زاہد عباس
”ارے نذیر بھائی، یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے! کیا مزدوری وغیرہ کرنے لگے ہو؟ تم تو سرکاری ملازم تھے، ہمیشہ سوٹ بوٹ میں رہا کرتے تھے،ایسا کیا ہوگیا جس نے تمہاری یہ حالت کردی؟“
”کچھ نہیں ہوا، اور سرکاری ملازم تو میں اب بھی ہوں اور ویسے ہی سوٹ بوٹ میں بھی رہتا ہوں۔“
”لیکن تمہیں دیکھ کر ایسا تو نہیں لگتا کہ تم آج بھی پہلے والے ہی نذیر بھائی ہو!“
”تم ان میلے کپڑوں کو دیکھ کر یہ بات کررہے ہو؟“
”اور نہیں تو کیا، تمہارا حلیہ بتا رہا ہے کہ تم کسی ایسی فیکٹری یا ورکشاپ میں ملازمت اختیار کرچکے ہو جہاں دھول اُڑنے کے سوا کچھ نہ ہو۔“
”اگر فیکٹری میں دھول اُڑتی ہے تو وہاں کام کیسا!“
”میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کرش پلانٹ پر نوکری کرلی ہے کیا؟“
”ارے نہیں بھائی، میرا یہ حلیہ تو مکان شفٹ کرنے کی وجہ سے ہو گیا ہے۔“
”مکان کی شفٹنگ کیا مطلب؟ ابھی پچھلے مہینے ہی تو تم نے یہ مکان لیا تھا!“
”ارے میاں، کرایہ داروں کی نہ پوچھو، جب بھی مالک مکان کے جی میں آئے، کان سے پکڑ کر نکال باہر کرتے ہیں۔“
”نہیں نہیں نذیر بھائی، ایسی بات نہیں ہے۔ رفیق تو گزشتہ تیس برس سے ایک ہی مکان میں رہ رہا ہے، اُس کےمالک مکان نے تو آج تک نہیں نکالا، بلکہ آدھا محلہ تو رفیق کو ہی اس گھر کا مالک سمجھتا ہے۔ تمہارے ساتھ ہی آخر ایسا کیوں ہوتا ہے!“
”میاں، ڈھول دور کے ہی سہانے لگتے ہیں۔ رفیق جس گھر میں رہتا ہے اُس کے ورثا پاکستان میں نہیں رہتے، اسی لیے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر وہ یہاں رہ رہے ہوتےتو رفیق کو بھی ضرور دن میں تارے دکھائی دیتے اور وہ بھی میری طرح کبھی اِس در تو کبھی اُس در بھٹکتا پھرتا۔“
”رہنے دیں نذیر بھائی، اب ایسا بھی نہیں ہے ۔ اگر رفیق کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تو راشد احمد کے بارے میں کیا خیال ہے جو مالک مکان کی موجودگی میں گھر کی بالائی منزل پر رہتا ہے!“
”تمہارا کیا خیال ہے تمام غلطیاں میری جانب سے ہوتی ہیں جس کی وجہ سے مجھے آئے دن در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں؟ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ یوں بھٹکتا رہے۔ دو چار گھرانوں کی مثالوں کے ذریعے مکان مالکان کے رویوں کا احاطہ کرنا معصومیت کے سوا کچھ نہیں۔ قبر کا حال مُردہ ہی جانتا ہے۔ بھائی جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ تمہارا اپنا مکان ہے اسی لیے کرایہ داروں کے مسائل سے واقف نہیں ہو، کسی کے گھر کرائے پر رہنا غلامی کرنے سے کم نہیں۔“
”یہ غلامی کہاں سے آگئی! بات سیدھی سی ہے، مکان کرائے پر لینے والا شخص کرایہ داری اصول کے مطابق باقاعدہ ماہانہ کرایہ ادا کرتا ہے اور اپنی مرضی سے پُرسکون زندگی بسر کرتا ہے۔“
”عملی طور پر کرائے پر رہنے والوں کی زندگیاں تمہاری جانب سے ادا کیے جانے والے جملوں کے برعکس ہوا کرتی ہیں۔ کرایہ دار اس معاشرے میں تیسرے درجے کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہیں۔ مالک مکان کا رویہ تو ایک طرف، محلے کے لوگ بھی اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا سوشل سرگرمیاں، ہر جگہ اسے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ شاید ہمارے معاشرے میں عارضی طور پر رہائش اختیار کرنے والوں کے مقابلے میں مستقل رہائش پذیر یعنی ذاتی جائداد رکھنے والے افراد کو ہی اہلِ زمین اور اپنا حلقہ احباب تصور کیا جاتا ہے۔ جو بھی ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ جس کا اپنا ذاتی مکان نہیں اُس کی زندگی میں بڑے مسائل ہیں۔“
