برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

392

قسط نمبر:172
(تیسواں اور آخری حصہ)
حمود الرحمن کمیشن نے نہایت تفصیل کے ساتھ مقامی بنگالیوں پر پاکستانی فوج کی جانب سے ہونے والے جائزہ لیا اور بے شمار گواہوں کے بیانات کے بعد رپورٹ ممن لکھا کہ ” پاک فوج کے بیشتر جوان اور افسران مقامی آبادی سے انتہائی درشت روی سے پیش آتے تھے۔ یہ معاملہ عام بنگالی کے ساتھ تو تھا ہی مگر اعلی افسران جو بنگالی تھے، وہ اور ان کے گھرانے بھی اسی رویے کا شکار تھے۔ ایک گواہ برگیڈیر اقبال الرحمن نے بتایا کہ جنرل گل حسن ہم سے کہا کرتے تھے کہ” آج تم نے کتنے بنگالیوں کو ما را؟ ” میجر جنرل راؤ فرمان علی نے اپنے ایک انٹرویو میں جو 1990 میں مغربی پاکستان سے نکلنے والے ایک ماہنامے میں شائع ہوا یہی بات اس طرح کہی کہ ”مغر بی پاکستان میں بھی بنگالیوں کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کی ماسی نے کہا کہ ” بنگالیوں کو چن چن کر ہلاک کردو۔”
کمیشن نے دیگر فوجیوں کے ساتھ ساتھ جنرل نیازی پر تحقیقات کے بعد جو چارج شیٹ لگائی اس کے مطابق ” جنرل نیازی پیشہ ورانہ ناا ہلی کا مرتکب ہوا ہے کہ اس نے ہندوستان کے ساتھ کھلی جنگ کے امکان کو نظر انداز کیا۔ اور اس نے جنگ کے بجائے اس بات پر توجہ مرکوز رکھی کہ محدود آپریشن کے ذریعے باغیوں سے نمٹا جائے۔ نیازی کی حکمت عملی بھی ایسی ہی تھی کہ وہ اپنے فوجیوں کو بند قلعوں میںرکھ کر لڑانا چاہتا تھا۔ جبکہ کھلی جنگ کے تقاضے کچھ اور تھے۔ نیازی میں بحران سے نبرد آزما ہونے کیلیے درکار قائدانہ صلاحیت کا بھی شدید فقدان تھا۔ جس کی وجہ سے وہ کوئی مربوط منصوبہ بندی تشکیل دینے میں ناکام رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے جنرل ہیڈ کوار ٹر کو بھی حوصلہ شکن رپورٹس بھیجیں۔ کمیشن نے فرد جرم لگاتے ہوئے کہا کہ سقوط کے وقت ہندوستانی فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کے معاملات بھی مناسب طریقے سے نہیں طے کئے گئے۔ اور بزدلانہ طریقے سے ہتھیار ڈالکر اپنے آپ کو عافیت میں رکھنے کی کوشش کی۔ اور اس تقریب کو عوامی بنانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اور شرمناک حرکت یہ کی کہ ہندوستانی جنرل اروڑہ سنگھ کو ہوائی اڈے پر جاکر استقبال کیا اور” گارڈ آف آنرز ” پیش کیا ان پر مزید ایک الزام یہ بھی تھا کہ اس نے دوران قید سینیر افسران پر دباؤ ڈالا کہ وہ حقائق کو چھپاتے ہوئے ہتھیار ڈالنے والے عوامل سے صرف نظر کریں۔
پڑھنے والے اس فرد جرم سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قدر ذلت آمیز انداز سے جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود جنرل نیازی نے 26000 ہزار سے زائد ریگولر فوج ہونے کے باوجود شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈالے۔
اس کمیشن نے کچھ اور افسران پر بھی فرد جرم عائد کی جن پر بزدلی سے محاذ جنگ سے بھاگنے اور پاک فوج کے کردار کو داغدار کرنے کے سنگین الزامات تھے۔ ان افسران میں جنرل ر حیم بھی شامل تھے جن پر الزام تھا کہ انہوں نے پیشہ ورانہ فرائض سے غفلت برتی اور ڈویژ ن چھوڑ کر بھگ کھڑے ہوئے جس سے پاک بحریہ کے 14 اور ان کے 4 جوان شہید ہوئے۔ بھا گتے ہوئے انھوں نے اپنے پیچھے اسلحے کے انبار بھی چھوڑے۔، اسی طرح برگیڈیر جی ایم باقر پر بھی چارج شیٹ لگائی گئی کہ وہ ایسٹرن کمانڈ کو مناسب مشورے نہ دے سکے اور دل چھوٹا کرنے والے پیغامات کے ذریعے فوج کا مورال گرانے میں مصروف رہے۔ ان پر ایک اور سنگین چارج یہ بھی لگا کہ دوران قید انھوں نے ہندوستانی فوجی افسران سے غیر ضروری مراسم استوار رکھے۔ جبکہ ایک اور برگیڈیر محمد باقر صدیقی پر سنگین الزام لگا کہ انھوں نے غریب پور محاذ پر حملہ کرتے ہوئے مناسب ریکی اور منصوبہ بندی نہیں کی جس سے فوج کو بہت بڑا جانی و ما لی نقصان اٹھانا پڑا۔ ہمارے 7 ٹینک ناکارہ ہوئے اور بہت جانی نقصان ہوا۔ یہاں تک کہ جیسور کا دفاع بھی مشکل میں پڑ گیا۔ اسی طرح کئی اور افسران ہیں جن پر کمیشن کی جانب سے کم و بیش اسی نوعیت کی چارج شیٹس عائد کی گئیں۔
