نہ تجریدیت، اس کا اشفاق احمدجیسے ذہین شخص کی سمجھ میں نہ آنا تعجب کی بات ہے۔ حالاں کہ اشفاق احمد نے مذکورہ انٹرویو میں انیس ناگی کے خیال کو بڑے فخر کے ساتھ ان لفظوں میں واضح کیا ہے:‘‘میرے بارے میں کہا گیا ہے کہ بڑا چالاک آدمی ہے۔ حکومت بدلتی ہے تو ساتھ ہی بدل جاتا ہے’’۔ اس کی مزید توضیح عطاء الحق قاسمی نے کی جو انٹرویو لے رہے تھے۔ انہوں نے اشفاق احمد کومخاطب کرتے ہوئے کہا:‘‘آپ نے ایوب خان کی حمایت کی تھی، اور اب جنرل ضیا کی حمایت کررہے ہیں۔’’
ہمیں شبہ ہے کہ اشفاق احمدبقول خود چالاک آدمی ہیں۔ چالاک تو وہ حکومتیں ہیں جو اشفاق احمد کی خوشنودی کے لیے سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔ حکومت کرنے والے یکے بعد دیگرے آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ اشفاق احمدجہاں تھے وہیں ہیں۔ نہ کہیں سے آئے نہ کہیں گئے۔ اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے اور اِسی لیے انیس ناگی نے انہیں‘‘کامیاب ادیب’’ کہا ہے۔ انیس ناگی چاہتے تو انہیں‘‘کامیاب انسان’’ بھی کہہ سکتے تھے لیکن ‘‘ادیب’’ کہہ کہ انہوں نے واضح کردیا کہ ادب دنیا داری ہی کا دوسرا نام ہے۔دنیاداری والی بات عطاء الحق قاسمی نے بھی کہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا:‘‘غالباً منیرنیازی یا انتظار حسین نے آپ کے حوالے سے کہا تھا کہ اشفاق ایسا صوفی ہے جو کمر تک دنیا میں دھنسا ہوا ہے۔ اس پر آپ کے کیا خیالات ہیں’’؟ اشفاق احمدنے جواب دیا: چونکہ منیر کو مجھ سے محبت ہے اور انتظار کو بھی۔ دراصل وہ گلے گلے تک کہنا چاہتے تھے۔ میں ترمیم کردیتا ہوں۔ بخدا میری صرف تھوتھنی باہر ہے جس سے میں سانس لے رہا ہوں ورنہ دنیا تو میرے ساتھ ایسی چمٹی ہوئی ہے یا میں چمٹا ہوا ہوں کہ میرے ساتھیوں میں تو غالباً ایک دو ہی ایسے ہوں گے۔
مشفق خواجہ کے کالموں میں طنز و مزاح ایک ساتھ ملتا ہے اور یہ طنز کہیں سخت اور کہیں ہلکا پھلکا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے کالم ‘‘شاعری یا عذاب الٰہی’’ ۵فروری ۱۹۸۷ء کو شائع ہوا کو کتاب ‘‘خامہ بگوش کے قلم سے’’سے نقل کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔‘‘ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ منیرنیازی شاعری اچھی کرتے ہیں یا باتیں۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے چاروں طرف قوس قزح کے رنگ برس رہے ہوں اور ان کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جیسے وہ خود برس رہے ہوں۔ وہ غصے میں آجاتے ہیں تو اچھے اچھوں کی، یہاں تک کہ خود اپنی بھی پروا نہی کرتے۔ اشخاص ہوں یا ادارے، ان پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ مصلحت اندیشی سے کام نہیں لیتے، جو جی میں آتا ہے کہہ جاتے ہیں۔
گفتگو کے دوران ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی سامنے آتا ہے۔ وہ نغز گوشاعر کی بجائے، شاعر کے اندر رہنے والا معصوم بچہ بن جاتے ہیں۔ ایک ایسا بچہ جو ہر کھلونے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے۔
