عوام کی بھی کچھ ذمے داریاں ہیں

370

افروز عنایت
کراچی ائرپورٹ پر قطر ائر لائن کائونٹر پر کافی رش تھا میں نے وہاں کے کارندے سے عنایت (شوہر) کے لیے وہیل چیئر لانے کے لیے کہا (فریکچر آنے کی وجہ سے آپریشن کی وجہ سے انہیں چلنے میں دشواری ہورہی تھی) بیٹے نے ٹکٹ بکنگ کے وقت وہیل چیئر کی سہولت طلب کی تھی۔ پانچ منٹ میں کارندے نے وہیل چیئر لا کر دی اس طرف سے مطمئن ہو کر میں کائونٹر کی طرف متوجہ ہوئی۔ ایک گھنٹہ گزر گیا لیکن ابھی تک باری آنے میں دیر تھی، اتنے میں ایک 30/35 سالہ صحت مند شخص نے مجھے اور میرے سامان کو ایک طرف دھکیلا اور غصے سے کہنے لگا ’’بہت ہوگیا اب…‘‘ اور آگے بڑھ گیا اس کا ساتھی جو کچھ دیر پہلے مجھ سے آگے جانے کی کوشش کررہا تھا اسے میں نے روکا تھا کہ بھائی اپنی باری کا انتظار کریں وہ تو رُک گیا تھا لیکن اس کے اس ساتھی نے اپنی مردانگی دکھانے کی کوشش کی۔
اس کی بدتمیزی پر مجھے طیش آگیا لیکن میں نے صبر سے کام لیا کہ کوئی بات نہیںآپ ہی پہلے آجائیں ۔لیکن کم از کم خاتون سے بات کرنے کا سلیقہ تو سیکھ لیں۔ لیکن اس بندے پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ابھی اس صورت حال سے فارغ ہوئی تھی کہ کائونٹر پر افسر کے برابر کھڑے شخص نے مجھ سے میرے پاسپورٹ مانگے، میں سمجھی وہ اس افسر کا بندہ ہی ہے میرے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تلافی کرنا چاہ رہا ہے، میں نے ہچکچاتے ہوئے پاسپورٹ اسے تھمادیے، میں نے نوٹ کیا اس نے میرے پیچھے کھڑے ہوئے دس بارہ مسافروں کے پاسپورٹ بھی لے لیے جبکہ مجھ سے آگے بھی ابھی تک چھ سات مسافر تھے، میں نے اس شخص کا جائزہ لیا تو ائرپورٹ کی طرف سے کوئی شناختی کارڈ وغیرہ اس کے لباس پر آویزاں نہ تھا میں نے فوراً اس سے اپنے پاسپورٹ لے لیے کہ آپ یہاں کے کارندے نہیں ہیں پھر آپ نے میرے پاسپورٹ کیوں لیے، وہ ہچکچانے لگا اور معذرت طلب کرنے لگا، تھوڑی ہی دیر میں مجھ پر یہ آشکار ہوگیا کہ وہ ٹریول ایجنٹ ہے اس کے ساتھ سفر کرنے والے بندے‘ چاہے ایک گھنٹے تاخیر سے ہی کیوں نہ آئے تھے‘ اُن سب کے پاسپورٹ اکٹھے افسر کو پیش کرکے فارغ ہونا چاہتا تھا، تب میں نے کہا بھائی یہ کیا ناانصافی ہے ہم چند لوگ ڈیڑھ گھنٹے سے بے وقوفوں کی طرح اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں اور آپ ہمارے ایک گھنٹے بعد آنے والوں کے پاسپورٹ اور لگیج میں مصروف ہیں۔ میری بات پر افسر نے بھی کہا ہاں میڈم آپ درست فرما رہی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ افسر بھی اس کے ساتھ شامل تھا یا نہیں۔ خیر مجھے پچھلے سال دسمبر کا سفر یاد آگیا واپسی پر قطر ائرپورٹ پر کائونٹر پر اسی طرح کا رش تھا، افسر نے مجھے اور میرے شوہر کو سلام کرنے کے بعد بڑے احترام سے کہا کہ میڈم یہاں بہت رش ہے آپ کو تکلیف ہوسکتی ہے‘ آپ اُس کائونٹر پر چلے جائیں۔ میں سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔ اس نے ایک سیکورٹی افسر کو بلایا اور کہا میڈم کو اگلے کائونٹر پر لے جائیں۔ اگلا کائونٹر بالکل خالی تھا‘ وہاں میں نے اندراج کروایا۔ میں نے پہلے والے کائونٹر پر نظر دوڑائی تو شکر ادا کیا کہ وہاں فارغ ہونے میں کم از کم آدھ گھنٹہ تو ضرور لگ جاتا۔ یہ خصوصی رعایت وہاں بزرگ خواتین و حضرات کو دی جاتی ہے جب کہ ہمارے ملک میں بزرگ لوگوں کے کائونٹر پر بھی اکثر جوان ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔
خیر لگیج اور امیگریشن سے فارغ ہو کر میں میاں کی وہیل چیئر کو دھکیلتی آگے بڑھی، میرے ایک ہاتھ میں ہینڈ بیگ تھا جس کی وجہ سے مجھے وہیل چیئر دھکیلنے میں دشواری ہورہی تھی۔ قطر ائر لائن کی انتظار گاہ تک پہنچی تو ایک صاحب مسکراتے ہوئے آئے اور بولے ’’میڈم میں آپ کو کافی دیر سے تلاش کررہا تھا وہیل چیئر کے لیے، آپ تو خود ہی یہاں آگئیں۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’بہت بہت شکریہ ابھی بھی آنے کی ضرورت نہ تھی۔‘‘
ڈھائی گھنٹے کا سفر انتہائی آرام دہ تھا جہاز سے نکلنے لگی تو شوہر کے ہاتھ میں چلنے کے لیے چھڑی (اسٹک) تھی۔ ائرہوسٹس آگے آئیں تو میں نے وہیل چیئر کے لیے کہا۔ فوراً وائرلیس پر اس نے سیکورٹی افسر کو پیغام بھیجا، وہ آیا اور سلام کرکے عنایت کا ایک ہاتھ پکڑ کر سہارا دیا اور ائرپورٹ کے احاطے میں داخل ہوگیا… جہاں ایک شخص وہیل چیئر لیے انتظار کررہا تھا۔ تقریباً چھ منٹ کا راستہ وہیل چیئر پر طے کرکے اس نے ہمیں کارٹ (Cart) تک پہنچایا‘ کارٹ کا ڈرائیور ہمارا ہی انتظار کر رہا تھا جب کہ باقی وہیل چیئر والے مسافر کارٹ میں بیٹھ چکے تھے۔ کارٹ نے ہمیں جہاں چھوڑا وہاں کچھ افراد تین چار وہیل چیئر کے ساتھ انتظار کررہے تھے۔ ان میں سے ایک فرد نے نہایت ادب سے آگے بڑھ کر سلام کیا اور میرے لگیج (سامان) کا نمبر نوٹ کیا اور وہیل چیئر کو چلاتا ہوا لگیج بیلٹ تک آیا، میں سمجھی وہ یہاں چھوڑ کر چلا جائے گا… لیکن نہیں‘ وہ وہیں انتظار کرنے لگا۔ میرا سامان آیا تو نمبر دیکھ کر بیلٹ سے اُتارا اور ٹرالی میں لاد دیا۔ میں اس کو خدا حافظ کہنے ہی والی تھی کہ وہ وہیل چیئر لے کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھا جہاں فرحت (بیٹا) منتظر تھا۔ فرحت باپ کی وہیل چیئر لینے کے لیے آگے بڑھا تو اس کارندے نے کہا ’’سر آپ کی گاڑی اُس طرف ہے…‘‘ اور ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر اس نے عنایت کو کھڑے ہونے میں مدد کی اور سلام کرکے رخصت ہوگیا۔ وہ تقریباً بیس منٹ ہمارے ساتھ رہا میں نے بیٹے کو کراچی اور قطر ائرپورٹ کی تمام صورت حال کے بارے میں بتایا اور شکر ادا کیا کہ یہ سہولت تھی کیوں کہ قطر ائرپورٹ پر بیرونی گیٹ تک پہنچنے کے لیے کافی چلنا پڑتا ہے اور ایک صحت مند فرد کے لیے بہت دشوار ہوسکتی ہے۔
عنایت قطر آنے سے گھبرا رہے تھے کہ مجھے چلنے میں بہت دقت ہورہی ہے‘ میں کسی تفریح میں تم لوگوں کا ساتھ کس طرح دوں گا، گھر میں ہی بیٹھا رہوں گا۔ لہٰذا مجھے رہنے دو۔ لیکن الحمدللہ ہر جگہ ان کے ہاتھ میں چھڑی (اسٹک) دیکھ کر سیکورٹی گارڈ وہیل چیئر کی پیشکش کرتا۔ پہلے دن جب ہم گئے تو سیکورٹی گارڈ نے وہیل چیئر کی پیشکش کی، میں سمجھی کہ اس کا کرایہ طلب کریں گے لیکن یہ سہولت بلا معاوضہ معذور اور بزرگ افراد کو ’’ہر جگہ‘‘ مہیا کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مسجد، شاپنگ مال، میوزیم، پارک غرض ہر جگہ یہ سہولت رکھی گئی ہے۔ اس طرح عنایت کا وہ ڈر اور خوف جاتا رہا اور انہوں نے تمام تفریحات میں مکمل طور پر ہمارا ساتھ دیا۔
