ہادیہ امین
یہ 2030ء چل رہا تھا، جنت آج پورے اکیس سال کی ہوگئی تھی۔ باقی بچے اپنے اپنے گھروں کے تھے۔ کچھ کے تو بچے بھی جوان ہوگئے تھے۔ یہ عمر کا وہ حصہ تھا جب تنہائی بہت بری لگتی تھی، لوگوں کے قریب ہونے کے جتنے طریقے دس سال پہلے تھے، جن کو اس دور میں سوشل میڈیا کہا جاتا تھا، وہ سب تو میں نے بہت استعمال کیے، اب کے طریقے مجھے سمجھ میں نہیں آتے، اور کچھ آنکھوں نے بھی ساتھ دینا چھوڑ دیا۔ ہاتھوں کو اب عادت نہیں پکانے کی، لیکن سوچا: چلو بیٹی کی خوشی ہے… آ آ! لیکن وہ تو سالگرہ نہیں مناتی۔
ہاں یاد آیا… جنت سالگرہ نہیں مناتی، منع کرتی ہے کہ یہ عیسائیوں کی رسم ہے، ہم مسلمان اس کو مناتے اچھے نہیں لگتے۔ دس سال پہلے وہ جس مدرسے میں پڑھتی تھی ناں، وہاں کی باجی نے اسے بتایا تھا۔ اللہ کی رحمت! میری جنت کو ہمیشہ اچھے ادارے اور اچھی سہیلیاں ملی ہیں… چلو آتی ہوگی یونیورسٹی سے، تب تک کوئی رسالہ ہی پڑھ لوں۔
یہ خواتین کا کوئی رسالہ تھا۔ یونہی فہرست پڑھے بغیر کوئی بیچ کا صفحہ کھول ڈالا ’’بڑھتی عمر میں بچوں کے مسائل‘‘۔ پورا مضمون پڑھ لیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ بڑھتی عمر میں بچوں کو زیادہ توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جنت! اُس کے بارے میں تو میں نے اس طرح کبھی سوچا ہی نہیں۔ کبھی بڑے بچوں کے مسائل اور کبھی میری اپنی مصروفیت… ہائے پرانے وقتوں میں ملنا جلنا پھر تھوڑا بہت تھا، یہ 2030ء ہے، اب تو کوئی کسی کو پوچھتا ہی نہیں… ہاں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جنت پہ میری توجہ ہر دور میں کم ہی رہی ہے۔
جب بڑے بچے چھوٹے تھے تب تو میں مصروف ہی رہتی تھی، کبھی بچوں کا ہوم ورک، کبھی کپڑے استری… پھر میرے سب سے چھوٹے بیٹے نے جو جنت سے بڑا تھا، مجھے اسمارٹ فون لاکر دیا۔ بس پھر تو کچھ یوں لگا جیسے زندگی میں بہار آگئی۔ میں نے اتنے گروپس جوائن کیے، لمحے بھر کے لیے فیس بک کھولتی اور گھنٹے کیسے گزر جاتے پتا ہی نہ چلتا۔ میرا واٹس ایپ! اتنے گروپس تھے، اتنے گروپس تھے، اتنے گروپس تھے کہ کیا بتائوں۔
’’السلام علیکم امی‘‘۔ جنت آگئی تھی۔
’’وعلیکم السلام بیٹا! کب آئیں؟‘‘مجھے یوں لگا جیسے وہ خاصی دیر سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’آپ بہت دیر سے مسکرا رہی تھیں، شاید کسی گہری سوچ میں تھیں‘‘۔ اس کے انداز میں کچھ ناگواری سی تھی۔
’’ہاں میں دراصل…اچھا خیر چھوڑو! کھانا کھائو گی؟‘‘
’’جی! دال بنا کر گئی تھی، چاول ابالنے ہیں، ابالتی ہوں جاکر‘‘۔ اس نے تھکے انداز میں کہا۔
’’بیٹا! مجھے بتا دیتیں، میں ابال دیتی۔‘‘
اُس نے مجھے سرسری دیکھا اور طنزیہ نظروں سے مسکرادی… کھانا کھاتے ہوئے بھی خاموشی چھائی رہی جیسے صدیوں کی دوری ہو۔
’’بیٹا یہاں بیٹھو! مجھے ایک سوٹ کے دوپٹے کا مشورہ کرنا ہے۔‘‘
