جادو

303

پروفیسر عبدالحمید ڈار
جادو بھی ابلیسِ لعین کے ترکش کا ایک زہریلا تیر ہے جسے وہ انسانوں کے سینے چھلنی کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ کہنے کو تو جادو ایک علم ہے لیکن یہ علم کی کسی تعریف پر پورا نہیں اترتا، بلکہ یہ ایک فن ہے جو بالعموم معاشرے کے پست اور گھٹیا لوگ گھٹیا مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے اور جاہل اور سادہ لوح لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں۔ اس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ جادوگر چند الٹے سیدھے الفاظ سے بنے ہوئے کلمات کے ذریعے کسی شخص کی قوتِ متخیلہ اور نفسیات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اس کام میں وہ شیاطین یا ارواحِ خبیثہ وغیرہ سے مدد طلب کرتا ہے۔ اگر مشیتِ ایزدی سے اس کی یہ تدبیر کارگر ہوجائے تو متاثرہ شخص کسی جسمانی روگ یا بیماری یا غیر معمولی پریشانی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
قرآن پاک میں جادو کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ 120 میں ارشاد ربانی ہے ’’سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔‘‘
’’وہ فرشتے یعنی ہاروت و ماروت جب بھی کسی کو اس (جادو) کی تعلیم دیتے تھے تو پہلے صاف طور پر متنبہ کردیا کرتے تھے کہ دیکھ ہم محض ایک آزمائش ہیں، تُو کفر میں مبتلا نہ ہو۔‘‘ جادو (کرنا یا کروانا) ایک فعلِ حرام ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انسان کی آخرت کو خراب کرنے والا کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔ آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’سات غارت گر چیزوں سے پرہیز کرو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا ’’وہ کیا ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟‘‘ فرمایا ’’خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، جادو، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جہاد میں دشمن کے مقابلے میں پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلنا اور بھولی بھالی عفیف مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورۃ العلق، بحوالہ بخاری و مسلم، راوی ابوہریرہؓ)
جادو کروانے والا نہایت گھٹیا خواہشات کی تکمیل کے لیے جادوگر کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ بالعموم کسی عزیز رشتے دار کو اذیت میں مبتلا کرنے، خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالنے یا حسد کی آگ میں جل کر وہ اس گھنائونے عمل کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس سے گھر میں تفرقہ اور باہمی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور گھروں کا پُرامن ماحول پراگندہ ہوجاتا ہے، اور خاندانی رنجشیں اور کاروباری رقابتیں جنم لیتی ہیں۔ اس لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعلِ بد کی پُرزور مذمت کی ہے اور اس میں ملوث ہونے والوں کو اپنی اپنی لاتعلقی کی وعید سنائی ہے۔ اسلام دینِ رحمت اور حضورؐ رسولِ رحمت ہیں۔ آپؐ دلوں کو جوڑنے والے اور نفرتوں کو دور کرنے والے ہیں۔ جو لوگ آپؐ کے سچے پیروکار ہیں وہ بھی انہی اوصاف کے حامل ہوتے ہیں۔ اور جو نابکار اپنی گھٹیا خواہشات کی خاطر ان مقاصد کو نظرانداز کردیتے ہیں انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق اور نسبت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور مخلصانہ اطاعت نصیب فرمائے اور شیطانِ لعین کے پسندیدہ ہر کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