خوش مزاجی، غمگساری، عاجزی اور انکساری کا پیکر عبدالغفار پدھا

500

جاوید احمد خان
یہ 1980کے قریبی کسی سال کی بات ہے ادارہ نور حق میں کراچی کے ہر سطح کے ناظمین کا دو روزہ تربیتی اجتماع تھا پروگرام میں مختلف موضوعات پر خطابات کے علاوہ ایک رپورٹ سیشن بھی تھا جس میں ہر ضلع سے ایک کسی علاقے کو اپنی ماہانہ کارکردگی رپورٹ پیش کرنا تھی ۔ضلع جنوبی سے ایک علاقے برنس روڈ کی بھی رپورٹ اجتماع میں سنائی گئی واضح رہے کہ اس زمانے میں کچھ حلقوں پر مشتمل علاقے ہوا کرتے تھے ۔جن لوگوں نے ان رپورٹوں کو غور سے سنا ہو گا وہ یقینا میری بات سے اتفاق کریں گے کہ علاقہ برنس روڈ کی جو رپورٹ ناظم علاقہ نے پیش کی وہ اتنی شاندار جامع اور مفصل (انگلش میں آپ اس کو coprihenciveکہہ سکتے ہیں )رپورٹ تھی کہ اسی وقت میرے دل میںایک خیال آیا کہ اگر یہ تنظیم کے اندر رہ گئے تو اپنی صلاحیتوں کی روشنی میں یہ کم از کم امیر کراچی کے منصب تک تو پہنچ سکتے ہیں ۔میرے ذہن بہت بڑے اگر کا لفظ کیوں آیا تھا مجھے خود بھی پتا نہیں پھر اس کے بعد اس طرح کے کئی اجتماعات ہوئے میری نظریں اس نوجوان کو تلاش کرتی رہیں جو کبھی علاقہ برنس روڈ کا ناظم تھا اور جو اس نے رپورٹ پیش کی تھی کون سا ایسا شعبہ تھا جس میں دعوتی کام نہ ہوا ہو اس زمانے میں بچوں کی تنظیم اطفال یا اچھے ساتھی ہوا کرتی تھی نوجوانوں میں کام کی رپورٹ آتی تھی ماہانہ رپورٹ فارم چار صفحات پر مشتمل ہوتا تھا ،برادریوں میں دعوتی کام با اثر افراد سے ملاقاتیں ،ائمہ علماء کے ساتھ نشستیں ،فلیٹوں کے اندر جماعتی دعوت کو پہنچانا ،علاقے کی سطح پر تنظیمی اجتماعات کے ساتھ دیگر اور دعوتی پروگرام ہوتے تھے حلقوں کی سطح پر دروس قران کی محفلیں ،اجتماعات کارکنان ،اجتماعی کھانے ،دعوتی اجتماع عام ،ہفتہ وار رابطہ عوام کے علاوہ احادیث بورڈاور مٹھی آٹا سکیم بھی پابندی سے جاری رہتی ۔درج بالا کاموں میں سے بیشتر کام اب بھی ہوتے ہیں ہمارے ایک مرحوم تحریکی ساتھی جناب اسلام اللہ صاحب کہا کرتے تھے کہ جماعت میں ناظم حلقہ ہو ناظم علاقہ ہو یا کسی بھی سطح کا امیر یا ناظم ہو اس کی چوبیس گھنٹے کی ذہنی انگیج منٹ اس ذمہ داری کے ساتھ ہو جاتی ہے باقی نائبین ہوں کارکن ہوں کسی شعبہ کے ذمہ دار ہوں یا برادر تنظیموں میں کام کرتے ہوں ان کی ذہنی انوالمنٹ اس طرح کی نہیں ہوتی ۔
اس واقع کو کئی برس گزر گئے 1990سے کچھ قبل کی بات شاید-88 1987ہو مجھے معلوم ہوا کہ لیاقت آباد میں بانٹوا میمن سوسائٹی میں ایک رکن جماعت برنس روڈ سے منتقل ہو کر آئے ہیں پھر ان سے ملاقات ہوئی تو پہچان گیا کہ یہ وہی ہیں جن کو ہم برسوں سے تلاش کررہے تھے ہم نے گفتگو کا آغاز کرنا چاہا تو عبدالغفار پدھا صاحب ذہین آدمی تو تھے ہی انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا بس جاوید بھائی پچھلی باتیں نہ یاد دلائیے گا اب آگے کی بات کریں ۔ عبدالغفار صاحب پہلے کہیں ملازمت کرتے تھے پھر انھوں نے یہ سوچا کہ اگر میں اپنا کاروبار مستحکم کر لوں تو سیکڑوں لوگوں کو ملازمت دے سکتا ہوں اور ویسے بھی ہماری میمن کمیونٹی میں کاروباری جراثیم بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ۔پھر عبدالغفار بھائی نے اپنے ایک ساتھی شہاب بھائی کے ساتھ ایڈوانس الیکٹرانک انٹر نیشنل کے نام سے ایک فرم قائم کی اور اور سی این جی ڈسپنسر بنانے کا کام شروع کیا اور اس کے ساتھ ہی فرسٹ پیرامائونٹ مضاربہ کے ساتھ سہراب گوٹھ پر ایک سی این جی اسٹیشن قائم کیا اور کاروں گاڑیوں میں سی این جی کٹ کی تنصیب کا کام بھی شروع کیا ۔شہاب بھائی نے اس بزنس کی ٹیکنیکل سائیڈ سنبھالی اور عبدالغفار بھائی نے انتظامی اور مارکٹنگ کا شعبہ اپنے ہاتھ میں لیا ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں برکت ڈالی اور یہ مزید آگے بڑھتے رہے میرا ان سے تحریکی حوالے سے رابطہ تو رہتا تھا لیکن کاروبار کے حوالے سے مجھے یقین ہے کہ عبدالغفار بھائی نے امانت داری اور دیانتداری کو ترجیح اول رکھا اب یہ الگ بات ہے کہ ہم جس ظالمانہ استحصالی نظام میں گزر بسر کررہے ہیں اور جس کرپٹ سوسائٹی میں سانس لے رہے ہیں اس میں اپنی اور اپنے کاروبار کی سانس بحال رکھنے کے لیے کہیں نہ کہیں آدمی کو کمپرومائیز کرنا پڑتا ہے ،ویسے اصل بات تو نیت کی ہے اللہ تعالیٰ بھی نیتوں کو دیکھتا ہے کہ اگر آپ کی نیت دیانتداری سے کاروبار کرنے کی ہے تو بہت ساری مشکلیں اللہ میاں آسان کردیتا ہے ۔عبدالغفار صاحب کی دوسری خصوصیت یہ تھی انھوں نے اپنے دفتر میں تحریکی افراد کو ترجیح دیا یہ جماعت کے شعبہ روزگار میں عنایت اللہ اسماعیل بھائی کے پاس اپنی ریکوائرمنٹ بھیج دیتے وہاں سے ان کو مناسب فرد مل جاتا تیسری اہم بات یہ کہ انھوں نے اپنے یہاں ملازمین کی تنخواہیں اگر مارکیٹ کے لحاظ سے بہت زیادہ نہیں ہیں تو کم بھی نہیں ہیں ویسے تو ملازمت پیشہ افراد آج کے مہنگائی کے دور میں اپنی اجرتوں کی کسی بھی حد پر مطمئن نہیں ،ایک اور اہم بات یہ کہ ہم نے جتنے بھی کاروباری حضرات کو دیکھا یا ان سے واسطہ رہا تو ان کو ہمیشہ یہ رونا روتے دیکھا کہ آجکل کاروباری حالات ٹھیک نہیں ہیں بس جیسے تیسے چلا رہیں ہیں ان ہی جیسے تیسے حالات میں ان کے یہاں جب کوئی تقریب ہوتی اس کے اللے تللے ان کے چمکتے ہوئے کاروبار کی چغلی کھارہے ہوتے ہیں عبدالغفار بھائی ایسے کاروباری نہیں تھے وہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آتے اور مزید یہ کہ ان کے کاروبار پر منفی ادوار بھی آئے لیکن انھوں نے اور کاروباری حضرات کی طرح اپنے ملازمین کی تعداد اور اجرتوں میں کوئی کمی نہیں کی وہ اپنے تمام ملازمین سے بھائیوں جیسے مراسم رکھتے تھے اکثر مذاق بھی کرلیتے تھے یہ اپنے دفتر میں صبح پہلے درس قران رکھتے تھے تمام ملازمین دفتری اوقات سے آدھے گھنٹے پہلے آکر درس میں شریک ہوتے پھر اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ۔