ایک سوال یہ تھا: ‘‘نئی نسل کے شعرا نے آپ کو اپنا آئیڈیل بنایا اور پچھلی دودہائیوں کے شعرا نے آپ کی شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا اسلوب بنانے کی کوشش کی۔ یہ سب لوگ جو کچھ لکھ رہے ہیں، آپ کے سامنے ہے۔ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔کیا آپ پُرامید ہیں۔’’
اس کا یہ جواب عطا ہوا:‘‘یہ لوگ تھوڑی دیرکے لیے مجھے اپنا آئیڈیل بناتے ہیں اور پھر اُن کی اپنی خودی بیدار ہوجاتی ہے اور کہتے ہیں ہم پر کسی کا سایہ نہیں ۔۔۔ ان لوگوں میں بیشتر کا بڑاچرچا رہا۔ پانچ دس برس بعد اُن کا پتا ہی نہیں ملتا۔
ہمیں ان شاعروں سے دلی ہمدردی ہے جنہوں نے منیر نیازی کو اپنا آئیڈیل بنایا اور پانچ دس برسوں ہی میں بے نام و نشان ہوگئے۔ ہمیں منیرنیازی سے بھی ہمدردی ہے کہ انہیں وہی شاعر اپنا آئیڈیل بناتے ہیں جن کی خودی بہت جلد بلکہ وقت سے پہلے بیدار ہوجاتی ہے۔ دراصل اس معاملےمیں ان شاعروں کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ ساراقصور علامہ اقبال کا ہے جنہوں نے قوم کو خودی کی بیداری کا سبق پڑھایا۔ قوم نے تو اِس تلقین کا کوئی اثر نہ لیا، شاعر چونکہ حساس ہوتے ہیں، اس لیے وہ فوراً علامہ کے دکھائے ہوئے راستہ پر چل پڑتے ہیں۔ اور یوں منیرنیازی کو اپنا آئیڈیل بنانے والے گمراہ ہوجاتے ہیں۔
مشفق خواجہ کی تحریروں میں طنز و ظرافت کا یکجا ہونا عام بات ہے وہ چھوٹے سے چھوٹے موضوع پر نہایت عمدگی سے لکھتے ہیں اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
حسنِ اتفاق سے ایک محفل میں جگن ناتھ آزاد سے ملاقات ہوگئی۔ ان کے پاس رسالہ ‘‘شب خون’’الہٰ آباد کا ایک شمارہ تھا جو ازراہِ کرم انہوں نے ہمیں عنایت کردیا۔ اس رسالے میں ہمارے مطلب کے دوخط شائع ہوئے ہیں۔ ہمارے مطب کے یوں کہ ان میں مکتوب نگاری سے زیادہ کالم نگاری کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ان میں سے ایک خط احمدہمیش کا ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کے ایک مضمون ‘‘نثری نظم کی شناخت’’ کو پڑھ کر خود اپنی شناخت کرائی ہے۔ دوسرا خط احمدہمیش کے خط کے جواب میں ہے جس میں ڈاکٹرگوپی چند نارنگ نے احمدہمیش کے عائد کردہ الزامات ہی کو نہیں، احمدہمیش کو بھی رَد کردیا ہے۔۔۔ لیکن ان دونوں خطوں سے پہلے آپ کو مشہور شاعر جمیل یوسف کا ایک خط بھی پڑھنا ہوگا جو انہوں نے راولپنڈی سے ہمارے نام لکھا ہے جس میں فیض احمدفیض کی شاعری اور پاجامے کے حوالے سے ‘‘فکرانگیز گفتگو’’ کی گئی ہے۔
ہم تو سمجھ رہے تھے کے ڈاکٹرایوب مرزا صاحب نے فیض مرحوم کے قرب سے ان کی شاعری کا ادراک حاصل کیا ہوگا مگر معلوم ہوا ہے کہ انہیں محض فیض صاحب کا پاجامہ حاصل ہوا ہے، وہ بھی ان کی زندگی میں نہیں ان کے انتقال کے بعد۔ ہم نے ذاتی طور پر فیض مرحوم کے بارے میں ڈاکٹرایوب میرزاا کی روایت کو شروع سے ہی کمزور روایت سمجھا اور دروغ برگردنِ راوی کہہ کر اس حکایت کو پڑھتے رہے جو ‘‘ہم کے ٹھہرے اجنبی’’ بیان ہوئی ہے۔