”نذیر بھائی یہ مسئلے تو سب کے ہی ساتھ ہیں، آپ کرایہ دار ہیں اس لیے مکانوں اور جائدادوں کی باتیں کررہے ہیں، جن کے ذاتی مکان ہیں وہ اپنی پریشانیاں سناتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی کہانی ہے۔ شاید اسی کا نام زندگی ہے۔ انسان آتا ہے، دنیا کے جھمیلوں میں وقت گزارتا ہے اور چلا جاتا ہے، لیکن کاروبارِ دنیا یونہی چلتا رہتا ہے۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے۔“
”میں نے دنیا کی زندگی سے متعلق کوئی بات کی اور نہ ہی میں اپنی ان ذمہ داریوں سے انحراف کرنے کی کوشش کررہا ہوں جو مجھ پر واجب ہیں۔ میں تو ایک سادہ سی بات سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں، اور وہ یہ کہ جس شخص کے پاس بھی ذاتی رہائش نہیں اُس کی زندگی مستقل امتحان سے ہی گزرتی رہتی ہے۔ میں کرایہ داری سسٹم سے متعلق ایسی کئی باتیں بتا سکتا ہوں جو نہ صرف تمہارے بلکہ حکمرانوں کے بھی چودہ طبق روشن کردیں۔“
”کوئی احتجاج کرتا ہے اور نہ کوئی حکومت سے شکایت۔۔۔۔ لوگ کیوں اس جبر کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں! کسی جانب سے بھی آواز بلند نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کرایہ دار طبقہ آپ کی رائے سے متفق نہیں۔“
”نہیں میاں ایسی بات نہیں، جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اُسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کے دور میں دو وقت کی روٹی کمانا انتہائی مشکل کام ہے، ایسے میں کرائے پر رہنے والے لوگ اپنے سر کی چھت چھن جانے سے ڈرتے ہیں، اس لیے ساری زندگی خاموشی سے گزار دیتے ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ کہ اس صنعت سے وابستہ افراد سے الجھنا کسی کے بس کی بات نہیں۔“
”نذیر بھائی کیا ہو گیا ہے آپ کو، یہ کون سا کاروبار ہے جو اسے صنعت کا درجہ دے رہے ہیں!“
”بھائی بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ یہ ایسا کاروبار ہے جس میں دن دونی رات چوگنی ترقی کی جارہی ہے۔ بڑے بڑے بزنس ٹائیکون اور انڈسٹری مالکان بھی اب یہی کررہے ہیں، تمام انویسٹر اسی میدان میں سرمایہ کاری کرنے میں مصروف ہیں۔ ذرا سوچو کہ ایک کارخانے دار یا فیکٹری لگانے والے شخص کو دو پیسے بچانے کے لیے کاریگروں کے مطالبات، بجلی و گیس کے بلوں، خام مال کی خریداری سے لے کر انکم ٹیکس سمیت نہ جانے کتنی پھٹیکیں بھگتنی پڑتی ہیں، پھر آئے دن کی ہڑتالیں اور ملازمین کے بونس اپنی جگہ، اس ساری دردِ سری سے بچنے کے لیے ہی بزنس کمیونٹی اس دھندے سے وابستہ ہوتی جارہی ہے۔ یہ ایسا کاروبار ہے جس میں ایک مرتبہ لگائی جانے والی رقم نہ صرف ڈبل ہوجاتی ہے بلکہ ہر ماہ باقاعدگی سے صرف منافع ہی وصول کیا جاتا ہے۔“
”واہ نذیر بھائی واہ، آپ تو خاصی معلومات رکھتے ہیں۔“
”اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، میں برسوں سے کرائے پر رہ رہا ہوں اسی لیے جانتا ہوں، ورنہ مجھے بھی کوئی دلچسپی نہ ہوتی۔ چھوٹے علاقوں میں یہ کاروبار انتہائی کامیاب اور محفوظ ترین تصور کیا جاتا ہے۔ انویسٹر 100 اور 120گز کے مکانات خریدنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، خاص طور پر کارنر مکان سونے کا انڈا دینے والی مرغی کہلاتا ہے جسے چار حصوں میں تقسیم کرکے ماہانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ کی وصولی کی جاتی ہے۔ یوں کم سے کم لاگت میں تیار کردہ مکانات زیادہ دودھ دینے والی گائے کا روپ دھار لیتے ہیں۔ پوش علاقوں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے، جہاں ایک مکان کا ایک حصہ ماہانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ تک کی آمدن کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس طرح اس صنعت سے وابستہ افراد درجنوں مکانات کرائے پر دے کر گھر بیٹھے بنا مشقت کیے لاکھوں روپے ماہانہ کمارہےہیں۔“