میں نے ابتدا میں ان کی تحریکی ذمہ داریوں کا جو ذکر کیا اور پھر پس منظر میں چلے جانے کا خدا نہ خواستہ یہ مطلب نہیں تھا تحریک سے رشتہ ٹوٹ گیا تھا بلکہ یہ رشتہ نہ صرف برقرار رہا بلکہ دن بدن مضبوط ہوتا گیا ایک تحریکی فرد اگر معاشی طور سے مستحکم ہوتا ہے تو وہ تحریکی افراد کی اور خود تحریک کی معیشت کی مضبوطی کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔بس یہی ہوا نہ کہ انھوں نے کوئی تنظیمی ذمہ داری نہیں اٹھائی جماعت کی برادر تنظیم بزنس مین فورم میں اپنی صلاحیتوں اور روابط سے تحریک کو فائدے پہنچاتے رہے ملک میں انتخابات ہوں یا کوئی کسی بھی قسم کے فنڈ ریزنگ کی مہم چل رہی ہو عبدالغفار بھائی خود بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور دوسرے اہل خیر حضرات سے بھی معاونت حاصل کرتے رہے عبدالغفار بھائی بنیادی طور پر نیک اور اللہ والے آدمی تھے۔ان کی زبان ہر وقت ذکراللہ سے تر رہتی یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر وقت تسبیح گھماتے رہتے کبھی کبھی تسبیح بھی ان کے ہاتھ میں نظر آتی لیکن ان کا ذکر اللہ اس طرح سے ہوتا کہ وہ دن بھر جتنے لوگوں سے جتنی بھی بات کرتے اس گفتگو میں ان شاء اللہ ،ماشاء اللہ ،الحمداللہ اور جزاک اللہ کے الفاظ بار بار دہراتے اس طرح دن میں ہزاروں نہیں تو سیکڑوںمرتبہ تو ذکر اللہ ہوہی جاتا ۔عبدالغفار صاحب کی ایک اور منفرد خصوصیت یہ تھی کہ یہ دھونڈ دھونڈ کر سفید پوش مستحقین اور بالخصوص تحریکی ارکان و کارکنان کی خاموشی سے مدد کیا کرتے تھے ۔ایک دو سال قبل انھوں نے مجھے فون کیا فلاں ہمارے کارکن جو لکڑی ٹیک کر ہمارے یہاں درس میں آیاکرتے تھے اب کہاں ہیں نظر نہیں آتے میں نے کہا وہ یہاں سے شفٹ ہوگئے ہیں پھر انھوں نے کہا آپ ذرا انھیں دیکھ لیجئے گا اگر کوئی مدد کی ضرورت ہو تو کر دیں گے۔ اپنی وفات سے تقریباَ ایک ماہ قبل انھوں نے فون کیا کہ سکندراباد میں وہ جو فلاں رکن جماعت بیمار رہتے تھے ان کا کیا حال ہے انھیں دیکھ لیجئے کوئی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے گا میں نے بتایا وہ بیمار تو ہیں لیکن ان کی کمپنی والوں نے ان سے کہا ہے وہ دفتر میں آکر حاضری لگادیں اور جتنی دیر بیٹھ سکتے ہوں بیٹھیں کوئی کام نہ کریں چنانچہ انھوں نے ایک رکشہ ہائر کرلیا ہے جس میں وہ روز کمپنی جاتے ہیں گھنٹہ آدھ گھنٹہ بیٹھ کر اور حاضری لگا کر چلے آتے ہیں کمپنی والے تنخواہ ان کو پوری دے رہے ہیں اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور کمپنی والوں کو دعائیں دینے لگے پھر کچھ دن بعد فون آیا اور ان ہی رکن کے بارے میں بتایا کہ ان کی بیٹی کا فون آیا تھا انھیں کچھ ضرورت ہے میں آپ کو پیسے بھجوا رہا ہوں انھیں صبح ہی جاکر دے دیجئے گا ۔