اس محفل میں فیض کے سوشلسٹ ہونے کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی گئیں مگر ان باتوں کا تذکرہ ایک پورے مضمون کا متقاضی ہے۔ میراذاتی مؤقف اس سلسلہ میں یہ ہے کہ فیض اب انتقال فرماچکے ہیں اب ان کی شخصیت کا اور فکر کا تجزیہ صرف اور صرف ان کے کلام کی روشنی میں ہونا چاہیئے۔ یہی ایک مستقل دستاویز ہے جو اہلِ وطن کے حوالے کر گئے ہیں۔ ایلس فیض چونکہ شروع سے ہی کمیونسٹ پارٹی کی ممبر تھیں اس لیے فیض صاحب بھی یقیناً مروّت میں یا مجبور اً یا یہ کہ بیگم کی دلآزاری نہ ہو، چپکے چپکے ان کے ہم قدم رہے۔ ہر چند کے انہیں لینن پرائز بھی ملا مگر میرے نزدیک تو فیض صاحب کا کلام سوشلزم کی چغلی نہیں کھاتا۔ ایک صحافی و ادیب ہونے کے ساتھ مشفق خواجہ ایک خوش فکر شاعر اور صاحبِ طرز انشاء پرداز تھے۔ انہوں نے نثر میں شاعری اور شاعری میں ساحری کی کیفیت پیدا کی۔ روزنامہ ‘‘جسارت’’ اور ہفت روزہ ‘‘تکبیر’’ کراچی میں خامہ بگوش کے فرضی نام سے ادبی کالم لکھے جو طنزیہ و مزاحیہ کالموں کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان کے کالموں کا انتخاب تین جلدوں میں مظفر علی سید مرحوم نے مرتب کیا۔ پہلی ‘خامہ بگوش’ کے قلم سے اور باقی دو جلدیں ‘‘سخن در سخن’’ اور ‘‘سخن ہائے ناگفتنی’’ کے نام سے ۲۰۰۴ء میں کراچی سے شائع ہوئی۔
۱۹فروری ۱۹۸۷ء کو خواجہ صاحب نے ‘‘خراج تحسین یااخراجِ تحسین’’ کے عنوان سے کالم لکھا جس میں طنز و ظرافت کی جھلکیاں پہ در پہ ہیں ملاحظہ ہو۔
اخبارات میں اِس جلسے کی جو رپورٹیں چھپی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حبیب جالب کو نہایت انوکھے انداز سے خراجِ تحسین پیش کیاگیا۔ مثلاً ایم آر ڈی کے سیکریٹری جنرل ملک محمدقاسم نے اس قسم کی باتیں کی: آج اس اجلاس میں مارکسزم اور سوشلزم کی باتیں ہوئی تو بڑی تالیاں پیٹی گئیں۔ تقریروں سے پیٹ بھرتے ہیں ہم نہ سرخ ہیں نہ سبز، ہم سب منافق ہیں۔ آج جو لوگ اسمبلی میں بیٹھے ہیں وہ کل اسمبلی میں نہیں ہوں گے۔ کل ایوب خان کے ساتھ تھے آج ایوب خان کو گالی دیتے ہیں۔ یہ لوگ پیپلزپارٹی کے دور میں وزیر تھے۔ آج اسے گالیاں دیتے ہیں۔ ملک کو بچانے کے لئے جلد از جلد الیکشن کرانے ہوں گے اور حبیب جالب حزب اختلاف میں نہیں بیٹھے گا اگر حبیب جالب میں سیاسی عقل ہوتی تو وہ ۱۹۷۰ء میں پیپلزپارٹی چھوڑ کر نیب کا ٹکٹ حاصل نہ کرتے۔ معلوم نہیں یہ خراجِ تحسین ہے یا اخراجِ تحسین ملک قاسم نے جلسے میں موجود ہر شخص کو منافقوں کی صف میں شامل کرکے کم از کم اس شخص کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے جس کے اعزاز میں یہ تقریب منعقد کی گئی تھی۔۔۔۔۔ اس جلسے کی سب سے عمدہ تقریر خود حبیب جالب کی تھی۔ انہوں نے فرمایا۔‘‘بڑے بڑے وزیر اور صدرمال روڈ پر مارے مارے پھرتے ہیں کوئی ان سے ہاتھ ملانے والا نہیں ہوتا، لیکن میں ایک انٹرنیشنل شاعر بن چکا ہوں’’۔
جملے کی ساخت اس قسم کی ہے جیسے بڑے بڑے وزیروں کے مال روڈ پر مارے مارے پھرنے کی وجہ سے جالب انٹرنیشنل شاعر بن گیا ہو۔ حالانکہ جالب کو یہ مقام خود اس کے گھومنے پھرنے کی وجہ سے ملا ہے۔