موجودہ حکومت جمہوریت اور آمریت کا ”آملیٹ“ مگر خطرہ کس کے لیے ؟

338

محمد انور
سردی میں اضافے کے ساتھ ملک کی سیاست میں گرما گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ اپوزیشن جس قدر وسیع ہے اسی قدر اس کا غصہ بڑھنا فطری امر ہے۔ لیکن یہ بھی تو درست ہے کہ حکومت جس قدر مستحکم ہوتی ہے یا اپنے آپ کو سمجھتی ہے اسی کے مطابق اپنا جاہ و جلال بھی دکھایا کرتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اس لیے زیادہ طاقتور لگتی ہے کہ اسے پاور فل اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ان اداروں اور حکومت کے درمیان مثالی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ اس طرح یہ ملک کی پہلی حکومت ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ مصالحت اور مفاہمت کے بادشاہ مانے جانے والے آصف زرداری اب مخاصمت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
آصف زرداری اور نوازشریف کی جماعتوں اور ان کی حمایتی جماعتوں کی کمزوری یہ ہے کہ ان کے خلاف ملکی خزانے اور اداروں کو نقصان پہنچانے کے بے تحاشا الزامات ہیں۔ تمام الزامات ایسے ہیں جنہیں عام لوگ تو کجا، ان کے اپنے خاص لوگ بھی درست مانتے ہیں۔ ان الزامات کا دفاع کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے قومی اسمبلی میں اپنی مخصوص مسکراہٹ اور لب و لہجے کے ساتھ براہِ راست نیب کو نشانہ بنا ڈالا۔
ایسا لگتا ہے کہ آصف زرداری اور نیب کا تعلق ”آگ اور پانی“ کا سا ہے۔ نیب پہلی بار جب 1997ء میں قائم ہوا اور اس کے سربراہ وزیراعظم کے خاص دوست سیف الرحمان بنے تو آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو اس کی گرفت میں آئے، حالانکہ آصف زرداری کو سیاست میں قدم رکھے دس سال ہی گزرے تھے۔ بعدازاں سابق صدر پرویزمشرف کے تشکیل و ترمیم کردہ موجودہ نیب نے شریف برادران کو بھی اپنے سخت دائرے میں جکڑا، مگر آصف زرداری پھر بھی اس کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کا کرپشن کے الزامات کے تحت جس نیب نے محاسبہ کیا وہ چونکہ نوازشریف کے دوسرے دور 1997ء -1999ء کا تخلیق کردہ تھا،اس لیے اس پر انتقامی کارروائی کا الزام بآسانی لگ گیا تھا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے اول مخالف قرار پائے۔ مگر پرویزمشرف کے 1999ء میں اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف کی گئی کارروائی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہوئی، جس کے نتیجے میں پہلی بار 2007ء میں قومی مصالحتی آرڈیننس سامنے لایا گیا۔ یہ آرڈیننس ملکی تاریخ کا ایک سیاہ قانون تھا جس کے تحت مختلف مقدمات میں ملوث 8 ہزار سیاسی اور غیر سیاسی مگر بااثر افراد کو فائدہ پہنچایا گیا، لیکن خوش قسمتی سے اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا، جس کی وجہ سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی قریب آنے کے باوجود ایک دوسرے کی مخالف صرف اس لیے رہیں کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے اپنے اپنے مفادات تھے۔ دونوں جماعتوں نے 2008ء سے 2018ء تک جمہوریت کے نام پر ملک کو جس طرح نقصان پہنچایا وہ سب کے سامنے آشکار ہوچکا ہے۔
عام خیال یہ ہے کہ اگر قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کے نام پر سیاست دانوں سمیت جرائم پیشہ افراد کو چھوٹ نہ دی جاتی تو 2008ء تا 2018ء کسی کو بھی کرپشن کا موقع نہ ملتا اور نئے پاکستان کی شروعات ہوچکی ہوتی۔ خیر بہتری اب بھی ممکن ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آنے کے بعد سے شروع ہوچکی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کل کے حریف آصف زرداری اینڈ کمپنی اور شریف برادران آج کے حلیف بن کر حکومت کے مشترکہ مخالف بن چکے ہیں، جس کا مقصد سیاسی نہیں بلکہ ذاتی ہے۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کا کسی طرح بھی کرپشن کے الزامات سے کلیئر ہونا ان کا بنیادی مقصد ہے۔
ماضی میں نیب کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے آصف علی زرداری ملکی سیاست کو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے دفاع کے لیے کس طرح استعمال کرتے ہیں اس کا مظاہرہ انہوں نے قومی اسمبلی میں پیر 14 جنوری کو کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”نیب کے چیئرمین کو قومی اسمبلی میں طلب کیا جائے“۔ اراکین اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ نیب کے پاس آپ لوگ کیوں جائیں گے؟ نیب کے چیئرمین کو پارلیمنٹ میں پیش ہونا چاہیے۔ حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے اپنا نہیں آپ کا غم ہے کہ آپ کو بلایا جائے گا تو پھر کیا ہوگا۔ آصف زرداری نے خطاب کے دوران کہا کہ میرا مشورہ ہے کہ نیب کو تھوڑا ٹائٹ کریں تاکہ بیوروکریسی اور ملک چل سکے۔