ایک حدیث کے مطابق مرنے کے بعد تین اعمال انسان کے ایسے ہیں جس کا ثواب اسے قیامت تک پہنچتا رہے گا جس میں ایک نیک اولاد دوسرے کسی خیر کے کام میں مالی تعاون کہ جب تک وہ خیر کے ادارے دینی خدمت کرتے رہیں گے اس فرد کے اعمال میں اس کا اجر جاتا رہے گا اور تیسرے اس نے اپنے پیچھے علم کی میراث چھوڑی ہو یعنی اس نے کسی کو علم منتقل کیاہو اور جب تک وہ فرد اس علم کی روشنی میں نیک عمل کرتا رہے گا تو علم منتقل کرنے والے کو اس کا ثواب ملتا رہے گا عبدالغفار بھائی نے سوگواران میں بیوہ اور پانچ بچوں کو چھوڑا ہے ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹاہے یہ سب بچے نیک ہیں اور دین کے بنیادی فرائض ادا کرتے ہیں ان کی اہلیہ ایک وقت میں جماعت اسلامی لیاقت آباد خواتین کی ناظمہ بھی رہیں وہ بڑی نیک اور سادہ خاتون ہیں ۔اسی طرح علم کے حوالے سے عبدالغفار صاحب کا ایک کام یہ ہے کہ اب سے شاید آٹھ دس سال قبل انھوں نے لیاقت آباد میں اپنے گھر پر درس قران کا پروگرام اس طرح شروع کیا کہ یہ الم شروع ہوکر الناس پہ ختم ہو یہ سلسلہ ان کے گھر مسلسل چلتا رہا اب سے دو سال قبل جب وہ لیاقت آباد سے ڈالمیا کے سامنے نیول ہائوسنگ سوسائٹی میں شفٹ ہوئے تو بانٹوا نگر میں اپنے ایک دوست ذاکر صاحب کے گھر اس درس کو منتقل کردیا کبھی کبھی وہ خود بھی اس درس میں شریک ہوتے تھے اس طرح ان کا یہ علم کا لگایا ہوا پودا ہرا بھرا ہے یہاں پہلے بارہ سے ساڑھے بارہ بجے تک تجوید کی کلاس ہوتی ہے پھر ایک بجے تک درس قران ہوتا ہے ،چوتھی جلد کی سورہ مومن آجکل زیر مطالعہ ہے ۔جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا عبدالغفار بھائی کو اس کا ثواب ان شاء اللہ پہنچتا رہے گا۔مالی معاونت کا ذکر تو تفصیل سے ہو ہی چکا ہے ۔اپنے دفتر کے ملازمین کا بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے وہ ان کی غمی خوشی میں بہ نفس نفیس شریک ہوتے ۔میری آخری ملاقات ان سے ان کے دفتر کے ساتھی کے بھائی کے ولیمے میں ہوئی تھی اب سے تقریباً دو سال قبل انھیں جگر کی کوئی پرابلم ہوئی وہ آغا خان میں کئی روز داخل رہے پھر ٹھیک ہو گئے لیکن کچھ صحت ڈائون ہو گئی تھی ماہ جنوری کی بیس یا اکیس تاریخ کو وہ دوبارہ آغا خان میں داخل ہوئے ،پچیس چھبیس جنوری جمعہ ہفتے کی درمیانی سب ڈیرھ بجے وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہفتے کو بعد ظہر طارق روڈ کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔دعاہے اللہ تعالی ان کی لغزشوں سے در گزر فرمائے ان کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے ،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے بھائی سلیم پدھا ان کی اہلیہ بچوں اور دیگر سوگواران کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

حصہ