موت سے کچھ دن پہلے (احسن سلیم کی یاد میں)۔

417

فیض عالم بابر
احسن صاحب حرف سازوں(composers)سے تنگ تھے۔کبھی حرف ساز غائب ہوجاتے تو کبھی وقت پر نہیں آتے ،اور آتے تو برقی لکھت(typing) میں اتنی غلطیاں کرتے کہ اغلاط شناس(proofreader)سمیت بابا کا قائخانی لہو جوش مارنے لگتا ،مگر یہ جوش جوش ہی رہتا کنارے سے ٹکرا کرحد پار کرنے کے بجائے ٹھنڈا پڑجاتا۔ایک دو حرف ساز وہ بھی تھے جو دیارِ غیر سے اجرا کی مد میں آنے والی رقم پر ہاتھ صاف کرلیتے۔بابا کے علم میں سب ہوتا مگر وہ نظر انداز کردیتے ۔اسی طرح ہمارے کچھ شاعر ،ادیب دوست اقربا پروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجرا میں اپنے دوستوں کا غیر معیاری کلام چالاکی سے شامل کردیتے اور اپنے شناسائوں پر یہ بھی ظاہر کرتے کہ اجرا کے کرتا دھرتا تو ہم ہی ہیں، احسن سلیم کو تو بطورِ تبرک ساتھ رکھا ہوا ہے۔اس طرح کی تمام حرکات کا احسن سلیم کو علم ہوتا تھا مگر اس معاملے میں بھی وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز کردیتے تھے۔مردم شناس ایسے تھے کہ ایک بار کوئی ملے تو دیکھ کر ہی بتادیتے تھے بندہ کس پائے کا ہے۔اگر بندہ ان کی نظر میں بیکار ہوتو کہتے ’’ اس بندے کا کوئی ویژن نہیں ہے‘‘۔ کلفٹن میں شاہین نیازی کی جانب سے مستعار دیے گئے اجرا کے عالی شان دفتر میں رحم دلی اور انسان دوستی کے جذبے سے مغلوب ہوکر شوبز سے وابستہ ایک شخص کو بیٹھنے کی اجازت دی تو وہ شخص بھی کچھ دن بعد گل کھلانے لگے ۔اپنے حلقہ احباب میں دفتر کو اپنی ملکیت بتانے لگے۔دفتر میں کچھ دنوں بعدمصنوعی زمینی پریاں آنے لگیں تو بابا کے کان کھڑے ہوئے اور پھر انتہائی مہذب طریقے سے اُن صاحب سمیت خود کو خارجِ دفتر کرلیا۔
احسن سلیم ادب پرور و ادب شناس اور اجرا کے مالی معاون شاہین نیازی سے خصوصی لگائو رکھتے تھے اور تقریباً ہر ملاقات میں ان کی خوبیوں کو اجاگر کرتے۔بابا کی باتیں سن کر شاہین نیازی سے ملاقات کا اشتیاق بڑھ گیا اور جب ان سے ملا تو بابا کی باتوں پر ایمان لے آیا۔شاہین نیازی کی ادب شناسی ،مصنوعی نہیں خالص عاجزی اور انکے قدرے دھیمے مگر میٹھے لہجے نے دل میں گھر کرلیا۔شاہین نیازی اردو کے علاوہ فارسی اور انگریزی ادب کے بھی بہت اچھے شناور ہیں۔ایک بار بابا جی کہنے لگے ’’ یار یہ نیازی صاحب بھی عجیب آدمی ہے آج فون کرکے مجھے بلایا ۔راستے میں کھانا کھلایا اور ایک شاپنگ سینٹر لے گئے جہاں جوتوں،سوٹ سمیت تمام اشیاء دو دو خریدیں اور واپسی میں مجھے گاڑی سے ڈراپ کرتے وقت تمام اشیاء میں سے ایک ایک میرے حوالے کردیں کہ یہ آپ کے لیے ہیں‘‘۔
ایک بار آئے تو ہاتھ پر پٹّی بندھی ہوئی تھی۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ راستے میں موٹر سائیکل سوار دو ڈاکوئوں نے لوٹنے کے لیے روکا ۔بابا نے دو نوں بازو پھیلا کر ڈاکوئوں کو دبوچنے کے لیے ان پر چھلانگ لگادی ۔نتیجتاً تینوں نیچے گرے اور بابا کا ہاتھ موٹر سائیکل کے گرم سلینسر سے مس ہوکر جھلس گیا۔ڈاکوئوں نے رفوچکر ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ احسن بابا ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے جس کی جھلکیاں ان کے کلام میں بھی نظر آتی ہیں۔ایک بار اجرا میں اشاعت کے لیے جدید غزل کے سب سے بڑے عمر رسیدہ شاعر نے حمد روانہ کی تو اس میں دو ،تین اشعار میں خدا سے چھیڑ چھاڑ اور گستاخی کی گئی۔ بابا نے مجھے دکھایا کہ دیکھو یار کیا لکھ دیا ہے اس نے ،یہ اشعار تو قابلِ اشاعت نہیں ہیں۔میں نے شرارتاً کہا کہ آپ اصلاح کرکے شائع کردیں اور شاعر کو فون کرکے سنا بھی دیں ۔بابا نے ایک خط شاعر کے نام لکھا جس میں ان سے یہ بھی کہا کہ آپ خدا سے معافی مانگیں ۔بعد ازاں بابا نے بتایا کہ شاعر ناراض ہوگیا اور تعلق ختم کرلیا ہے۔
کچھ دوستوں کے ساتھ لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری کے لیے گئے۔رات گئے وہاں پہنچے ۔وہاں کوئی خاص تقریب چل رہی تھی۔بابا اور ان کے دوستوں کو اندر جانے نہیں دیا گیا ۔صبح فجر کی نماز کے بعد مزار کا منتظم دوڑا دوڑا آیا اور سب کی صورت شناسی کرتے ہوئے بابا پر نظر پڑی تو فرطِ عقیدت سے ان کے گلے لگ گیا اور بابا سے کہا چلیں آپ کے لیے ہی حکم ہے کہ آپ دستار پیش کریں۔بابا اور ان کے دوستوں کی رسمِ دستار کے بعد خوب ضیافت کی گئی۔احسن بابا کو زندگی کی آخری ساعتوں میں دوستوں کی ناقدری اور بے حسی کا غم اپنی بیماری سے بھی زیادہ تھا۔کہنے لگے’’ جب متحرک تھا تو روز فون کرتے ،ملنے آتے ، ہر روز تقاریب میں بطور صدر، مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دیتے آج بستر پر ہوں تو کسی نے پوچھا بھی نہیں‘‘۔اپنے ایک قریبی شاعر دوست کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے ’’ اس کو دیکھو ڈاکٹر اقبال پیرزادہ(معالج) کو فون کرکے پوچھ رہا ہے کہ میں احسن سلیم کی عیادت کے لیے آئوں تو کہیں مجھے تو وہ بیماری(ٹی بی) نہیں لگ جائے گی‘‘۔ قیصر وجدی کا شعر یاد آگیا کہ