یہاں پاکستان میں میری ملاقات اس وقت کے اعلی سطحی انٹیلیجنس افسر سے ہوئی جو ہندوستان کی قید میں رہ چکے تھے اور بعد میں رہا ہوکر پاکستان آئے۔ انھوں نے دوران ملاقات بتایا کہ جب وہ انٹیلیجنس کے لیے کام انجام دے رہے تھے تب ہی انھوں نے شیخ مجیب، جنرل یحی اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کرلیا تھا۔ اس خوف سے کہ اگر وہ مکتی باہنی کے ہاتھ لگ جائیں یہ گرفتار ہوجائیں تو کہیں یہ گفتگو دشمن کیہاتھ نہ لگ جائے، انھوں نے اس خیال سے ان تینوں رہنماؤں کی اس گفتگو کو مخصوص کوڈ میں منتقل کروایا اور نیپال کی شہزادی جو اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی کی طا لبہ تھی اور ان کی بیٹی کی کلاس فیلو تھی، یہ ٹیپ شہزادی کو اس ہدایت کے ساتھ دی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس امانت کو نیپال میں پاکستانی سفارت خانے پہنچا دیا جائے۔ (بعد میں معلوم ہوا کہ شہزادی نے یہ امانت نیپال میں موجود پاکستانی سفارت خانے تک با حفاظت منتقل کردی تھی۔ اس کیاگلے ہی دن ہندوستانی فوج نے ان کو گھر سے گرفتار کرلیا تھا) ان کا کہنا ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کے لیے اس ٹیپ (پیغا م) کا سننا بہت ضروری تھا۔ اس سے سقوط مشرقی پاکستان کا سارا معاملہ کھل کر سامنے آ سکتا تھا۔
حمود الرحمن کمیشن نے حتمی طور پر سقوط کے حوالے سے جو ریمارکس دے وہ اس طرح کے ہیں کہ ” تحقیقاتی کمیشن بیانات اور گواہیوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ” جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ البتہ یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہتھیار ڈالے بنا کوئی چارہ نہیں ہے تو ایسا کرسکتے ہیںاور اگر سمجھتے ہیں کہ جنگ جاری رکھی جاسکتی ہے تو جاری رکھی جائے۔ کمیشن کا خیال ہے کہ جنرل نیازی مزید ایک ہفتے تک بآسانی جنگ جا ری رکھ سکتے تھے۔ مگر حالا ت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے 7 دسمبر کو ہی جنگ جاری نہ رکھنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ مگر جنرل ہیڈ کوارٹر بھی اس الزام سے بری الزمہ نہیں ہوسکتا اس لیے کہ جنگ کے منصوبے کی منظوری ہیڈ کوارٹر نے دی تھی۔ ”
اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن نے صرف بیانات کے نتیجے میں تحقیق نہیں کی بلکہ ہتھیار ڈالنے والے کرداروں کے خلاف مقدمہ چلانا بھی تجویز کیا تھا۔ مگر افسوس اس تجویز پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا۔
کمیشن نے واضع طور پر کہا کہ ” جن اداروں کا نام آیا ہے ان پر مقدمہ چلنا چاہیے، جنرل یحی خان، جنرل عبدالحمید خان، جنرل پیرزادہ، میجر جنرل عمر اور میجر جنرل مٹھا پر اس الزام کے تحت کھلے عام مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی کہ انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے اقتدار چھینا۔اور اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو دھمکیاں اور پیسے کی ترغیب دے کر نتائج پر اثر انداز ہوئے اور ایک ایسی صورتحال پیدا کردی کہ جو سول نافرمانی کی جانب لے کر گئی جس کے نتیجے میں مسلح بغاوت اور ہندوستان کے سامنے ذلت آمیز ہتھیار ڈالنے اور پاکستان کے ٹوٹ جانے کا سانحہ ہوا ”
اب بات کرتے ہیں شیخ مجیب کے اس دعوے کی کہ مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام ہوا۔ اس بے بنیاد دعوے کی ہر سطح پر تحقیق بھی ہوئی اور حمود الرحمن کمیشن نے بھی اس الزام کا جائزہ لیا مگر یہ اعداد و شمار کسی طور بھی درست نہیں مانے گئے،خود ہندوستانی لکھنے والوں نے اس کو مبالغہ آمیز قرار دیا۔ اصل بات یہ تھی کہ جب لندن میں شیخ مجیب سے جو اپنے دوستوں کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھے تھے ایک برطانوی صحافی نے قتل عام کے حوالے سے سوال کیاکہ ” آپ کیا کہتے ہیں کتنے بنگالی مارے گئے ہوں گے ”؟ اس پر شیخ مجیب نے اپنے دوستوں کی جانب دیکھا اور کسی نے کہا ” بیس لاکھ سے تیس لاکھ ”، مجیب نے فورا اس بات کو” بیس تیس” لا کھ کہہ کر آگے بڑھادیا۔ حالانکہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہونے کے بعد جب مجیب نے اس حوالے سے آبادیوں میں سروے کروایا تب بھی بیس اور تیس لا کھ کا دعوی ثابت نہ ہوسکا۔ مگر جو بات مجیب نے اپنے منہ سے کہہ دی اسی کو اصل اعداد و شمار ما ن لیا گیا۔ البتہ حمود الرحمن کمیشن نے اس تعداد کو 26 ہزار تسلیم کیا ہے۔
(جاری ہے)

حصہ