آصف زرداری نے تو خوش اسلوبی سے اپنا کیس جمہوری ایوان میں لڑنے کی کوشش کی۔ لیکن شاید وہ بھول گئے تھے کہ موجودہ جمہوری حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بہت قریب سے جمہوریت اور آمریت کو دیکھا ہے، بلکہ دونوں سے بہت کچھ سیکھ کر اب بیک وقت ایسی حکومت کے وزیر ہیں جسے ڈیموکریسی اور ڈکٹیٹرشپ کا ”آملیٹ“ کہا جاسکتا ہے۔ آملیٹ میں اہم کردار انڈے کا ہوتا ہے، اور وہ پیاز اور ہری مرچ میں مکس ہوکر بھی نمایاں رہتا ہے۔
آصف زرداری اپنے الزامات کے دفاع کے طور پر نیب کو متنازع بنانے کی کوشش کر گئے، اس لیے کہ نیب ان الزامات کی تحقیقات کررہا ہے۔ اگر نیب کی جگہ کوئی دوسرا ادارہ ہوتا تو وہ اُس کے لیے بھی ایسا ہی کچھ کرتے اور کرپشن میں ملوث ہر شخص اُن کی حمایت کرتا۔ آصف زرداری نے اپنا کیس عوامی ایوان میں اس لیے لڑا کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ قانون کے میدان میں اُن کے مقدمات منطقی انجام تک پہنچنے والے ہیں۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہر سطح پر جن لوگوں کا راج ہے وہ کرپٹ اور کرمنل ہیں۔ ایسے لوگ اپنے تحفظ کے لیے جمہوریت اور جمہور کی آڑ لیا کرتے ہیں۔
آصف زرداری نے جس قدر بے باکی سے اسمبلی کے فلور پر اپنا موقف پیش کیا تھا اُس سے کہیں زیادہ اعتماد سے فواد چودھری نے یہ کہا کہ ”زرداری صاحب کی جو بادشاہت چل رہی تھی وہ اب ختم ہوچکی ہے“۔ یہی نہیں بلکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے منگل کو سندھ کے دارالحکومت کراچی پہنچ کر کھلے الفاظ میں کہا کہ نیب کو جعلی اکاؤنٹس کیس کے اہم کرداروں آصف زرداری، فریال تالپور اور مراد علی شاہ کو فوری طور پر گرفتار کرکے تفتیش کو آگے بڑھانا چاہیے۔ فوادچودھری کے اس بیان سے واضح تھا کہ اُن کی کراچی آمد مصالحت و مفاہمت سے پاک تھی۔ اُن کے اس بیان سے ایسا لگا کہ انہوں نے پیر کو قومی اسمبلی میں کیے جانے والے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے خطاب کا جواب دے ڈالا۔
فواد چودھری نے صرف ان ہی جملوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ سندھ میں اومنی گروپ کی بادشاہت چل رہی تھی، اس گروپ سے یہ بادشاہت لے کر عوام کو واپس دی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے خیال میں نیب کی تفتیش سست روی کا شکار ہے۔
فواد چودھری کھلم کھلا بولنے کے عادی ہیں۔ ان کے جملے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے لیے” سنگ باری“ سے کم نہیں کہلاتے۔ اس لیے اُن کے اپنے ساتھی بھی انہیں ”ہاتھ ہولا“ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی کراچی آمد کی خبروں کی بازگشت پیپلزپارٹی کی صفوں میں چند روز پہلے سے ہی جاری تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اتوار کو سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ ”فساد کے لیے سندھ کا رخ کرنے والوں سے نمٹ لیں گے، شرپسندوں سے نمٹا ہے، چھوٹے موٹے فسادی کچھ نہیں کرسکتے“۔ یقین کی حد تک شبہ ہے کہ مراد علی شاہ، وفاقی وزیر فواد چودھری ہی کو ”فسادی“ سے موسوم کررہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ”میرے کراچی آنے پر اپوزیشن پریشان ہوجاتی ہے، کراچی میرا شہر ہے ہزار بار آؤں گا“۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں میں فواد چودھری کی صاف گوئی کے حوالے سے جس طرح کی چہ میگوئیاں منگل سے کی جاتی رہیں اس سے یہ تاثر بھی واضح تھا کہ پیپلز پارٹی کے اپنے لوگ ان کی تمام ہی باتوں سے متفق ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ سندھ میں کہیں بھی ترقی نظر نہیں آتی، سندھ میں ترقیاتی بجٹ کے تحت 2 ہزار ارب روپے خرچ کیے گئے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آیا کہ 32 جعلی اکاؤنٹس میں پیسے ڈالے گئے جن سے بلاول ہاؤس کے مکین مستفید ہورہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ فواد چودھری اپنے دورے کے دوران ایسا کیا کچھ کریں گے جس سے صوبے کی حکومتی اور ملک کی دوسری بڑی حزب اختلاف کی جماعت بے سکون تھی اور ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا کہ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سمیت تمام اتحادی ہمارے ساتھ ہیں اور حکومت سے نکلنے کا نہیں سوچ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں رہتے ہوئے کوئی نکلنا نہیں چاہتا۔ یہ بات ماضی کے سیاسی حالات کی روشنی میں سچ بھی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فواد چودھری پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کی شروعات کردیں گے؟ اگر وہ اس مشن میں کامیاب ہوگئے تو نیب کے مقدمات میں سندھ کی اہم شخصیات کی گرفتاری سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت یہاں سے ختم ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں صوبے کی ”بادشاہت“ کم ازکم آصف زرداری اور ان کے بزنس پارٹنرز کے پاس رہنا ناممکن ہے۔

حصہ