کیا کہوں کیسے سہارے،دائیں بائیں ہوگئے
مشکلوں میں یار سارے،دائیں بائیں ہوگئے

احسن بابا جب بیمار ہوئے اوراسپتال میں داخل تھے تو میں مصروفیت،کاہلی اور یہ سوچ کر ان کی عیادت کو نہیںگیا کہ سخت جان آدمی ہیں دو چار دن میں ٹھیک ہوجائیں گے۔وجہ یہ تھی کہ کئی بار بابا جب ملنے آئے تو بخار میں تپ رہے ہوتے تھے ۔میرے اصرار پر کہ گھر جاکر آرام کریں توبس اتنا کہہ دیتے تھے’’ گولی کھا لی ہے ابھی ٹھیک ہوجائوں گا‘‘۔
موت سے کچھ دن پہلے احسن بابا جب اسپتال سے گھر منتقل ہوئے تومیرے ایک دوست کو فون کیا کہ بڑے افسوس کی بات ہے میں اتنے دن سے بیمار ہوں مگر تم اور فیضِ عالم عیادت تک کرنے نہیںآئے۔جب مجھے اس بات کا علم ہوا توبابا کی ناراضی کے پیش نظر فوراً ان کے گھر کو جانے کا سوچا۔اس روز بابا کے گھر سے قریب سلیم شہزاد نے پایا مشاعرہ رکھا ہوا تھا۔ویسے تو میں تیس ، چالیس شعرا کا کلام سُن کر اپنی ایک غزل پیش کرنے کو گھاٹے کا سودا سمجھتا ہوں اس لیے مشاعروں میں جانے سے گریز کرتا ہوں ۔ مشاعرے کے ساتھ پائے کے انتظام پر یہ سودا گھاٹے کا نہیں لگا اور ایک دوست کو لیکر چل پڑا۔ مشاعرہ پڑھا ، پائے کھائے جو بہت لذیز تھے۔احسن بابا کی عیادت کے لیے ان کے گھر گیا تو چھت پر لیٹے ہوئے تھے۔وہاں گیا تو مجھے دیکھ کر اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر کمزوری کے باعث اُٹھ نہیں پائے ۔بابا کی حالت دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا لگا اور اندر سے ’’ختم شد‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔بابا نے لیٹے لیٹے ہی میرا ہاتھ تھام لیا ،کچھ شکوے کیے۔میں نے حوصلہ دیا وہی جو مریض کو دیا جاتا ہے۔کتنا مشکل ہوتا ہے کسی مریض کو دلاسا دینا ،کھوکھلے اور جھوٹے لفظوں سے۔بابا جی ایک مہینے میں ٹھیک ہوجائو گے فکر مت کرو،کچھ بھی نہیں ہوا آپ کو ،بس کمزور بہت ہوگئے ہیں۔ بابا جی میرے الفاظ سن کر خوش ہوگئے اور بولے درویش نے بول دیا تو بس میں اب ٹھیک ہوجائوں گا۔ بابا کے الفاظ سن کر ایک گہری اداسی میرے اندر سرائیت کرگئی ۔منیر نیازی کی نظم یاد آنے لگی کہ