’’آج آپ کی کسی فرینڈ کی کال نہیں آئی؟‘‘
میں لمحے بھر کو خاموش ہوگئی۔
’’سوری امی! ابھی آن لائن بہت ٹیوشنز پڑھانی ہیں۔‘‘
دن یونہی گزر گیا۔ شام اور پھر رات کے کھانے کا وقت آگیا۔ رات کے کھانے پر بھی ضرورت کی ایک آدھ بات ہوئی۔ ’’بیٹا یونیورسٹی کیسی رہی؟ دن کیسا گزرا؟‘‘
’’اچھی رہی، اچھا گزرا‘‘۔ وہی سرسری سا جواب۔
’’پیروں میں جو انگوٹھی پہنی ہے،کہاں سے لی؟‘‘
ہنستے ہوئے کہنے لگی’’یہ 2030ء ہے مائی مدر، سب کچھ آن لائن ہی ملتا ہے، یہ میں نے چھ ماہ قبل منگوائی تھی اور تب سے پہن رہی ہوں۔‘‘
سمجھ میں آیا کہ وہ کیوں مسکرائی تھی، وہ چھ مہینے سے انگوٹھی پہن رہی تھی اور میں نے اب نوٹ کیا تھا۔ وہ اٹھی، کھانے کے برتن سمیٹے اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
کیا صرف خدمت کرنا اور ادب سے بات کرنا ہی اولاد کا فرض ہے؟ اس نے بدتہذیبی نہیں کی، خدمت میں بھی کوئی کمی نہیں کی مگر اپنی مصروفیت میں سے وقت بھی نہیں نکالا میرے لیے۔
میں اس کے کمرے میں گئی تو وہ نماز پڑھ رہی تھی، اس کے بعد وہ یونیورسٹی کی پڑھائی لے کر بیٹھ گئی۔ میرے لیے، بوڑھی ماں کے لیے کوئی وقت ہی نہیں اس کے پاس۔
میں کمرے میں گئی اور زور سے کہا ’’بیٹا میرے لیے تھوڑا سا بھی وقت نہیں ہے تمہارے پاس! دو گھڑی میرے پاس آئو، مجھ سے بات کرو… باقی بچے تو اپنی زندگی میں مگن ہیں۔‘‘
’’اور میں فارغ ہوں…!‘‘ اس نے ناگواری سے جواب دیا۔ میں حیرت کے سمندر میں گر گئی۔
’’آئی ایم سوری امی! اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے مجھے‘‘۔ میں ماں ہوں، محسوس کرسکتی ہوں، اس کے لہجے میں ندامت تھی، عزت تھی، مگر محبت نہ تھی۔
’’تمھارا رویہ ایسا کیوں ہے؟‘‘ میں نے اضطراب سے پوچھا۔
وہ مجھے دیکھتی رہی دو تین لمحے، اس کی خاموشی میں بہت سے جواب چھپے تھے۔ جی بہت سارے، مگر وہ کچھ نہ بولی، لمحے بھر کو آنکھوں کے کٹورے بھیگ گئے۔
’’جواب دو بیٹا، پلیز…‘‘
’’کیوں کہ جب مجھے آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی آپ وہاں نہیں تھیں…‘‘ وہ خاموش ہوگئی… آنسو نہ نکلے، شاید وہ بہت پہلے نکل چکے تھے۔
’’تو میں کہاں تھی جنت؟‘‘
’’آپ فیس بک پہ تھیں امی… آپ سوشلائزنگ کررہی تھیں۔ آپ مصروف ہوتی تھیں امی۔ آپ اپنی سہیلیوں میں مگن ہوتی تھیں۔ مجھے کسی چیز کی کمی نہیں تھی سوائے آپ کے وقت کے۔ باقی سب فرائض آپ پورے کرتی تھیں… مگر مجھے بات نہیں باتیں کرنی ہوتی تھیں۔ پھر مجھے رہنا آگیا… اللہ تعالیٰ نے وقت گزار ہی دیا امی! مگر الحمدللہ مجھے کبھی بری سہیلیاں نہیں ملیں… اللہ نے مجھے اپنی حفاظت میں رکھا… اب وقت گزر گیا، مگر میں ان فاصلوں کو دور کرنے کی کوشش کروں گی…ضرور کروں گی‘‘۔ وہ نگاہ نیچی کرکے خاموش ہوگئی۔
مجھے یہ کہانی مزید نہیں سنانی… کہانی آپ لوگ خود ختم کرلیں… مگر وہ ہرگز نہ بوئیے گا جو میں کاٹ رہی ہوں۔