اس مرتبہ قطر کی سیر میں کچھ نئی جگہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں کیوں کہ ان جگہوں نے مجھے تو خاص طور پر متاثر کیا بقول فرحت (بیٹے) کے امی کا تعلق تدریس و تدریس اور لکھنے پڑھنے سے ہے اس لیے وہ کلاسیکل ذہن کی مالک ہیں۔ جی ہاں میں یہاں خصوصی طور پر قطر تعلیمی شہر (Education City) کی بات کررہی ہوں گرچہ یہ ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں لیکن کچھ عمارات مکمل ہوچکی ہیں جن میں ایجوکیشن مسجد، عرب آرٹ میوزیم، ایجوکیشن لائبریری، یونیورسٹی کے کیمپس، رہائشی عمارات و ہوٹل، پارک وغیرہ شامل ہیں جو تمام جدید فن تعمیر کی اعلیٰ مثال کہے جاسکتے ہیں۔
قطر ایجوکیشن سٹی کی ایجوکیشن مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ نماز سے فارغ ہو کر مسجد کی عمارت کی طرف دھیان گیا۔ جدید فنِ تعمیر، دیدہ زیب خطاطی، جگہ جگہ فوارے، قرآنی آیات سے مزین دیوار نے ہم سب کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ بے اختیار تعریفی کلمات زبان سے نکلے۔ بے شک کوئی بدذوق انسان ہی ہوگا جو تعریفی کلمات ادا نہ کرے۔ مسجد کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پچھلے احاطے کی طرف نکل گئے جہاں اونچائی پر بنے خوب صورت چبوترے پر کافی تعداد میں لوگ نظر آئے۔ نزدیک گئے تو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں کھانے کی پلیٹیں تھیں۔ میں نے حیرانی سے کہا کہ مسجد کے احاطے میں ریسٹورنٹ؟
خیر ہمیں آگے آتے دیکھا تو فوراً ایک شخص زینے سے نیچے آیا۔ شاید منتظمین میں سے تھا، نہایت احترام سے سلام کے بعد شوہر کو (جو اسٹک کے سہارے چل رہے تھے) کہا معزز شخص آپ لفٹ کے ذریعے اوپر آئیں اور وہ ہم سب کو لے کر لفٹ کی طرف آیا۔ اوپر پہنچے تو لذیذکھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو آرہی تھی۔ لنچ کا وقت تھا گرچہ ہم گھر پر انتظام کرکے آئے تھے لیکن اس نے زبردستی ہم سب کو اپنے ساتھ شامل کیا۔ سب لوگوں نے اپنی پلیٹیں (تھالیاں) کھانے پینے کی اشیاء سے بھر کر چبوترے سے منسلک ہال کی جانب پلٹے، ہم بھی اندر داخل ہوئے، اندر ایک خوب صورت کشادہ آڈیٹوریم تھا۔ تقریباً سو سے ڈیڑھ سو افراد موجود تھے، سامنے کشادہ اسٹیج پر ایک شخص انگریزی میں سورۃ البقرہ کی تفسیر بیان کررہا تھا۔ چند آیات پر مبنی یہ لیکچر تقریباً ایک گھنٹے کا تھا، ہمیں بتایا گیا کہ اکثر و بیشتر یہاں دینی بیان ہوتا رہتا ہے۔
اسی ایجوکیشن سٹی میں نیشنل لائبریری دیکھنے کا اتفاق ہوا، جدید طرز تعمیر عمارت کا کشادہ ہال جدید اسٹائل سے کتابوں سے آویزاں شلیف دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز تھا جس میں اسلامی کتب، قرآن پاک کے عربی و انگریزی نسخے و تفسیر کی کتب تھیں۔ فرحت نے آن لائن لائبریری کی رکنیت کے لیے رجسٹریشن کروائی تھی‘ اس نے وہاں کائونٹر سے لائبریری کارڈ وصول کیا۔ کوئی بھی مطلوبہ کتاب 20 دن تک مطالعے کے لیے قاری رکھ سکتا ہے۔ یہاں ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد کا رش تھا، ایک طرف چھوٹا سا چائے خانہ تھا جس کی نفاست قابل تعریف تھی۔ بائیں طرف کچھ شوکیس تھے جن میںمچھلی پکڑنے کے پرانے اوزار، کچھ جنگی ہتھیار، موتی اور سیپ وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں صوفہ کم بیڈ کی کچھ نشستیں تھیں جن پر کچھ لوگ قیلولہ فرما رہے تھے، ہر طرف نہایت خاموشی و سکون کا سماں تھا، یہاں لائبریری سے مستفید ہونے والے افراد کو لیپ ٹاپ اور نیٹ کی سہولت میسر تھی، آڈیٹوریم کی مسجد میں ہم نے نماز عصر ادا کی۔ آڈیٹوریم میں تقریباً 2 سو افراد کی گنجائش تھی، مسجد کے پیچھے ایک ریسٹورنٹ تھا جس میں چائے اور کھانے پینے کا بندوبست کیا گیا تھا کیونکہ ایجوکیشن سٹی کی یونیورسٹی میں غیر ملکی طالب علموں کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے جو یہاں ہوسٹل و رہائشی عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں، جن کے لیے اس ریسٹورنٹ میں کھانے پینے کا انتظام ہے۔ غرض کہ ایجوکیشن سٹی میں نہ صرف طالب علموں اور عام لوگوں کی دل چسپی و مطالعہ کے لیے بہترین ماحول اور سہولت میسر ہے بلکہ دس بارہ سالہ بچوں کے لیے ایک علیحدہ لائبریری کارنر بنا ہوا ہے جہاں ان کی دل چسپی کے لیے کتب کے علاوہ گیمز و کھلونے بھی میسر ہیں۔
اس مرتبہ قطر میں مشرب میوزیم بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ میوزیم چار حصوں پر مشتمل ہے جو مشرب کے طویل و عریض پراجیکٹ میں تعمیر کیا گیا ہے، چاروں طرف گھری راہ داری میں ہوٹل، شاپنگ مال، مختلف عمارات زیر تعمیر ہیں اور داخلی راستے کے ساتھ میوزیم کی عمارات تعمیر کی گئی ہیں، چاروں میوزیم کے ہر ہال میں جدید مشنری کے تحت دیوار گیر اسکرین بنی ہوئی ہیں جہاں ہال میں رکھی قدیم اشیا کے بارے میں ویڈیو چل رہی تھیں۔ میوزیم کے ایک حصے میں قطر کی ترقی کے مختلف ادوار کی جھلک پیش کی گئی ہے کہ کس طرح قطر کی ان ماہی گیروں کی اللہ رب العزت نے کایا پلٹی۔ میوزیم کے ایک حصے میں قطریوں کے رہن سہن کو بڑے خوب صورت انداز میں ماڈلز اور اشیا کی مدد سے اُجاگر کیا گیا ہے۔ تیسرے حصے میں قطر کے بانی جسیم صاحب کے استعمال کی اشیا و تصاویر آویزاں تھیں جبکہ چوتھے حصے میں مزدوروں اور محنت کشوں کے زیر استعمال اوزار اور اشیاء کو تصاویر و ماڈلز کے ذریعے عیاں کیا گیا ہے، چاروں میوزیم کو دیکھنے کے لیے ایک دن بہت کم ہے۔ لہٰذا ہم نے دو دن اس کے لیے مختص کیے۔
ان مذکورہ بالا تمام جگہوں کی سیر کرتے ہوئے ایک چیز جو سب سے زیادہ قابل تعریف ہے وہ یہ کہ تمام تفریحی سہولتیں بلا معاوضہ عوام کو مہیا کی گئی ہیں۔ قانون کی سختی کی وجہ سے ہر جگہ امن وامان کی صورت حال ہے‘ تمام ادارے خلوصِ دل اور ایمانداری سے کام انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہر خاص و عام کو سہولیات و تحفظ حاصل ہیں۔ میں جب بھی دیارِ غیر میں ہوتی ہوں وطن عزیز کے لیے دل سے دُعا نکلتی ہے کہ میرے اس پاک وطن کا گوشہ گوشہ خوش حال و پرامن ہوجائے اور اس کے لیے صرف حکومتی ادارے ہی نہیں بلکہ ہم سب کو تندہی، خلوص اور ایمانداری سے قدم اُٹھانا ہوگا۔
دیارِ غیر سے واپس آکر اپنی سرزمین پر قدم رکھا تو رب کا شکر ادا کیا‘ چاہے کیسا بھی ہے یہ وطن ہمارا ہے، دل و جان سے ہم سب کو اس سے پیار ہے، خدا میری اس عرض وطن کو شاد و آباد رکھے۔ (آمین)

حصہ