”نذیر بھائی آپ برسوں سے کرائے پر رہ رہے ہیں، کوئی چھوٹی سی جگہ لے کر دو کمرے ہی ڈال لیتے، کم از کم روز کی اٹھا پٹخ سے تو نجات مل جاتی۔“
”اوہو کیا بتاؤں تمہیں، بڑے خواب تھے میرے بھی۔ جب نوکری ملی تو سوچا ہر ماہ کچھ نہ کچھ پیسے بچا کر ایک چھوٹا سا گھر بناؤں گا۔ لیکن گھر والوں نے شادی کردی۔ پھر سوچا ماہانہ کمیٹی ڈال کر اپنے بچوں کے لیے ایک خوبصورت سا مکان بناؤں گا، ایسا گھر جس کے باہر ایک چھوٹا سا لان ہوگا، میرے بچے اس لان میں کھیلا کریں گے، جب شام کو دفتر سے لوٹا کروں گا تو کیاریوں میں لگے پھولوں کے درمیان کھیلتے بچوں کو دیکھ کر دن بھر کی ساری تھکن دور ہوجایا کرے گی۔ میرے گھر کی بالائی منزل پر لگی تختی پر لکھا ”راحت کدہ“ میرے خوابوں کی تعبیر ہوگا۔ لیکن خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ ہر ماہ گھر کے اخراجات اور کرائے کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کے بعد کچھ نہ بچتا، آنکھ جھپکتے مہینہ گزر جاتا اور مالک مکان کرائے کی وصولی کے لیے دروازے پر کھڑا ہوتا۔ جو پیسے بچا کر مجھے کمیٹی ڈالنی تھی وہ کرائے کی مد میں جانے لگے۔ شروع شروع میں مکانات سستے ہوا کرتے تھے، سوچا گھر کے اخراجات میں کچھ کمی کرکے کچھ بچا لیا کروں، لیکن ہر مرتبہ مکان بدلنے پر بھاری رقم ایڈوانس کی صورت ادا کرنا پڑتی اور کرایہ بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہوتا۔ یوں ہر آنے والے دن کے ساتھ مالی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ اسی دائرے میں گھومتے گھومتے کب عمر ڈھل گئی خبر تک نہ ہوئی، جو پیسے بچا کر مکان خریدنا تھا وہ لاکھوں روپے کرائے کی مد میں چلے گئے۔ ظاہر ہے جب گزشتہ تیس سے پینتیس برسوں میں کرائے کی مد میں ادائیگی کی جاچکی ہو تو گھر تو ایک طرف سر چھپانے کے لیے جھگی کا تصور کرنا بھی دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔ جتنی عمر گزارنی تھی گزار لی، نوکری سے ریٹائر ہونے والا ہوں، ریٹائرمنٹ پر جو تھوڑی بہت رقم ملے گی اس سے بچی کی شادی کروں گا۔ بچوں کی تعلیم و ترتیب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کی قسمت میں اپنا گھر ہوگا تو بنالیں گے، ورنہ میری طرح ہی دربدر ہوتے رہیں گے۔ سوچتا ہوں ساری زندگی مکان تو نہ بنا سکا لیکن اتنے پیسے رکھ چھوڑوں جو میری تدفین میں کام آسکیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ورثا کو یہ رقم بھی ماہانہ کرائے کی صورت ہی ادا کرنی پڑے۔“
بڑھتی آبادی اور کم وسائل کے باعث آج کے دور میں مکان بنانا انتہائی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سرکار بے گھر افراد کی رہائش کے لیے آبادیاں بسایا کرتی تھی۔ یہ سلسلہ 1960ء کی دہائی تک جاری رہا، اس کے بعد سے آنے والی کسی حکومت نے بھی اس اہم مسئلے پر کوئی توجہ نہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں بسنے والوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ذاتی گھر سے محروم ہے۔ اب جبکہ موجودہ حکومت 50لاکھ گھر بنانے کی نوید سنا رہی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے کیے گئے وعدے پر عمل کرتے ہوئے جلد سے جلد اس منصوبے کا افتتاح کرکے اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے، تاکہ پریشان حال بے گھر خاندانوں کو مکان مالکان کے چنگل سے رہائی مل سکے اور وہ کرائے کی مد میں ادا کی جانے والی رقم کو بچاکر خوش حالی کی زندگی بسر کرسکیں۔