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔

جب تک وہاں موجود رہا با بانے میرا ہاتھ تھامے رکھا۔ کہنے لگے بس اب اگلے مہینے دوبار ہ نشست کریں گے،اجرا کا کام بھی رکا ہوا ہے اسے بھی پورا کرنا ہے۔جتنی دیر بیٹھا بابا بس ادب ہی کی باتیں کرتے رہے ۔ بابا کی باتیں سن کر میں سوچنے لگا کیسا سچا عاشق ہے ادب کا کہ بسترِ مرگ پر بھی ادب اور ادب کے فروغ کی باتیں کررہا ہے۔کچھ دیر ملاقات کے بعد نیچے آیا دل بہت بوجھل تھا ۔ اپنے اندر سے اُٹھنے والی آواز اور بابا کی حالت دیکھ کر۔۔ اور کچھ دن بعد وہ خبر آہی گئی ۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔
احسن سلیم کی کلیات سے چند اشعار۔

اک اشک اکیلا دلِ معتوب سے نکلا
پھر ایک زمانہ مرے اسلوب سے نکلا
جنت کھڑی ہے سرحدِ ادراک کے قریب
لیکن غریبِ شہر کو اک نان چاہیے
دل کے شعلے میں ترا دیدار ہونا چاہیے
اس دعا کو آسماں کیک پار ہونا چاہیے
میرے لہجے میں بات کرتا ہے
یہ بھی دشمن کی چال ہے کوئی
میں خاک سے نکلا ہوں محبت کے سفر پر
سو اپنے بدن میں کہیں موجود نہیں ہوں
دل یہ چاہے کہ عداوت اُس کی
شام ہوتے ہی ہوا ہوجائے
خواب میں بھی خیال رہتا ہے
اپنے گھر میں دِیا نہیں کوئی
ایسا نہیں کہ شعر میں خالی شعور ہے
زخمی سا اک خیال بھی بین السطور ہے
آنکھوں میں اگر خواب نہ ہوتے
دنیا میں کبھی رات نہ ہوتی
احسن سلیم حسن کو کثرت میں دیکھ کر
میں اپنے ہر خیال کو وحدت میں لے گیا

احسن سلیم
ایسی بھی کیا تھی عجلت،احسن سلیم صاحب،ہوتے نہ ہم سے رخصت،احسن سلیم صاحب
حسنِ سلوک احسن،حسنِ عمل مثالی ،تم تھے امامِ جدّت،احسن سلیم صاحب
سب جانتے تھے انکو،سب مانتے تھے انکو،علم وہنر کی دولت احسن سلیم صاحب
نقدیِ عمر اپنی،لفظوں پہ صرف کردی،کتنے تھے نیک نیت،احسن سلیم صاحب
سب کو نوازتے تھے،اجرا میں چھاپتے تھے،تم تھے ادب کی وحدت احسن سلیم صاحب
لقمان بھی ادب کا،ہو جان بھی ادب کا،سب کی کہاں یہ قسمت احسن سلیم صاحب
یک دل تھے ،یک زباں تھے،سب محفلوں کی جاں تھے،خوش رنگ،خوش طبیعت احسن سلیم صاحب
میں کیا جواب دوں گا ،کب آرہے ہیں ملنے؟،پوچھے جو میری فرصت ،احسن سلیم صاحب
(ہر شعر کا پہلا حرف باہم جوڑنے سے نام احسن سلیم بنتا ہے)

حصہ